• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قراۃالعین فاروق، حیدرآباد

آج کل بچّوں ہی کی نہیں، بڑوں کی بھی کھانے پینے کی ترجیحات اور پسندوناپسند خاصی تبدیل ہوچُکی ہے۔ پہلےجو کچھ بھی گھرمیں پکتا تھا، گھر کے سب افراد وہی کھاتے تھے۔ یوں ایک ساتھ مِل بیٹھ کر کھانے سے کھانے میں برکت بھی ہوتی تھی اور اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، تو اس دوران سب اس مسئلے کو سُلجھانے کی کوشش بھی کرلیتے تھے۔ 

مل جُل کر کھانا کھاتے ہوئے بچّوں یا بڑوں کے مسائل سُننے کے بعد عموماً گھر کے بزرگ اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں اپنی رائے دیتے۔ یوں اہلِ خانہ کے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے نہ صرف مسئلے مسائل حل ہو جاتے، بلکہ گھر کا ماحول بھی بہت خوش گوار ہوجاتا اور آپس کی محبت و مودت میں بھی اضافہ ہوتا۔

تاہم، اب ماحول بہت بدل چُکا ہے۔ گھروں میں ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا ہے اور نہ ہی اہلِ خانہ ایک دوسرے سے تمام مسائل شیئر کرتے ہیں۔ آج اگر گھر کے کسی فرد بالخصوص بچّوں کو کھانا پسند نہ آئے، تو وہ یا تو اپنے دوستوں کے ساتھ باہر کھانا کھانے چلے جاتے ہیں یا پھر گھر بیٹھے آن لائن آرڈر کرکے منگوا لیتے ہیں، جب کہ بچّوں کے والدین یا سرپرست یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ چلو بچّے نے خوشی خوشی کھانا تو کھا لیا، چاہے وہ بازاری ہی کیوں نہ ہو۔

تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچّوں یا بڑوں نے جو بازاری کھانا کھایا، کیا وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق تیار بھی کیا گیا تھا۔ تو کیا اگر گھر ہی پر، بازاری کھانوں کی طرح کے کھانے تیارکرلیے جائیں، توزیادہ بہتر نہ ہوگا کہ وہ کھانے پھر یقیناً صاف سُتھرے اور صحت بخش ہوں گے اوران کے استعمال سے اہلِ خانہ کی صحت پر ہرگزکسی قسم کے مُضر اثرات بھی مرتّب نہیں ہوں گے۔ نیز، اگر مائیں گھر پہ تیار کردہ کھانے ریسٹورینٹس اور ہوٹلز کے کھانوں کی طرز پر سَرو کریں، تو بازاری کھانوں کے شوقین بچّے یا بڑے اُنہیں کھانے سے قطعاً انکار نہیں کریں گے۔ 

مثلاً کھانے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں کیچ اپ، چٹنیاں یا سلاد وغیرہ رکھ دیں یا ہوٹل کی طرح چائنیز چاول تیار کرکے اُنہیں ایک پیالی میں دبا دبا کر ڈالیں اور پھر اُسے ایک بڑی ڈش پرپلٹ دیں، تو چاول گول پیالی کی صُورت بڑی ڈش میں آجائیں گے۔ اب اُسی پلیٹ کی ایک جانب سالن یا رائتہ ڈال کرسَرو کردیں۔ خُود بتایئں، کھانے کی اِس طرح سجی سجائی پلیٹ دیکھ کر بھلا کون کھانا کھانے سے انکار کرے گا، الٹا خاتونِ خانہ سےسوال کیا جائے گا کہ ’’کیا یہ کھانا بازار سے منگوایا ہے۔‘‘

اور…اب تو انٹرنیٹ پر مختلف ڈِشز کی اس قدر تراکیب دست یاب ہیں کہ خواتینِ خانہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی ہیں کہ وہ آخراِن میں سے کون سی ترکیب استعمال کرکے کھانا تیار کریں۔ قصّہ مختصر، اگر خواتینِ خانہ یا مائیں اپنی روایتی ڈشز بھی صرف نِت نئے طریقوں سے تیار اور سَرو کرنا شروع کردیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ بچّوں یابڑوں کواُنھیں کھانے کی رغبت نہ ہو یا وہ کھانے سے انکار کریں۔ اِس ضمن میں موسمی سبزیوں کی روٹیاں بھی، آٹے میں سبزیاں گوندھ کر بنائی جاسکتی ہیں۔ مثلاً پالک، چقندر یا لوکی وغیرہ کو باریک باریک کاٹ کر تھوڑے سے پانی میں اُبال لیں۔ اور پھر آٹے میں چند مسالےڈال کراُن سبزیوں کے ساتھ ہی گوندھ لیں۔ 

اس کے بعد پتلے پتلے، نرم، خستہ پراٹھے بنالیں۔ اِسی طرح رات کا بچا ہوا سالن یا چکن کی بون لیس بوٹیاں ہلکے مسالے ڈال کر تلی جا سکتی ہیں یا اُنہیں پراٹھوں میں بَھر کر پکایا جا سکتا ہے۔ اوپر سےکوئی چٹنی، کیچ اَپ، مایونیز یا سلاد وغیرہ شامل کرکے رول بنا کے بچّوں کو پیش کریں۔ 

یہ لال، ہرے رنگ کے سبزیوں کے پراٹھے رول، بچّوں کیا، بڑوں کو بھی بہت اٹریکٹ کریں گے اور سب کا یہی سوال ہو گا کہ ’’یہ رولز کیسے بنائے؟‘‘ سبھی نہایت شوق سے گھر میں بنے یہ رولز کھائیں گے اور آپ کی تعریف کیے بنا نہی ںرہ پائیں گے۔ علاوہ ازیں، گھر میں کبھی آلو بَھرے پراٹھے بنائیں، تو کبھی شکربَھرے یا کوئی اورچیز ڈال کر نئی نئی ورائٹیزلائیں۔ 

دراصل روز ایک ہی طرح کے کھانے کھا کھا کر بھی نہ صرف بچّے بلکہ بڑے بھی اُکتاجاتے ہیں۔ لہٰذا، روایتی کھانوں میں تبدیلی ممکن نہیں، تو کم ازکم کھانوں کی تراکیب یا اُنہیں سَرو کرنے کے طریقوں ہی میں ردّوبدل لاکے تمام اہلِ خانہ کو دوبارہ سے ایک میز پر یک جا کیا اور گھر کے کھانوں کا عادی بنایا جا سکتا ہے۔