یہ دنیا فانی ہے، جو بھی یہاں آیا، آخرکار اس دنیا سے کُوچ اُس کا مقدر ہے۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ البتہ بعض شخصیات اپنی پوری زندگی اور بعداز مرگ بھی اپنے اخلاق و کردار کی بدولت تاریخ میں یاد رکھی جاتی ہیں اور بلوچستان کے ضلع مستونگ کے ایک دینی و سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان، سابق سینیٹر حافظ حسین احمد مرحوم بھی اُن ہی میں سے ایک تھے، جو 19مارچ 2025ء کو کوئٹہ میں 74برس کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئے۔ وہ اس عارضی دنیا سے تو رخصت ہوگئے، لیکن تاریخ اور عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
حافظ حسین احمد کا شمار پاکستان کی سینئر اور زیرک سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ وطنِ عزیز میں جمہوریت، جمہوری اقدار اور مظلوموں کی توانا آواز تھے۔ ایوانِ اقتدار میں انہوں نے ہمیشہ مظلوموں، محکوموں کے حقوق اور جمہوری بالادستی کے لیے آواز اٹھائی۔
حافظ حسین احمد نے پانچ دہائیوں پر محیط سیاسی زندگی میں ہمیشہ مساجد، مدارس اور علما وطلبا کے تحفظ اور غریب عوام کے حقوق کی جدوجہد کی۔ وہ 1951ء میں ممتاز عالم دین، مولوی عرض محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قرآن، حدیث، فقہ اور عربی ادب میں حاصل کی اوراپنے والد کے انتقال کے بعد عملی سیاست کا آغازجمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ بلوچستان کی قدیم دینی درس گاہ ’’مدرسہ جامعہ مطلع العلوم‘‘ کے مہتمم بھی تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے مسلک پرکاربند تھے اور دینی علوم میں درسِ نظامی اور حفظِ قرآن کی اسناد رکھتے تھے۔
حافظ حسین احمد کا شمارپاکستان نیشنل الائنس کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ حافظ حسین احمد1988ء سے1990ء تک رکنِ قومی اسمبلی اور 1991ء سے 1994ء تک سینیٹ کے رکن رہے، بعدازاں 2002ء میں ایک بار پھر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 2007ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وہ تنظیم سازی کے امور کے ماہر اور جماعت میں نظم ونسق رکھنے کا ہنر خوب جانتے تھے۔
ان کا شمار جمعیت علمائے اسلام کی سینئر ترین قیادت میں ہوتا تھا۔ وہ جمعیت کے مرکزی نائب امیر، مرکزی سیکرٹری اطلاعات، ڈپٹی جنرل سیکرٹری، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدوں پربھی فائز رہے اور اس دوران بلوچستان سمیت ملک بھر میں جمعیت علمائے اسلام کو فعال و منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
حافظ صاحب اپنی برجستگی اور حاضر جوابی کےضمن میں بھی خاصی شہرت رکھتے تھے۔ اس حوالے سے اُن سے منسوب بہت سے واقعات مشہور ہیں، جو اخبارات میں شائع ہوئے، جن میں سے چند ایک کا تذکرہ یہاں برمحل ہوگا کہ اکثر ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے اراکین اجلاس کے دوران ان کی شگفتہ مزاجی سے خاصے محظوظ ہوتے تھے۔
1990ء کے الیکشن کے بعد حافظ حسین احمد بلوچستان سے سینیٹر بنے۔ ایک دن سینیٹ کے اجلاس کی صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہاں پانیزئی کررہی تھیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب حکومت کی جانب سے پہلی بار بجلی کے بلز پر سرچارج کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اُس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے سخت ردعمل آ رہا تھا۔
حافظ حسین احمد اُٹھے اور کہا۔ ’’وزیرِ خزانہ جناب ’’سرچارج‘‘ عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے؟‘‘ ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز اپنی سیٹ سے اُٹھے اور بولے۔ ’’انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں۔‘‘ حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا، تو وہ کہنے لگے۔ ’’آج اخبار میں سرچار ج کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ہے، وہی اٹک گیا ہو۔ مگر وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے۔‘‘ اس پر سرتاج عزیز انتہائی غصّے میں کھڑے ہوکر کہنے لگے۔ ’’میرا نام سرتاج ہے، سرتاج۔‘‘
یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا۔ ’’محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج کہہ سکتی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نورجہاں پانیزئی چند لمحے خاموش رہیں، پھر کہنے لگیں۔ ’’نہیں نہیں، میں نہیں کہہ سکتی۔‘‘ حافظ حسین احمد نے پھر کہا۔ ’’جب آپ انہیں سرتاج نہیں کہہ سکتیں تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں؟‘‘ اسی طرح ایک دن چیئرمین سینیٹ، وسیم سجاد اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، سیّد اقبال حیدر (مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرہال سے متصل کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے۔
ہال میں ان کی عدم موجودگی پر چیئرمین صاحب نے پوچھا۔ ’’سید اقبال حیدر کہاں ہیں؟‘‘ حافظ حسین احمد نے برجستہ کہا۔ ’’پینے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُننا تھا کہ پورے ہال میں قہقہے لگنا شروع ہوگئے۔ اسی دوران اقبال حیدر ایوان میں داخل ہوئے اور کہنے لگے۔ ’’جناب چیئرمین! حافظ صاحب نے مجھ پر بہتان لگایا ہے۔‘‘ وہ غصّے سے لال پیلے ہورہے تھے۔ حافظ حسین احمد اُٹھے اور کہنے لگے۔ ’’جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے؟ مَیں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں۔‘‘
1988ء کے انتخابات کے نتیجے میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، محترمہ بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ لاہور سے منتخب رکن، ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے اسپیکر بن گئے۔ ایک روز ملک معراج خالد کی زیرِصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ کچھ سوالوں کے جواب، وفاقی وزیرِ داخلہ اعتزاز احسن کو دینے تھے، چوہدری اعتزاز احسن نے ایوان میں آتے ہی اسپیکر سے کہا کہ ’’آج مجھے جلدی ہے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ انہیں جو بھی سوال پوچھنے ہیں، جلدی پوچھ لیں۔‘‘
یہ سن کر حافظ حسین احمد کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟‘‘ جواباً چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ’’وزیرِاعظم، مَری جارہی ہیں۔‘‘ اس پر حافظ حسین احمد نے برجستہ کہا۔ ’’کس پر؟‘‘ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ ایوان میں شور شرابا شروع ہوگیا۔ حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابلِ اعتراض ہیں، ہم واک آؤٹ کریں گے، نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔‘‘
حافظ حسین احمد نے اُن سے پوچھا ’’کون سے الفاظ قابلِ اعتراض ہیں؟‘‘ ملک معراج خالد نے جواب دیا۔ ’’وہ جو قابلِ اعتراض ہیں۔‘‘ حافظ حسین احمدنے وضاحت چاہی کہ ’’مجھے کیسے پتا چلے گا، کون سے الفاظ قابلِ اعتراض ہیں؟‘‘ جس پر اعتزاز احسن نے کہا۔ ’’وہ جو انہوں نے کہا ہے کہ ’’کس پر…؟‘‘ حافظ حسین احمد بولے۔ ’’جناب اسپیکر! میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ وزیراعظم ہیلی کاپٹر پر جارہی ہیں تو پھر تویہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارہی ہیں، تو وزیر موصوف بعد میں اپنی گاڑی پر بھی جاسکتے ہیں۔
مَیں نے یہ پوچھا ہے کہ ’’وہ کس پر مری جارہی ہیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر؟‘‘پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے۔ ’’نہیں! حافظ صاحب کی نیّت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی شامل تھے۔ حافظ حسین احمد کہنے لگے ’’جناب اسپیکر!مجھے اپنی نیّت کا پتا ہے، انہیں میری نیّت کا کس طرح معلوم ہوا؟ ان کی اپنی نیّت غلط ہے۔‘‘ اسی طرح جب رفیق تارڑ، صدرِ مملکت تھے، تو حافظ حسین احمد نے ان کے حوالے سے ایک موقعے پر کہا ’’تو رفیق ہے کسی اور کا، تجھے تاڑتا کوئی اور ہے۔‘‘
حافظ حسین احمد نے ہمیشہ دینِ اسلام کی سربلندی، فیڈریشن کی مضبوطی اور جمہوریت کی بالادستی کی بات کی۔ انتہائی مخلص سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے لیڈر تھے، نہ صرف زیرک سیاست دان تھے، بلکہ سیاست کے بہترین استاد بھی تھے، متعدد سیاسی کارکنوں کی تربیت میں اُن کا اہم کرداررہا۔ نیز، صوبے میں عوامی مسائل کی لاتعداد تحریکوں کی سرپرستی بھی کی۔ حافظ صاحب خالصتاً جمہوریت پسند انسان تھے۔
کئی تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور بلوچستان میں آباد تمام قبائل میں مقبول ترین لیڈر تصور کیے جاتے تھے، خصوصاً ایوانِ بالا اور قومی اسمبلی میں بہت بھرپور انداز میں بلوچستان کی نمائندگی کا حق ادا کیا اور نہ صرف بلوچستان کی آواز بنے، بلکہ مُلک بھر کے مظلوموں، محکوموں کی سرپرستی کی، اُن کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، جب کہ بحیثیت چیئرمین و رکن اسٹینڈنگ کمیٹیز پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
درحقیقت حافظ حسین احمد ایک سوچ، ایک نظریے کا نام تھا۔ کاروانِ جمہوریت کے اِس بہادر سپوت اور ہردل عزیز مذہبی، سیاسی و سماجی رہنما کو یہ دنیا ایک دبنگ، کھرے، دین دوست، آئین پرست اور حق گو جمہوری لیڈر کے طور پر یاد رکھے گی۔ اُن کی وفات سے ملک ایک بزرگ دلیر سیاسی و دینی رہنما سے محروم ہوگیا اور بلاشبہ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ صدیوں میں پورا نہیں ہوگا۔ امید ہے، مرحوم کی پارلیمانی و سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔