وزیراعظم نےمیری باتیں بڑے تحمّل سے سُن کے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ شرکاء میں سے ایک آدھ نےمیری بات کی تائید کی، مگر زیادہ تر خاموش رہے۔ میٹنگ ختم ہوئی تو وزیرِاعظم اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے اور ہم لوگ لاؤنج میں آگئے۔ وہاں پہنچ کر مشاہد حسین سیّد نے اپنے خاص اندازمیں میری تحسین کرتے ہوئے کہا۔ ’’واہ چیمہ صاحب! کمال کردتّا جے، بڑی ٹکا کےگل کیتی اے، انج ای ہونی چاہی دی سی۔‘‘ (واہ چیمہ صاحب! کمال کر دیا، وزیرِاعظم کے سامنےدوٹوک انداز میں بات کی، ایسے ہی ہونی چاہیےتھی) ہمارا خیال تھا کہ سعید مہدی صاحب کو پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر مقرر کیا جائے گا، مگر اُنہیں بوجوہ پرنسپل سیکریٹری کی بجائے چیف سیکریٹری بنا کر سندھ بھیج دیا گیا اور اے زیڈ کےشیردل کو پرنسپل سیکریٹری مقرّرکردیا گیا۔
ایک اورمیٹنگ میں بھی مَیں نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا مافی الضمیر بیان کر دیا تومیٹنگ کے بعد باہرآکرشیردل صاحب بولے۔ ’’آپ نے پرائم منسٹرکےسامنے بڑی جرأت سے صحیح اورصاف بات کی۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’سر! آپ کا شکریہ، مگرکبھی سینئرافسران بھی پرائم منسٹر کے سامنے صاف بات کردیا کریں، تو کوئی حرج تونہیں۔‘‘ اِس پر وہ کوئی جواب دیئے بغیرچلے گئے۔
چند روز بعد امن وامان کے سلسلے میں کیبنٹ میٹنگ ہوئی، جس میں تمام صوبوں کے آئی جی صاحبان شریک ہوئے۔ جب آئی جی پنجاب چوہدری امین کی باری آئی تو اُنہوں نے اپنے کارناموں کے ضمن میں اشتہاریوں کی گرفتاری جیسی غیرمتعلقہ گفتگو شروع کردی، جسے سُن کر مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔ ایک دو وزراء نے کہہ بھی دیا کہ آئی جی پنجاب تھانے داروں کی طرح اشتہاری مجرموں کےاعداد و شمار بتا رہےہیں، یہ کسی ضلعےکی کرائم میٹنگ نہیں، کیبنٹ میٹنگ ہے۔
اُس سے اگلے روز مجھے آئی جی صاحب کا فون آیا کہ ’’لاہور آکر آپ کھانا میرے ساتھ کھائیں گے۔ اور ہاں ایک ضروری بات پرائم منسٹر صاحب کو ضرور بتائیں کہ مَیں ڈی جی خان رہ چُکاہوں اور میرے صدر فاروق لغاری کے ساتھ بڑے اچھے مراسم ہیں۔ اگر مَیں ہی آئی جی رہتا ہوں، تو پرائم منسٹراور پریزیڈنٹ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتا ہوں۔‘‘ مَیں دل میں ہنسا، مگر سنجیدگی سے کہا۔ ’’سر! بالکل صحیح ہے، آپ کی خدمات اور صلاحیتوں سے حکومت کو کم ازکم پانچ سال تک ضرور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔‘‘اِس پروہ خوش ہوکربولے۔’’یہ بات آپ جیسا کوئی قابل افسر ہی سمجھ سکتا ہے۔
آپ کی پی ایم صاحب سے بات ہوجائے، تو آپ نے ڈنرمیرے ساتھ پی سی میں کرنا ہے۔‘‘ چند روز بعد پنجاب میں جہانزیب برکی صاحب کو آئی جی پنجاب لگا دیا گیا، لہٰذا حکومت موصوف کی’’صلاحیتوں‘‘ سے اور مَیں پی سی کے ڈنر سے محروم ہوگیا۔ پرائم منسٹر نے احتساب سیل قائم کرکے سیف الرحمٰن کو انچارج بنادیا۔ سیف الرحمٰن کے ساتھ میاں نواز شریف کے پرانے مراسم تھے۔ وہ ایک پڑھا لکھا، مہذّب، خوش لباس اور خوش شکل نوجوان تھا،تعلق ایک مذہبی گھرانے سےتھا اور ماحول ہی کے باعث ذہنی رجحان مذہب کی جانب تھا، مگرعملی طور پر وہ ایک کاروباری شخص تھا اور ہمیشہ اپنے کاروباری مفاد ہی کو بالاتر رکھتا تھا۔
سچّی بات یہ ہے کہ وہ احتساب کے بنیادی تصوّر، اُس کی اصل رُوح سے ناآشنا تھا۔ دوم یہ کہ اُسے گورنینس یا کرمنل جسٹس سسٹم کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس لیے وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ احتساب کا عمل کیسے شروع کیا اورانجام تک کیسے پہنچایا جائے، تو وہ یہ سارا پراسس سمجھنے کے لیے اکثر میرے پاس آجاتا۔ مَیں اُسے کاغذ پر diagrams بنا کرسمجھاتا کہ اِس کےلیے سب سے پہلے ایمان دار اور قابل تفتیشی افسر چاہئیں، جوکرپشن میں ملوّث مجرموں کا سراغ لگائیں اور پھر اُن کے کیسزعدالتوں میں بھیجیں، جہاں مضبوط شہادتوں اور ثبوتوں کے ساتھ اُنہیں سزادلوائی جائے۔
مَیں نےسیف الرحمٰن کو مشورہ دیا کہ پورے مُلک سے اچھی شہرت کے پولیس افسران کو یہ ٹاسک سونپا جا سکتا ہے، مگراس سارےعمل کی نگرانی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کریں۔ اُس وقت ڈی جی، ایف آئی اے خاور زمان صاحب تھے جو اچھی شہرت کےمالک تھے۔ اگرچہ وہ کوئی زیادہ متحّرک لیڈر یا go getter قسم کے افسر نہیں تھے، مگر ایک شریف اور ایمان دار آدمی تھے۔ آغاز ایسے ہی ہوا اور مختلف صوبوں سے بہت اچھی شہرت کے ایس ایس پی اور ایس پی صاحبان اسلام آباد بلالیےگئے۔
پشاور سے سعد ملک اور کراچی سے اے ڈی خواجہ، ثناء اللہ عباسی وغیرہ کو بلایا گیا، جنہوں نے بڑی نیک نیّتی اور غیرجانب داری کےساتھ کام شروع کر دیا، مگر پھرہوایہ کہ شیردل صاحب نے پرائم منسٹر آفس میں اپنے سروس گروپ کے افسران اکٹھے کرنے شروع کردیئے۔پہلے خواجہ ظہیر بطورجوائنٹ سیکریٹری آئے، پھر حسن وسیم افضل آگئے اور پھر آتے چلے گئے۔
خواجہ ظہیر اور حسن وسیم افضل نے سیف الرحمٰن کو ایسی پٹیاں پڑھائیں کہ عملی طور پر احتساب سیل ٹیک اوورہی کرلیا۔ حسن وسیم نےاعلیٰ پولیس افسران کو پرائم منسٹرآفس کے گراؤنڈ فلور پر ایک بڑے ہال میں کسی بینک کے کیشیئرز کی طرح بٹھادیا اور خُود منیجرکی طرح کبھی کبھار وہاں کا چکر لگالیتا اور ہیلو ہائے کرکے اپنے آفس چلا جاتا۔ احتساب کےغلط سمت جانے سے ایک آدھ بار میری سیف الرحمٰن سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ وزیرِاعظم کی طرف سے مجھے اور پر ویزر اٹھور (وزیرِاعظم کے چیف سیکیوریٹی آفیسر) کو بھی کرپشن میں ملوّث افسران کی فہرستیں تیار کرنے کی ذمّےداری سونپی گئی۔
ہم نے مختلف ذرائع سےحقائق معلوم کیےاوربڑی چھان پھٹک کے بعد پولیس اور ڈی ایم جی کے بدنام افسران کی لسٹیں تیار کیں۔ حتمی اعلان سے ایک روز پہلے ایک لسٹ فائنل ہوگئی مگر دوسرے روز جولسٹ اخبارات میں چَھپی، وہ مختلف تھی۔ ڈی ایم جی کے سولہ میں سے آٹھ افسران کے نام حذف کردیئے گئےتھے اور انکم ٹیکس اور کسٹمز سروس کے کئی ایسے افسران کو بھی معطل کردیا گیا، جن کی شہرت اچھی تھی۔ انکم ٹیکس سروس کے ایک سینئر اور نیک نام آفیسر خالد محمود(جونوازشریف صاحب کےقریب سمجھے جاتےتھے اور بعد میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے) اُسی شام پی ایم ہاؤس کی لابی میں ملے اور فہرست پر اپنے شدید تحفّظات کا اظہار کرتے رہے۔ اس پر مَیں نے پرائم منسٹر تک اپنے تحفظات پہنچانے کا فیصلہ کیا۔
مَیں پی ایم ہاؤس پہنچا، تومغرب کی اذان ہورہی تھی، نماز پی ایم کے دفتر کےساتھ ملحقہ لائبریری ہی میں پڑھی جاتی تھی۔ مَیں بھی نمازمیں شامل ہوگیا۔ نماز سے فارغ ہوکر پرائم منسٹرجانے لگے، تو مَیں نے اُنہیں روک لیا اور کہا۔ ’’سر! مشترکہ طور پرجو لسٹیں تیار کی گئی تھیں، وہ اور تھیں، آج جو اخبارات کو جاری کی گئی ہیں، یہ مختلف ہیں۔‘‘پھرکچھ توقّف کے بعد کہا کہ ’’سر! احتساب بڑا حسّاس معاملہ ہے، اس کا ہم سب کواللہ کے ہاں جواب دینا ہوگا۔ اِس میں پسند و ناپسند کی بجائےصرف میرٹ اورانصاف کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔
میرے خیال میں سیف الرحمٰن صاحب اس حسّاس ذمّےداری کے لیے موزوں نہیں۔ اس کام کے لیے کوئی نیک نام ریٹائرڈ جج ہونا چاہیے تھا۔‘‘ نوازشریف صاحب نے بہت تحمّل سے میری بات سُنی اور کہا۔ ’’آپ جاکر سیف الرحمٰن کو سمجھائیں۔‘‘ جو شخص پرائم منسٹر کا قابلِ اعتماد دوست تھا اورجو اُن سے بیڈروم میں بھی مل سکتا تھا، اُسے ایک جونیئر پولیس افسر کیاسمجھاتا۔ مَیں اس سے پہلے احتساب ہی کے حوالےسےقانونی رہنمائی کےلیےقابل اورایمان دار جج صاحبان سے ملتا رہا تھا۔
اُن میں سے جسٹس ملک اختر حسن اور جسٹس عبدالمجید ٹوانہ کو پرائم منسٹر سے بھی ملوایا اور انہوں نے میاں صاحب کے سامنے بڑے واضح الفاظ میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ ایک بارسیف الرحمٰن کی خواہش پر مَیں اُسے جسٹس عبدالحفیظ چیمہ کی (جو ہمارے قریبی عزیز ہیں) رہائش گاہ بھی لے گیا اور انہوں نے بھی احتساب کےحوالے سے بہترین رہنمائی کی۔ بہرحال، مَیں نےپہلی لسٹ کے بعد ہی خُود کو احتساب کے اس مشکوک عمل سے علیحدہ کرلیا۔
پرائم منسٹرکی اسٹاف افسری کی وجہ سے ایک کارِخیرایسا ہوا، جس پر مجھے بےحدخوشی ہوئی۔ پولیس اور ڈی ایم جی کے افسران کےلیے لازم ہوتا ہےکہ وہ کچھ عرصہ دوسرے صوبوں میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ مختلف حکومتیں بین الصوبائی تعیناتیوں کے سلسلے میں پالیسی بناتی ہیں اور پھر تگڑی سفارشوں کے سبب خُود ہی اس پالیسی کو پامال کردیتی ہیں۔ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا(جو سول سرونٹس کا جی ایچ کیو ہے) کردار صرف ڈاک خانےکا رہ جاتا ہے۔
اثرورسوخ نہ رکھنے والے افسران کئی کئی سال تک بلوچستان اور ایف سی میں پڑے رہتے ہیں، جب کہ بااثر افسران ایک دن کےلیے بھی اپنے صوبے سے باہر نہیں جاتے۔ مَیں نے کافی محنت کرکے ایسےافسران کی لسٹ بنائی، جو کئی سالوں سے دوسرے صوبوں میں تعیّنات تھے اور ان بےچاروں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا اورایک شام جب وزیرِاعظم صاحب کا موڈ بڑا خوش گوار تھا، اُن سے 25 افسران کی اپنے صوبوں میں تعیّناتی کی منظوری لے لی (اُن میں کئی ایسے بھی تھے، جو آٹھ سالوں سے ایف سی میں تھے اور کوئی اُنہیں انصاف دینے والا نہ تھا) خیر، لسٹ پرنسپل سیکریٹری کے حوالے کی، تو دوتین مرتبہ یاد دہانی کے بعد شیردل صاحب نے پی ایم کی ہدایات کےساتھ لسٹ اسٹیبلشمینٹ سیکریٹری کو بھیج دی۔
افضل کہوٹ صاحب اُن دنوں اسٹیبلشمینٹ سیکریٹری تھے، جو منفی سوچ اورجائز کام میں بھی رکاوٹ ڈالنےکی شہرت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے کچھ دن لسٹ اپنے پاس رکھی اور پھراعتراض لگادیا کہ25 افسران کی اکٹھی بین الصوبائی ٹرانسفرکبھی نہیں ہوئی۔ اس پر مجھے پرائم منسٹر کے اسٹاف افسر کے طور پر اُنہیں سخت لہجے میں ان تبدیلیوں کی اہمیت بتانی پڑی، جس پر انہوں نے بادلِ نخواستہ نوٹی فیکیشنز جاری کر دیئے۔
سنگین نوعیت کے واقعات جہاں بھی ہوتے، مَیں پرائم منسٹر کو تحریری طور پر آگاہ کرتا۔ چند جگہوں پر اُن کے دورے بھی ہوئے، مگراب وہ احتساب کی بجائے آٹھویں ترمیم کے خاتمے کے ضمن میں سیاسی قیادت میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں زیادہ مصروف ہوگئے تھے۔ سابقہ دور میں،کراچی میں بے نظیر حکومت کا آپریشن گرچہ politically motivated تھا، جو شہر کے تمام دہشت گردوں، مجرموں کے خلاف نہیں، صرف ایک جماعت کے خلاف تھا،جب کہ بےنظیربھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اوراس کے ساتھیوں کوکھلی چھوٹ تھی (اس حوالے سے اُس وقت کے ڈی آئی جی کراچی، شعیب سڈل کا بیان موجود ہے کہ ہمیں وزیرِاعظم بےنظیر بھٹو کی طرف سے مرتضیٰ بھٹو کےخلاف کارروائی کرنےکی اجازت نہیں تھی) مگر مرتضٰی بھٹو کے قتل کے بعد جب حکومت تبدیل ہوئی اورمیاں صاحب وزیرِاعظم بنے تو سندھ میں مسلم لیگ نون، ایم کیو ایم کے ساتھ مل کرحکومت بنانے میں کام یاب ہوگئی۔ مسلم لیگ کے لیاقت جتوئی وزیرِاعلیٰ سندھ بن گئے اور حکومت میں آکر ایم کیو ایم نے اُن تمام پولیس افسروں کو، جو اُن کے خلاف آپریشن میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے تھے، قتل کروانا شروع کر دیا۔
چند ماہ میں کئی انسپکٹر اورڈی ایس پیز قتل ہوگئے۔ مجھے سندھ کے پولیس افسران نے بتایا کہ ایم کیو ایم کا عسکری ونگ پولیس افسران کو چُن چُن کر ماررہا ہے، جس سے پولیس کے مورال پر بہت بُرا اثرپڑرہا ہے، اِس ظلم کو بھی وزیرِاعظم کےنوٹس میں لائیں، چناں چہ مَیں نے چند ایسے واقعات کی تفصیل منگوائی اورنوٹ لکھ کر پرائم منسٹرکو دیا کہ دورۂ کراچی کے دوران آپ دو مقتول پولیس افسران کے گھر بھی جائیں تاکہ پولیس کو کچھ حوصلہ ملے۔ اُن کے کراچی جانے سے ایک روز پہلے مجھے بتایا گیا کہ ’’آپ بھی کراچی جا رہے ہیں اور پرائم منسٹرمقتولین کے گھر بھی جائیں گے۔‘‘ مگر پھر راتوں رات ایم کیو ایم کے لیڈرزنے وزیرِاعلیٰ لیاقت جتوئی کے ذریعےپی ایم اسٹاف کومقتول پولیس افسران کےگھر نہ جانے پرقائل کرلیا۔ مجھے جہاز میں بتایا گیا کہ پرائم منسٹر کا پروگرام تبدیل ہوگیا ہے۔
مَیں نے بھی ہمّت نہ ہاری اور کچھ پولیس افسروں کے ذمّے لگایا کہ مقتول افسران کے ورثاء کو لے کر گورنر ہاؤس پہنچ جائیں۔ مَیں وہاں اُنہیں پرائم منسٹر سے ملواؤں گا۔ (سی پی ایل سی کے جمیل یوسف کو بھی راقم نے اِسی طرح زبردستی وزیرِاعظم نوازشریف سے ملوایا تھا)مظلوم خاندان کے بچّے، خواتین گورنر ہاؤس پہنچ گئے اور مَیں نے اُنہیں ایک علیحدہ کمرے میں بٹھایا دیا۔ پھر میٹنگز میں تھوڑا سا وقفہ دیکھ کرپرائم منسٹر کو بتایا کہ آپ نے جن مقتولین کے گھر جانا تھا، مگر نہیں جاسکے، اُن کے مظلوم خاندان یہاں موجود ہیں۔ آپ پانچ منٹ کے لیے اُن سےمل لیں اورمتعلقہ افسران کوانصاف دینے کی ہدایات جاری کردیں۔ پرائم منسٹرتیار ہوگئے۔
ایک مقتول ڈی ایس پی کی بیوہ اورایک مقتول انسپکٹرکی بیٹی نے جب ظلم کےسچّے واقعات سنائے، تو وزیرِاعظم آب دیدہ ہوگئے۔ اُنہوں نے فوراً پوچھا۔ آئی جی کہاں ہے؟ آئی جی آفتاب نبی کو(جو ایم کیو ایم ہی کے ایک ایم این اے کے بھائی تھے،مگربڑے کم زورافسر تھے)بلایا گیا۔ پرائم منسٹر نے اُن سے پوچھا کہ’’آپ نے پتا کیاہے کہ انہیں کس نے قتل کیا؟‘‘ آئی جی نے لڑکھڑاتی زبان میں کہا۔ ’’سر! ایلفا والوں نے۔‘‘ پرائم منسٹر کو ایلفا کی سمجھ نہ آئی تو دوبارہ پوچھا۔’’کس نے کیا ہے؟‘‘
اس پر آئی جی نے وضاحت کی کہ ’’ایم کیو ایم کےmilitant wing نے۔‘‘ اس پر پرائم منسٹرنےکہا۔ ’’انہیں قتل کرنے کی ہدایات کس نےدی تھیں؟‘‘ اِس پرآئی جی کو کہنا پڑا کہ’’اُس کے سیکٹر کمانڈر نے۔‘‘ پی ایم نے پوچھا۔ ’’اوراُس کو کس نے ہدایات دی تھیں؟‘‘ اس پرآئی جی نےکہا۔ ’’سر!اُس کےکمانڈر نے۔‘‘ اب پرائم منسٹراصل حقائق سمجھ گئے۔ اس موقعے پر وزیرِاعلیٰ لیاقت جتوئی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’سر! ہم اس کی شفّاف تفتیش کریں گے۔ مَیں خُود اصل قاتل گرفتار کرکے آپ کو رپورٹ پیش کروں گا۔‘‘پرائم منسٹر نے زور دے کر کہا۔’’مجھے ایک ہفتے کے اندر رپورٹ چاہیے۔‘‘پرائم منسٹر تو ہدایت دے کرچلے گئے، مگر مقتولین کے ورثاء کی پرائم منسٹر سے ملاقات پر ایم کیو ایم کے لیڈر سخت برہم ہوئے۔ لیاقت جتوئی بھی بہت خفا تھے۔
اُنھوں نے چیف سیکریٹری سندھ، سعید مہدی صاحب سے پوچھاکہ ایساکیوں کیا گیا ہے، ہمیں سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوگا۔ مہدی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ’’کرنے والا یہ بیٹھا ہوا ہے، اِس سے بات کرلیں۔‘‘وزیرِاعلیٰ سندھ میرے پاس آئے اور بولے۔ ’’آپ ایسی ملاقاتیں کروانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کر لیا کریں، کچھ چیزوں کا سیاسی فال آؤٹ بھی ہوتا ہے، ہمیں وہ بھی دیکھناپڑتا ہے۔‘‘
مَیں نے جواب دیا۔ ’’سر! میرے ذمّے مظلوموں کو انصاف دلاناہے اورانصاف توسیاسی نفع نقصان سے بالاترہوکرہی کیا جاتاہے۔‘‘ وزیرِاعلیٰ کو میرا جواب بالکل پسند نہ آیا اور وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔ بہرحال، میرا جو فرض تھا، مَیں نے دیانت داری سے ادا کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرائم منسٹر نے حکیم محمد سعید صاحب جیسی عظیم شخصیت کے قتل کے بعد الطاف اینڈ کمپنی سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ (جاری ہے)