میرے گھر والوں کو دیارِغیر میں میری بیماری اور اسپتال داخل ہونےکی خبرمِل چُکی تھی، اِس لیے سب بہت پریشان تھے۔ والدہ صاحبہ مجھ سے ملنے گاؤں سے اسلام آباد آگئی تھیں۔ چھے ماہ افریقا میں گزار کر مَیں کچھ کم زور ہوگیا تھا، مگرصحت ٹھیک ہی تھی، سب مجھ سےمِل کے بہت خوش ہوئے۔ کم زوری بھی چند ہفتوں میں جاتی رہی۔ کچھ دن آرام کے بعد مَیں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ہیڈ کوارٹر، پشاور میں کمانڈنٹ سعید خان سے ملنے (یا رپورٹ کرنے) گیا، تو انھوں نے پھر گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھ پر بہت دباؤ تھا، بہت سےافسر شبقدر تعیّناتی کےخواہش مند تھے، مگر مَیں نے اِس جگہ کو بڑی مشکل سے آپ کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے، فوراً جاکر چارج سنبھال لیں۔‘‘
چناں چہ مَیں نے دوسرے ہی روز جاکر ڈسٹرکٹ آفیسر شبقدر کا چارج سنبھال لیا۔ وہاں پہنچ کرپتا چلا کہ اے ایس پی صاحبان واپس جاچُکے ہیں اور اب نیا بَبچ نہیں آئے گا۔ شبقدر کا ماحول بڑا اداس اور سُونا سُونا سا لگا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پولیس اکیڈمی کے نئے کمانڈنٹ نے اے ایس پیز کے دونوں بَیچ پولیس اکیڈمی میں بُلا لیے ہیں۔ کچھ ہفتوں بعد میرے پرانے دوست پرویز راٹھور(جو آئی جی اسلام آباد بھی رہے) اور ظفر عباس لک (جو آئی جی موٹروے رہے) بھی میری طرح کچھ ناکردہ جرائم کی پاداش میں ایف سی میں بھیج دیئے گئے۔ راٹھور صاحب حیات آباد اور لک صاحب بنوّں تعیّنات ہوگئے۔
ان کے علاوہ خالد قریشی بھی ایف سی پہنچ کر سوات تعینات ہوگئے۔ سب لوگ میرے پاس شبقدرآتے رہتے تھے۔ ایک بار مہر ظفر عباس اور مَیں اکٹھے سوات گئے، جہاں ایک رات ہمارے دوست کیپٹن یوسف نے (جو وہاں اے ڈی سی جی تھے) اپنے گھر پر اور دوسری رات ڈی آئی جی، سوات چوہدری یعقوب نے فِزاگٹ ریسٹ ہاؤس پر کھانے کا اہتمام کیا۔ اُس رات چاند کی چودھویں تاریخ تھی اور نیچے دریائےسوات بہہ رہا تھا۔ کیا ہی دل کش، رُوح پرورنظارہ تھا، مگر چوہدری صاحب کا اتنے حسین مقام پر بھی دل نہیں لگتا تھا اور وہ ہر وقت لاہور کےلیے بےقرار رہتے تھے۔
ایک باراسلام آباد سے باجی جبیں کے بچّے سعد، ملیحہ اوراُسامہ میرے پاس شبقدر آئے ہوئے تھے، لاہور سے طیّب حفیظ بھی میرے پاس سی ایس ایس کی تیاری کےلیےآگیا۔ کیپٹن یوسف اُن دنوں ڈی سی چترال تھے۔ اُن کی دعوت پرہم سب نے چترال جانے کا پروگرام بنالیا۔ موسم خراب ہونے کی وجہ سے جہاز پر نہ جاسکے، تو جیپ ہی پرنکل کھڑے ہوئے، دِیر سے لواری ٹاپ تک سڑک پر اتنے گہرے گڑھے تھے کہ انجر پنجر ہل گیا۔ چترال کا ڈی سی ہاؤس دیکھ کرہی اُسامہ نے ڈی سی بننے کا فیصلہ کیا تھا(اللہ نے اُس کی خواہش پوری بھی کی، مگر پھرجلد ہی اپنے پاس بلالیا)چند ماہ بعد ایف سی کے کمانڈنٹ سعید خان آئی جی سندھ بن کر چلے گئے اور وہاں سے افضل علی شگری ایف سی کے کمانڈنٹ بن کر آگئے۔
اُدھر بےنظیرحکومت نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کردیا، ساتھ ہی اے ایس پیز کے دونوں بَیچ ایف سی کی بجائے کراچی تعینات کر دئیے گئے۔ شگری صاحب نے مجھےاور ایس ایس پی اشرف علی(مرحوم) کو کراچی بھیجا، جہاں ہم نے ایلیٹ پولیس کے ٹریننگ سینٹر کا تفصیلی دورہ کیا اور کولڈڈرنک بنانے کا فارمولا بھی اسٹڈی کیا۔ کراچی میں ہمیں آئی جی سعید خان نے ایک اچھے ہوٹل میں ڈنر پر مدعو کیا، جس میں ڈی آئی جی شعیب سڈل بھی موجود تھے۔
کھانے پر صرف چار لوگ تھے۔ مَیں نے کہا کہ ’’حقیقت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کراچی پر قبضےکی جنگ ہے، جس میں اچھے افسروں کو استعمال ہو کے متنازع نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ڈی آئی جی شعیب سڈل نے کہا کہ’’مَیں نہیں کروں گا، تو کوئی اور افسر یہ کام کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا۔‘‘ بہرحال ہم اُنہیں قائل نہ کرسکےاور اپنا کام مکمل کرکے واپس آگئے۔ شبقدر میں پا سنگ آؤٹ پریڈ ایک بڑا ایونٹ ہوتا تھا، جس میں گورنر، وزیرِاعلیٰ یا متعلقہ وفاقی وزیرمہمانِ خصوصی ہوتا۔
آخری تقریب کے مہمانِ خصوصی سیکریٹری سیفرون عباس خان (کے پی اور سندھ میں آئی جی رہے) تھے، جنہیں مرحوم لکھتے ہاتھ کانپتا ہے۔ اونچے لمبے سرخ وسفید بےحد ہینڈسم۔ وردی میں انگریز یا جرمن فوج کے جرنیل لگتے تھے۔ پریڈ کے بعد ہم اُنہیں چائے کے لیے لان میں لائے، جہاں کھڑے ہوکرانہوں نے پورے کیمپس پر نظر ڈالی تو بہت متاثر ہوئے اور کافی دیر تک اُس کی تعریف کرتے رہے۔
ایف سی میں اور شبقدر جیسی جگہ پر مَیں نے پوری dedication کے ساتھ دن رات کام کیا اور انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ ایف سی کے تربیتی معیار اور فورس کی ورکنگ میں بہتری کےلیےسخت محنت کی۔ مگر مجھے وہاں تین سال ہوگئے تھے، تو مزید رہنے میں کوئی دل چسپی نہیں رہی تھی۔ سو، واپسی کی دُعائیں مانگنا شروع کردی تھیں اور پھر بالآخر قبولیت کی گھڑی آن پہنچی۔
ستمبر 1996ء کا آغاز تھا، جب آدھی رات کے بعد میرے فون کی گھنٹی بجی۔ مَیں نے نیند سے بے دار ہوکر سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون اُٹھایا تو قبائلی علاقےسے تعلق رکھنے والے آپریٹر نے کہا۔’ ’سر! آپ کا بھائی ڈاکٹر نثار صاحب ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد سے فون کرتا تھا۔‘‘ مَیں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’خیریت تو تھی؟‘‘ آپریٹر نےکہا۔’’آپ نے فون نہیں اُٹھایا تھا، اب تھوڑی دیر پہلے پھروہ فون کرکے پیغام دیتا ہے۔‘‘ مَیں نے پوچھا۔’’کیا پیغام دیا ہے؟‘‘ آپریٹر نے جواب دیا۔ ’’اُس نے بتایا کہ بےنظیرحکومت ختم ہوگیا ہے اور ملک خالد (معراج خالد صاحب) وزیرِاعظم بن گیا ہے۔‘‘ مَیں نے اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا۔ اب نیند کہاں آنی تھی۔
سو مَیں جاگتا رہا۔ فجر کی اذان ہوئی، تو نماز کی ادائی کے لیے مسجد چلا گیا۔ وہاں کسی کوکچھ خبر نہیں تھی، نہ ہی مَیں نے کسی کو کچھ بتایا، مگر صُبح تک جب بات پھیل گئی تو لوگوں نے خوشی کے اظہار کے لیے علاقے کی روایات کے مطابق ہوائی فائرنگ شروع کر دی، جو سارا دن جاری رہی۔ اِس بارحُکم رانوں نے کرپشن کی انتہا کردی تھی، جس سے لوگ بہت تنگ تھے اوردن رات حکومت کے خاتمے کی دُعائیں مانگتے تھے، جو بالآخر قبول ہوئیں۔ ملک معراج خالد کے ساتھ ہمارے دیرینہ خاندانی مراسم تھے۔ ہم تمام بہن بھائی اُنہیں ’’چاچا جی‘‘ اوراُن کی بیگم صاحبہ کو’’چاچی جی‘‘ کہتے تھے۔ بھائی نثار اُن کے بہت فیورٹ تھے۔
دوسرے روزوہ ملک صاحب کومبارک باد دینے گئے توملک صاحب نے میرا بھی پوچھا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ’’اسے victimise کیا گیا ہے اور وہ پچھلے تین سال سے فرنٹیئر کانسٹبلری میں ہے۔‘‘ تو نگران وزیراعظم، ملک معراج خالد نے میری ٹرانسفر کی ہدایات دے دیں۔ ایک دو روزبعد میرا پنجاب تبادلے کا نوٹیفیکیشن آگیا۔ آخری روز مجھے شبقدر سے لینے میرے دوست پرویز راٹھور اور خالد محمود (جو میرااےڈی او رہ چُکا تھا اور پھر موٹروے پولیس کا آئی جی بھی رہا) شبقدر پہنچ گئے۔ ایف سی کےسادہ،انتہائی مخلص جوانوں اور افسروں نے پہلے مجھے ہاروں سے لاد دیا اور پھر بینڈ باجے کے ساتھ رخصت کیا۔
نگراں حکومت نےغالباً صدر فاروق لغاری کی سفارش پر چوہدری امین کو آئی جی پنجاب لگا دیا۔ موصوف مختلف جگہوں پر ڈی آئی جی بھی رہ چُکے تھے اور اپنے جعلی ’’کارناموں‘‘کی وجہ سےمشہور تھے۔ اُنہیں ہر سال مالِ مسروقہ کی برآمدگی میں پورے صوبے میں اوّل آنے کا شوق تھا۔
اِسی شوق میں ایک بار انہوں نے معقول معاوضے پرمختلف دیہات کے لوہاروں کی خدمات حاصل کیں اور اُن سے جعلی اسلحہ بنوا کر، اُس کی مجرموں سے برآمدگی ظاہر کر دی اور اُن کے اپنے ہی کسی مُخبریا کسی لوہار نے، جسے پورا معاوضہ نہیں مِلا تھا، بات لیک کردی، جو آئی جی صاحب زادہ رؤف علی تک پہنچ گئی۔ اُنہوں نے بَھری میٹنگ میں موصوف کو ’’ڈی آئی جی ریکوری‘‘ کا خطاب دینے کے بعدخُوب کلاس لی۔ مگر صاحب زادہ صاحب کے بعد بھی موصوف کی ’’ریکوریاں‘‘ اِسی طرح جاری رہیں۔ پنجاب واپس جانے کے بعد مَیں آئی جی پنجاب سے ملا۔
وہ میری integrity اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے رہے، مگر مَیں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے کسی ضلعے میں تعینات نہیں کرنا چاہتے۔ اُن کے اسٹاف سے معلوم ہوا کہ اُنہوں نے رینکر ایس پی ضلعوں میں لگائے ہیں اور ’’کہیں سے‘‘ ہدایات لے کر افسروں کو تعینات کررہے ہیں۔ بہرحال، مجھے پنجاب کی کرائمز برانچ میں تعینات کردیا گیا۔ اُس وقت کرائمزبرانچ کا دفتروہاں ہوتا تھا، جہاں آج کل آئی جی آفس ہے۔
مجھےعمارت کے بائیں کونےمیں ایک چھوٹا سا کمرا ملا، مگر مَیں نے بڑی محنت اور لگن سے بڑے مشکل کیسزکی تفتیش مکمل کردی۔ ڈی آئی جی اورآئی جی کی طرف سے بھی مجھے ہائی پروفائل کیسز کی تفتیشیں بھیجی جانے لگیں۔ مَیں پنجاب کے مختلف علاقوں میں موقعے پربھی جایا کرتا تھا تاکہ حقائق جاننے میں مدد مل سکے۔ جو افسر موقعے پر نہیں جاتے اور دفاتر میں بیٹھ کر ہی مقدمات کی رپورٹس لکھ دیتے ہیں، اُن کی تفتیش ناقص ہوتی ہےاور وہ اصل حقائق کی عکاسی نہیں کرتی۔ کرائمز برانچ کے سربراہ، چوہدری عرفان محمود تھے، جو ایک اچھے راجپوت کی طرح کھرے آدمی تھے، مجھے پسند بھی کرتے تھے اور سپورٹ بھی۔ تھوڑا سا عرصہ وہاں رہ کر مَیں نے بہت سا backlog نکال دیا۔
چوں کہ اپوزیشن نے بےنظیر حکومت کی کرپشن کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اس لیے 1997ء کے انتخابات میں ’’احتساب‘‘ ہی میاں نواز شریف کا انتخابی نعرہ تھا۔ وہ ہر جلسے میں لُوٹ مار کرنے والوں کے احتساب کا اعلان کرتے تھے۔ میاں صاحب اور بےنظیر صاحبہ کے جلسوں کی حاضری اورجوش وخروش میں بڑا واضح فرق ہوتا تھا اور نتائج واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ توقّع کے مطابق 1997ءکے انتخابات میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے جیت گئے۔
اُن کی پارٹی کودو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی اور وہ دوسری بار وزیرِاعظم منتخب ہوگئے۔ الیکشن کے دو ڈھائی ہفتے بعد نوازشریف صاحب کی بطور وزیرِاعظم حلف ِ وفاداری کی تقریب تھی۔ سابق اسٹاف افسر کی حیثیت سے مجھے بھی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ مَیں لاہور سے رات ہی کو راول پنڈی پہنچ گیا۔ رات اپنے بھائی ڈاکٹر نثار احمد کےگھر(جو اُس وقت ہولی فیملی اسپتال کے ڈپٹی ایم ایس تھے) رہا اورصُبح تیار ہوکر ایوانِ صدر پہنچ گیا۔
سب سے اگلی قطاروں میں سروس چیفس اور نگران وزیرِاعظم اور اُن کی کابینہ کے ارکان بیٹھے تھے۔ ایوانِ صدر کے پروٹوکول کے اہل کاروں نے مجھے پہچان کر مجھے میری نشست پر بٹھا دیا۔ نواز شریف صاحب قومی لباس (شیروانی اور جناح کیپ) میں ملبوس صدر فاروق لغاری کے ساتھ دربارہال میں داخل ہوئے، تو اُن کا چہرہ دمک رہا تھا۔ مختصر سی تقریب تھی، نئے وزیراعظم نے حلف اٹھایا اور اُس کے ساتھ ہی مہمان اور شرکاء چائے کے لیے دوسرے ہال جانے لگے۔ حلف ختم ہوتے ہی ہر طرف سے وزیرِ اعظم پرمبارک باد دینے والوں کی یلغار ہوگئی، کوئی معانقے کی کوشش میں تھا اور کوئی مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا رہا تھا۔
چند لوگوں کو، جن میں شفقت محمود (جوبے نظیر سےبےوفائی کرکے فاروق لغاری سے مل گئے تھے۔ پیپلزپارٹی میں سیاسی کیریئرختم ہوا تو پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، مگر مشکل وقت میں اُن سے بھی وفا نہ کی) بھی شامل تھے، مَیں نے نواز شریف صاحب کے پیچھے بھاگتے دیکھا، مگر رش کی وجہ سے وہ ہاتھ ملانے میں کام یاب نہ ہوسکے۔ رش اِس قدر زیادہ تھا کہ مَیں نے چائے پیے بغیر واپسی کا فیصلہ کیا۔ ابھی واپس مُڑا ہی تھا کہ اپنے دوست مسعود ملک (ایک باضمیر صحافی، جو اے پی پی کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ اُنہیں بھی مرحوم لکھتے قلم کانپتا ہے) سےٹاکرا ہوگیا۔
ملتے ہی کہنے لگے۔ ’’آپ نے میاں صاحب کو مبارک باد دے دی؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’رش زیادہ ہے، مَیں تو واپس جا رہا ہوں۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ میاں صاحب سے ملے بغیر واپس چلے جائیں؟‘‘اور پکڑکراُس طرف لےگئے، جدھر میاں صاحب ہجوم میں گھرے ہوئے تھے۔ اِس دوران اچانک نواز شریف صاحب کی نظرمجھ پر پڑ گئی، تو وہ رُک گئے۔ اُن کے سیکیوریٹی گارڈز نے رستہ بنا دیا اور مَیں اُن تک پہنچ گیا۔ پرائم منسٹربڑی گرم جوشی سےگلے ملے اور کہا ’’فوراً پرائم منسٹر ہاؤس پہنچ جائیں، مَیں بھی وہیں آرہا ہوں۔‘‘مَیں واپس لاہور جانے والا تھا، مگر اب پروگرام ملتوی کرنا پڑا اورپھر کچھ ہی دیر بعد پرائم منسٹر ہاؤس پہنچ گیا۔ اُس روز پی ایم ہاؤس میں مکمل خاموشی تھی۔
ملٹری اسٹاف کے علاوہ صرف انور زاہد (جنہیں اسپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر مقرر کیا گیا تھا) موجود تھے۔ تھوڑی دیربعد ڈی ایم ایس نے مجھے اطلاع دی کہ آپ کو پی ایم نے بلایا ہے اور مجھے لےکر پرائم منسٹر کے رہائشی حصّے میں چلا گیا۔ مَیں لاؤنج میں بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد نوازشریف بھی وہیں آگئے، وہ پاجاما پہنے ہوئے تھے اور مکمّل طور پر relaxed لگ رہے تھے۔چند رسمی جملوں کے بعد بولے۔ ’’چیمہ صاحب! جہاں کام چھوڑا تھا، وہیں سے شروع کردیں۔‘‘ مگر مَیں اِس بار اسٹاف افسری کی بجائے فیلڈ میں کام کا خواہش مند تھا، لہٰذا جواب دیا۔ ’’سر! مَیں کئی سال سے اپنا پروفیشنل کام نہیں کرسکا۔
آئی جی صاحب مجھے ایس ایس پی سیال کوٹ (ڈی پی او) لگانا چاہتے ہیں، آپ اجازت دے دیں تاکہ مَیں اپنا پولیس کا کام دوبارہ شروع کرسکوں۔‘‘اس پروزیرِاعظم بولے۔ ’’دیکھیں، اب توکرائم اور کرپشن کے خلاف crusade شروع کرنے کاوقت آیا ہے، اب تو آپ کی یہاں بہت ضرورت ہے۔ سیال کوٹ تو ایک ضلع ہے، آپ یہاں پورے مُلک کے پولیس افسر ہوں گے۔‘‘ ساتھ ہی شہباز شریف صاحب سے فون پربات کی اور پوچھا۔ ’’شہباز! تیرا حلف کدوں اے؟‘‘پھر کہا۔ ’’ٹھیک اے، ذولفقار چیمہ نوں معیں اپنا اسٹاف افسر لارہیاواں، آئی جی نوں کہنا، ایدی اوتھے پوسٹنگ نہ کرے۔‘‘ (شہباز تمہارا حلف کب ہے؟ ذوالفقارچیمہ کو مَیں اپنا اسٹاف آفیسر مقرر کررہا ہوں۔
آئی جی کو کہہ دیں کہ اُس کی پنجاب میں کہیں پوسٹنگ نہ کرے) پھر کچھ توقف کے بعد انہوں نےمجھ سے کہا۔ ’’بس ٹھیک اے، کل توں آکے کم شروع کرو۔‘‘ساتھ ہی انور زاہد کو بلا کر کہا کہ ’’ان کاآرڈرکردیں، یہ میرے پرسنل اسٹاف آفیسرہوں گے۔‘‘ اِس طرح میرا سیال کوٹ جاکر پولیسنگ کرنےکا خواب بکھرگیا اورمَیں تیسری بار پرائم منسٹر کا اسٹاف آفیسر مقرر ہوگیا۔
حلف اُٹھانے کے بعد اُسی رات پرائم منسٹر ہاؤس میں جو سب سے پہلی میٹنگ ہوئی، اُس کا یک نکاتی ایجنڈا تھا،’’احتساب‘‘۔ اُس میٹنگ میں پرائم منسٹر کے علاوہ سیف الرّحمن، مشاہد حسین سیّد، انور زاہد، پرویز راٹھور اور راقم شریک ہوئے۔ مَیں نے پرائم منسٹر سے کہا۔ ’’سر! احتساب ایک سراسر اسلامی تصوّر ہے اور یہ اُسی معیار کے مطابق ہونا چاہیے، جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مقرّر کیا ہے۔ یعنی اِس میں یہ ہرگز نہیں دیکھنا چاہیےکہ فلاں مخالف پارٹی کاہے، تو کارروائی ہو اور فلاں قریبی ساتھی ہے، ِاس لیے اُس کے خلاف کارروائی نہ ہو،جو بھی کرپشن میں ملوّث پایا جائے، اُس کےخلاف بلا رُو رعایت کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘ (جاری ہے)