• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان میں اسلام اور فلسطین کے موضوعات پر دو اہم کانفرنسز کا انعقاد

جاپان میں ایک تسلسل کے ساتھ مختلف یونی ورسٹیز یا تعلیمی و تحقیقی اداروں میں اسلامی موضوعات پر آئے دن چھوٹی بڑی کانفرنسز کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ اِسی ذیل میں اوساکا یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام ایک اسلامی کانفرنس کا انعقاد17 فروری 2025ء کو ہوا، جو ایک توسیعی خطبے کے طور پر شعبۂ اردو کے زیرِ انتظام منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع’’جاپان: مطالعاتِ اسلامی کا آغاز و فروغ‘‘ تھا۔

یہ موضوع ہمیں دیگر ایسے موضوعات کی یاد دِلاتا ہے، جو حالیہ عہد میں جاپان میں بحث مباحثے کی بنیاد بنے ہیں۔ جاپان میں مطالعاتِ اسلامی کا آغاز یا اس کی روایت اگرچہ بہت قدیم نہیں، لیکن پھر بھی جاپانی باشندوں کے اسلام سے قریب آنے اور اِسے قبول کرنے کا سلسلہ انیسویں صدی کے اختتام سے پہلے ہی شروع ہوچُکا تھا،جب پہلے پہل ایک جاپانی صحافی، شوتاررو نودا (1868ء۔1914ء) نے تُرکی کے اپنے دوسالہ قیام کے دَوران21 مئی1891ءکو اسلام قبول کیا اور اس کا نام عبدالحلیم تجویز ہوا۔ 

اس کےکچھ ہی دن بعد ایک جاپانی تاجر، توراجیرہ یامادا نے بھی اسلام قبول کیا۔ یہ آغاز تھا، لیکن جلد ہی اسلام اور اِس سے متعلقہ موضوعات و معاملات بھی جاپانی معاشرے میں عام ہونے لگے۔ چناں چہ جاپانی معاشرے کو اسلامی اقدار و روایات کو قبول یا تسلیم کرنے یا اپنانے میں، اپنے قومی مزاج کے زیرِ اثر، زیادہ وقت نہ لگا۔ 

جاپان میں اسلامی اقدار و روایات اور فکر و تہذیب کے مطالعات کے ضمن میں جو اہم اثرات وہاں کے معاشرے پر مرتسم ہوتے رہے، اُن کا ایک اشارہ و جائزہ ہماری تصنیف ’’مشرق تاباں: جاپان میں اسلام، پاکستان اور اُردو زبان و ادب کا مطالعہ‘‘ جیسی کتب میں دیکھا جاسکتا ہے، جو جاپان میں بھی خاصی مقبول ہوئیں۔

ہمیں بھی اِن کانفرنسز میں مدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے اوساکا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں بیس ویں صدی کے جاپان میں مطالعاتِ اسلامی کے آغاز و فروغ کے موضوع پر اپنا توسیعی مقالہ پیش کیا۔ ایسا لگا کہ وہاں موجود بیش تر اساتذہ اور دیگر شرکاء ہم سے پہلے ہی سے واقف تھے۔اِس اجتماع کے شرکاء نے سوالات و جوابات میں بھی خاصی دل چسپی لی۔

اِس مقالے کے پس منظر کے ذیل میں جو مطالعات یا تعارف سامنے آتا ہے، اس کے تحت ایک پس منظر کے طور پر جاپان میں ایک ایسے حلقے کا ذکر ملتا ہے، جس نے 1927ء میں ایک رسالہ ’’دینِ اسلام‘‘ جاری کیا تھا، جو دو سال تک جاری رہا۔اس کے مدیر، کوا مورا کیودو تھے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ دراصل جاپانی جاسوس تھے، جو جاپانی مفادات کے لیے سرگرم تھے۔ اِس ضمن میں ایک جاپانی سیاسی رہنما،شومے اوکاوا بھی خاصے سرگرم رہے، جنھوں نے اسلام کو باقاعدہ اپنے مطالعے کا موضوع بنایا۔نیز، اُنھوں نے قرآنِ پاک کا جاپانی زبان میں اوّلین ترجمہ بھی کیا، جس کی بنیاد ایک انگریزی ترجمۂ قرآن پر تھی۔ 

اِسی طرح اُنھوں نے’’عالمِ اسلام‘‘ کے نام سے ایک رسالے کا بھی اجرا کیا، جو دوسری جنگِ عظیم کے آغاز تک نکلتا رہا۔اِس عرصے میں پروفیسر رے ایچی گامو نے جاپان میں پہلے پہل عالمانہ سطح پر اسلام کے مطالعے میں دل چسپی لی۔وہ’’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘‘ سے منسلک تھے اور اُردو زبان کے پروفیسر تھے۔ اُنھوں نے جاپان میں اُردو ادب کے مطالعے کو بے حد فروغ دیا۔’’گلستانِ سعدی‘‘اور’’باغ و بہار‘‘ کے جاپانی ترجمے کیے۔ پروفیسر گامو نے اپنے طلبہ اور دوست احباب میں نہ صرف اُردو ادب کے مطالعے کا ذوق عام کیا، بلکہ اپنے طلبہ میں اسلام کے مطالعے کا بھی شوق پیدا کیا۔

ان کے شاگردوں میں پروفیسر کان کاگایا، پروفیسر سوزوکی تاکیشی اور پروفیسر کرویا ناگی نام وَر اسکالر تھے۔ سوزوکی صاحب نے اُردو اور فارسی زبان و ادب کی تعلیم کو بہت وسعت دی اور شعبۂ اُردو کو مستحکم کیا۔ پروفیسر کان کاگایا اُردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبان سے بھی خُوب واقف تھے اور اسلام سے متعلق متعدّد تحقیقی مقالات لکھ چُکے تھے۔ کرویا ناگی شعبۂ فارسی سے وابستہ تھے، جنھوں نے ایک مجلّہ’’انڈو ایران‘‘جاری کیا اور ایک مبسوط تحقیقی مقالہ’’ہند میں اسلامی فکر کا ارتقا‘‘ تحریر کیا۔

اِس مقالے کو علّامہ اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کے مطالعے پر مرکوز رکھا۔اِن علماء کے معاصرین میں ایک اہم نام پروفیسر توشی ہیکوازتسو کا ہے، جنھوں نے قرآنِ پاک کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا۔ اُنھوں نے ٹوکیو کی ایک نجی یونی ورسٹی میں مطالعۂ اسلام کا ایک شعبہ قائم کیا اور اس کے تحت اسلام کے مطالعے اور تحقیق و تصنیف کو فروغ دیا۔

مطالعۂ اسلام کے ضمن میں اُن کا ایک بڑا کارنامہ ایک ایسی نسل کی تیاری ہے، جس نے جاپان کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے منسلک ہو کر اسلام کی تفہیم و تعلیم اور اس کے مطالعے کو فروغ دیا۔ اِسی طرح ایک اور پروفیسر، ناکامورا کوجیرو کا ذکر بھی ضروری ہے، جو اِزتسو صاحب کے معاصر ہیں، اُنھوں نے ٹوکیو یونی ورسٹی سے منسلک رہ کر اسلامیات کی تدریس کے ساتھ وہاں شعبۂ اسلامیات قائم کیا اور اس کے تحت ایک’’ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی، جو جاپان میں اپنی نوعیت کا اوّلین ادارہ تھا۔ 

یہاں ایک عالی شان کتب خانہ بھی قائم ہوا، جو جاپان میں علومِ اسلامی کے مطالعے میں بہت معاون رہا۔ اِس ادارے سے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقی مجلّہ بھی شائع ہوتا ہے، جو مطالعۂ اسلامی اور عالمِ اسلام کے سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی موضوعات کے لیے مختص ہے۔ 

ان معروف و ممتاز اساتذہ کے زیرِ اثر اب جہاں نوجوانوں میں مطالعۂ اسلامی کو فروغ ملا ہے، وہیں دیگر متعدّد جامعات میں اسلامیات کے شعبے بھی قائم ہوئے ہیں اور اب چند برسوں سے خاص طور پر’’کے ایو یونی ورسٹی‘‘، ’’واسیدا یونی ورسٹی‘‘ اور’’کیوتو یونی ورسٹی‘‘ مطالعۂ اسلام کے اہم مراکز کی صُورت میں نمایاں ہوئی ہیں، جہاں تدریس کے ساتھ اسلام اور عالمِ اسلام پر مستقل تحقیقات کا ایک تسلسل قائم ہے اور گاہے گاہے کانفرنسز اور سیمی نارز کا سلسلہ بھی رہتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور جامعات بھی ہیں، جہاں اگر اجتماعی نہیں تو انفرادی سطح پر اسلامی تحقیقات کاعمل جاری ہے۔

جاپان کی جملہ جامعات میں کیوتو یونی ورسٹی کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں اسلام اور عالمِ اسلام کے تعلق سے بمقابلہ جاپان کی دوسری جامعات، زیادہ نمایاں علمی و تحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہاں پروفیسر کوسوگی یاسوشی کی موجودگی ہے، جو ایک لائق پروفیسر ہونے کے ساتھ نہایت فعال و مستعد انسان بھی ہیں۔ عربی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔

جامعۃ الازہر سے فارغ التحصیل ہیں اور وہیں دورانِ قیام مشرّف بہ اسلام ہوچُکے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کیا ہے۔ اس یونی ورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے علاوہ ایک’’گریجویٹ اسکول آف ایشیا، افریقا ایریا اسٹڈیز‘‘ بھی سرگرمِ عمل ہے۔ ان اداروں کے تحت مطالعات و تحقیقاتِ اسلامی کو فروغ حاصل ہورہا ہے اور نوجوانوں کا حلقہ نہایت اہم موضوعات پر تحقیق میں مصروف ہے۔

اِسی حلقےمیں وہ نوجوان بھی شامل ہیں، جن کی تحقیقات کا تعلق جنوبی ایشیا کے موضوعات، خاص طور پر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخی، تہذیبی، فکری، سیاسی زندگی اور ترجیحاً عہدِ حاضر سے ہے۔ اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ فکرِ اسلامی کی نسبت سے تحریکِ احیائے اسلامی، مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے تحقیقی مطالعات کا موضوع بن رہے ہیں۔ دراصل پروفیسر ہیروشی کاگایا نے مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی پر راست مطالعے کا آغاز کیا تھا۔

اِس سلسلے میں اُن کا ایک مقالہ(جاپانی زبان میں)’’اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘‘کے مجلّے میں 1987ء میں شائع ہوا تھا۔اگرچہ پروفیسر کرویاناگی نے ابتدا کی تھی اور علّامہ محمّد اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کو اپنے مبسوط مطالعات میں خصوصیت سے شامل کیا تھا، لیکن اب اسے ایک تسلسل پروفیسر سو یامانے کی توجّہ اور کاوشوں سے حاصل ہوا ہے۔ یہ اوساکا یونی ورسٹی سے منسلک ہیں اور بظاہر شعبۂ اُردو میں اُردو زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں، لیکن زبان وادب سے بڑھ کر اب ان کی توجّہ اور ترجیحات جنوبی ایشیا کی سیاسی و فکری تاریخ اور عصری مسائل و حالات کے مطالعات و تحقیق تک پھیل چُکی ہیں۔

پروفیسر کرویا ناگی کے بعد غالباً پروفیسر سویامانے ہی ہیں، جنھوں نے جنوبی ایشیا کی تحریکاتِ اسلامی، خاص طور پر جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودی کے افکار وخیالات کو نہ صرف خود موضوع بنایا اور متعدّد تحقیقی مقالات تحریر کیے،بلکہ اپنے طلبہ میں بھی ان موضوعات کے مطالعے و تحقیق کا ذوق عام کیا۔ پروفیسر سویامانے نے ایم اے اُردو، پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور سے کیا۔ مجموعی طور پر وہ کئی سال پاکستان، خصوصاً اسلام آباد اور لاہور میں رہ چُکے ہیں۔ 

اسلام آباد میں اُن کا قیام سفارت خانے کی ملازمت کے سلسلے میں تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال ایک دو مرتبہ لاہور میں اُن کی آمد متوقّع ہوتی ہے،جب کہ یہاں کے اکابر علم و ادب، کتب خانوں اورعلمی وتحقیقی اداروں سے بھی اُن کا رابطہ، تعلق رہتا ہے۔ پروفیسر سو یامانے اب تک جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودی پر متعدّد مقالات تحریر کر چُکے ہیں۔ ان کے موضوعات زیادہ تر جنوبی ایشیا میں اسلامی تحریکات اور مفکرین، دانش وَروں کی علمی و فکری سرگرمیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ 

وہ اگرچہ اوساکا یونی ورسٹی سے منسلک ہیں،لیکن ان کا علمی رابطہ جاپان بَھر کے اُن اسکالرز سے قائم ہے، جو جنوبی ایشیا اور اسلام کے موضوعات پر مطالعات میں مصروف ہیں یا ایسے موضوعات پر تحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں۔اُنھوں نے اپنے ان ذاتی مطالعات کے ساتھ اسلام اور پاکستان سے متعلقہ موضوعات پر دیگر نوجوانوں کو بھی راغب کیا ہے اور ان کی رہنمائی و معاونت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اِس ماحول اور پس منظر میں وہاں فلسطین کانفرنس کا بہت بڑے پیمانے پر انعقاد بھی نہایت اہمیت اور توجّہ کا حامل رہا۔

بین الاقوامی سطح پرعہدِ حاضر کے علمی، تہذیبی اور سیاسی مسائل میں فلسطین کو خاصی اہمیت و توجّہ حاصل ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کے ذمّے دار تعلیمی و فکری حلقوں نے ایک عالمی کانفرنس میں فلسطین کے مسائل کو فکری سطح پر زیرِ بحث لانے کا فیصلہ کیا اور یوں ٹوکیو یونی ورسٹی میں22 تا 24 فروری 2025ء ایک سہہ روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس کا موضوع’’Overcoming the Divide: Connectivity and Trust Building for Middle East Peace‘‘ تھا۔

کانفرنس کے تینوں دن انتہائی غیر معمولی عالمی مذاکرہ و مباحثہ منعقد ہوا۔ اِس کانفرنس میں نہایت معروف و ممتاز عالمی اسکالرز نے شرکت کی اور اپنے خیالات و نظریات سے کانفرنس کے تینوں اجلاسوں کو متاثر کرکے، فلسطین کے موضوع کو واقعتاً نئی زندگی عطا کی۔

کانفرنس کے وسیع و عریض ہالز چاروں اجلاسوں میں اسکالرز سے ہمہ وقت پوری طرح آباد رہے۔ مقالات کے پیش کیے جانے کے بعد گاہے سوالات اور وضاحتوں کے لیے بھی موقع نکالا جاتا تھا، جن میں متعلقہ اسکالرز بھرپور حصّہ لیتے رہے۔چوں کہ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ سو سب دیکھا کیے۔ 

پیش کیے گیے مقالات سے اِس یقین میں اضافہ ہوا کہ فلسطین کا مسئلہ آج نہیں، تو کل ضرور حل ہوجائے گا اور یہ بھی کہ کوئی دلیل اور جواز اسے کسی قیمت پر، کسی صُورت یہودیت کے تابع نہیں رکھ سکے گا۔ کانفرنس میں شریک اسکالرز، جو چاہے کسی بھی نظریے، عقیدے اور مسلک کے تابع رہے ہوں، فلسطین کی آزادی کے حق میں پوری طرح سرگرم دِکھائی دیئے۔ قصّہ مختصر، یہ کانفرنس ہر طرح کام یاب اور مؤثر رہی، جس پر منتظمین کی جس قدر تعریف و ستائش کی جائے، کم ہے۔