قارئین کرام! آئیں قیام پاکستان کے 77ویں سال میں اس تلخ ترین حقیقت کو تسلیم کریں کہ:ہمارا ملک قومی زندگی کے اکثر شعبہ ہائے زندگی کی عالمی درجہ بندی میں گرتے گرتے کم ترین درجہ پر آگیا ہے۔ مجموعی ملکی پریشان کن صورتحال کا بہت فکر مندی کا پہلو یہ ہے کہ بے روزگاری کا گراف بہت تیزی سے بڑ ھ رہا ہے۔ نچلی سطح پر عوامی اقتصادیات (مائیکرو اکانومی) کی حالت ملکی اقتصادیات (میکرو اکانومی) جتنی ہی خستہ ہے ، بھاری بھرکم قرضوں، کڑی شرائط، ٹیکسز کی بھرمار اور موجود میں اضافہ اور ٹیکس شرح میں عوام اور کاروباری طبقے کے لئے جو جتنا اضافہ ہوا ہے اس نے مستقبل قریب میں تو محتاجی اور مفلوکی کے غلبے کی واضح نشاندہی کر دی ہے۔ بالائی طبقات اپنے طرزز ندگی اور اختیارات کے اپنے ہی مفادات میں آزادانہ و بیباک استعمال میں جاری گھمبیر صورتحال میں بھی کوئی تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں۔ اوپر سے سماجی انصاف اور گورنمنٹ فنکشنریز کا عوام کی جانب رویہ کرپشن کلچر کے باعث بہت بے رحمانہ اور سخت گیر ہے۔ گلے سڑے نظام کی اس پکتی جلتی دیگ کا ایک دانہ گزشتہ ہفتے لاہور ایئر پورٹ پر دوبئی میں مقیم ایک متوسط پاکستانی گھرانے کی بھائی کی شادی کے لئے لاہور آنے والی ان تین بہنوں سے ایسا ظالمانہ اور غیر قانونی سلوک کیا جس نے سمندر پار آباد ملکی تنخواہ دار اور مزدور طبقے میں ہراسگی اور پورے پاکستان میں ملکی عوامی خدمات کے اداروں، محکموں کے حوالے سے سنجیدہ سوال کھڑے اور مزید مایوسی پھیلا دی۔ پاکستانی پاسپورٹ کی تیزی سےگرتی قدر اور دوسرے ممالک کے ویزہ حاصل کرنے میں ملکی مسافروں اور تواتر سے سفر کرنے والے پاکستانیوں کو بڑے غم روزگار سے دو چار کرتا ہے۔ گورنمنٹ ۔47کےعوام دشمن سرکاری اقدامات کارکردگی خصوصاً پولیس اور سکیورٹی اسٹاف کے عوام جانب سخت گیر رویے اور لاقانونیت پر عام و معصوم شہریوں میں خوف و مایوسی تیز سے بڑھ رہی ہے۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ایک انتہائی محدود اختیارات و مراعات یافتہ طبقہ تین سال سے مچی بےآئینی، لاقانونیت اور سیاسی کھلواڑ، بگاڑ و جگاڑ کا کتنا بڑا اور مسلسل بینی فشری ہے۔ کونسا پاکستانی صوبہ اور مخصوص انتظامی یونٹ ہے جہاں عوام کے اضطراب کو ہراساں و پریشاں کوچہ گرد چہروں سے نہیں پڑھا جا رہا ہے۔ جتنا بڑا بالائی طبقہ لاپروااور کھلواڑ و بگاڑ میں مگن اور نظام کی ناجائز بینی فشری، اتنا ہی عوام الناس مزید غربت کی طرف جا رہے اور لوئر اور مڈل کلاسیئےبد و بے حال۔ ہمارے بے روزگار جواں سال جوق در جوق، میڈیا پریشر سے قانون کی دکھاوے کی پکڑ دھکڑ سے پریشان ہو کر بھی ڈرے نہیں نہ ان کے ہینڈلر۔ یہ اب بھی یورپ کی آسودگی کے خواب پھٹی آنکھوں میں سجائے یونانی ساحلوں سے لے کر مراکش و موریطانیہ کے ساحلوں تک جان ہتھیلی پر رکھ کر نامساعد حالت میں جان لیوا جگاڑ بحری سفر کی تیاری کے منتظر اور خود کو سمندر کے سپرد کرنے پر آمادہ بھٹک رہے ہیں۔ اور تو اور اب تو امریکہ پہنچے اپنے بل بوتے میرٹ اور استعداد پر امریکہ میں زیر تعلیم طلبہ کے ویزوں کی منسوخی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہماری ایمبیسی اور وزارت خارجہ چوں نہیں کررہی ۔
کسان پھر گندم کی سرکاری خرید اور گزارے والے منافع کے ساتھ سرکاری نرخ پر فروخت کے لئے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اس سال ریٹ مل رہا ہے نہ پنجاب سرکار۔ گندم کی فصل کٹائی پرپنجاب حکومت کی کوئی سرگرمی جو اطمینان کا اظہار کسانوں کے ساتھ رابطے اور فصل کٹائی کے روایتی جشن کے مناظر میڈیا سے ندارد ہیں۔ کوئی ڈیٹا خبروں میں نہیں آ رہا کہ پیداواری ہدف کیا تھا ۔ سرکاری مقررہ نرخ اور فصل کی صورتحال کیا ہے۔ کسان بچارے اس سال بھی برے حال بانکے دیہاڑے، تاہم کچھ چھپا نہیں رہتا۔مین اسٹریم میڈیا جتنا پابند و سلاسل ہے غیر پیشہ ورانہ سوشل میڈیا اپنی بیداری و جرأت و جذبے اور اناڑی پن اور غیر ذمے داری کے ملغوبے کی بے قابو صلاحیت یا سکت سے اتنا ہی سرگرم ہے۔
قابو میڈیا میں نہ سہی سوشل میڈیا سے کسانوں کے ماتمی منظر اور آہ و بکا سنائی، دکھائی دے رہی۔ یہ نظام بد کے لئے گستاخی اور عوام کے لئے مزاحمت کی واحد راہ ہے۔ اجتماع و احتجاج کا بنیادی آئینی حق تو ایک بار پھر غصب ہوگیا۔ یہ کوئی ہماری انوکھی ریاست میںنئی بات نہیں لیکن سوشل میڈیا کی ناروا جارحانہ اور بے قابو پریکٹس کے بعد یہ پابندی حماقت نہیں؟ نمک برابر راج دار، آج کے جواں سال بیدارسے کتنا اور کیوں بیزار ہے؟ وہ کیوں ان کے بال و پر سے بھی ڈرتا اور گھبراتا ہے اور اس کا فقط ایک ہی توڑ جانتا ہے کہ ہونہاران ملت کو جتنا ڈرایا اور دبایاجا سکتا ہے ڈرایا اور دبایا جائے، لیکن اب اس کا نتیجہ بھی تو صفر ہی ہے۔
قارئین کرام، غور فرمائیں ہماری موجود حکومت۔47کے اکنامک جینئس نے اپنے 47 والے دور میں اسمبلی فلور پر مانا اور قوم کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستانیوں کے 200 بلین ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں اور اس کی نئے سوئس ترمیمی قوانین کی روشنی میں واپسی کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں پھر اس پر ایسی خاموشی طاری ہوئی کہ ن لیگ نے اپنا دور مکمل کیا جو کہا تھا اسمبلی فورم پر اس پر کچھ نہ کیا۔ پھر کھلی غیر ملکی مداخلت اور ہارس ٹریڈنگ کے زور سے حالات کے مطابق بہتر چلتی حکومت اکھاڑتے سیاسی و آئین کی روانی میں دسیوں جگاڑ بگاڑ ڈالتے ، دو مرتبہ پھر اقتدار حاصل کیا، ان دو ادوار میںسوئس بینکوں میں جمع پاکستان 200ملین جمع ڈالر کے لئے سوئس حکومت سے کیوں نہ رجوع کیا، بلکہ اس کی بجائے دوستوں، بھائیوں، بڑے سخت گیر جابر قرض خواہ عالمی اداروں پر ہی ایک ایک دو دو بلین کے لئے اکتفا کرتے دنیا بھر کو دکھایا کہ ہم کتنے بڑے اور ڈھیٹ ہیں۔ قارئین کرام! آئیں غور تو فرمائیں کہ ہماری حصول پاکستان کی تاریخ کتنی علمی ، کتنی سیاسی و نظریاتی، کتنی آئینی اور منظم استدلالی اور منطقی اور کتنی پُرایمان اور نتیجہ خیز تھی۔ ہمارے بزرگوں اور شہداءنے حصول و محافظ وطن کا کتنا عظیم کارنامہ، یہ الگ کہ ہم نے دفاع و تعمیر وطن کی تاریخ میں بھی ملک کو چلانے سنبھالنے اور حصولات میں بیش بہا قربانیوں سے اسے روشن بنایا۔ لیکن ساتھ ساتھ ہوس اقتدار و اختیار اور سیاست و محصولات پر اجارے اور سیاست کے قبضے سے اسے مورثی قیادتوں و گھرانوں کے حوالے کرتے کتنی سیاہ تاریخ رقم کی اب اسی کا غلبہ ہے ۔آج جبکہ مملکت خداداد پاکستان کے عطائے رب کریم مدفن خزانے اگل کر باہر امنڈ آئے ہیں۔ ہزاروں میل دور حکومتوں، سرمایہ داروں اور کاروں۔ مافیاز کی نظر ان پر پڑی بھی گڑی بھی، آج پاکستان اتحاد وتنظیم اور ایمان و آئین سے محروم اور حلف بردار حلف سے بے وفائی کے کھلے مرتکب ہوگئے۔ ہمارے سرمایہ دار و سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری پر کیوں آمادہ نہیں؟ صرف حکومت پر مبنی کیوں؟ ہم نے بطور حکومت و ریاست سنہری تاریخ و اٹھان والے پاکستان کو آغاز کے ساتھ ہی ذاتی و گروہی حرص اقتدار اور قومی خزانے کی عشروں کی لوٹ مار سے مملکت خدا داد کے حال کو کتنا بدترو بے حال کردیا؟ اس حوالےسے سنبھالنے اور بحالی کے ہر سوال کا جواب ایک ہی آئے گا آئین کا مکمل اور قانون کاسب شہریوں پر یکساں اطلاق و نفاذ۔ وما علینا الالبلاغ ۔