چین اور امریکہ کی معاشی اور تجارتی جنگ کوئی نیا کھیل نہیں بلکہ یہ کھیل ماضی میں کئی مرتبہ کھیلا جا چکا ہے 1971ءمیں امریکی صدر نکسن نے جرمنی اور جاپان کیخلاف اسی نوعیت کی ٹیرف پالیسی کو اختیار کیا جسکے معاشی اثرات پوری دنیا کو بھگتنے پڑے۔آج ایک مرتبہ پھر عالمی منظر نامے پر چین اور امریکہ کی معاشی کشیدگی کے چرچے عروج پر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، چین کی بے پناہ ترقی سے خائف ہے،اگرچہ چین نے انقلاب چین کے بعد کیمونزم سے سرمایہ داری کی طرف قدم بڑھایا ہے اور اپنے ملک کو آزاد معاشی منڈی کا حصہ بھی بنایا ہے تاہم امریکہ کو اس امر کا یقین نہیں تھا کہ چین معاشی اعتبار سے اتنی ترقی کرے گا کہ وہ خود امریکی معیشت کے لیے بھی خطرہ بن جائے گا۔چین اور امریکہ کی باہمی تجارتی کشیدگی سے موجودہ عالمی معاشی نظام کے مزید شکست و ریخت کے امکانات بڑھ رہے ہیں جس سے دنیا بھر میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی عالمی طاقتیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو دنیا میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں جنم لیتی ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کے زیر تسلط نو آبادیاتی نظام سے تقریبا 50 کے قریب ممالک نے آزادی حاصل کی، اس جنگ کے خاتمے کے بعد'' برٹن ووڈ کانفرنس'' کے انعقاد کے ذریعے دنیا پر امریکی تسلط کا آغاز ہوا۔ اسی طرح جب سرمایہ داری اور سوشلزم آپس میں ٹکرائے تو دنیا بائی پولر ورلڈ سے یونی پولر ورلڈ میں داخل ہوئی۔دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ آزاد معاشی منڈی کا سرخیل بن گیا اس نے دنیا پر اپنا سکہ جمانے کیلئے ورلڈ بینک،عالمی مالیاتی فنڈ، اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے اداروں کی بنیاد رکھی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ان تمام اداروں کو اپنی ذاتی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال کیا اور دنیا پر اپنا معاشی تسلط مزید مضبوط کیا۔چین اور امریکہ کے تجارتی حجم کا اندازہ لگایا جائے تو ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق چین عالمی پیداوار کے پاور ہاؤس کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال جو مینوفیکچرنگ ہوتی ہے اس کی مالیت تقریبا 162 لاکھ ملین ڈالر ہے۔اس میں چین کا حصہ 47 لاکھ ملین ڈالر جبکہ امریکہ کا حصہ 25 لاکھ ملین ڈالر کے مساوی ہے۔عالمی پیداوار میں پاکستان کا حصہ محض 46 ہزار ملین ڈالر کے مساوی ہے جبکہ انڈیا 4 لاکھ 56 ہزار ملین ڈالر کی مالیت کے مساوی پیداوار دیتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ چین عالمی پیداوار میں نہ صرف سپر طاقت کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ عالمی معیشت کا بھی ایک بڑاا سٹیک ہولڈر ہے۔اگرچہ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک چین اور امریکی معاشی جنگ کے تناظر میں چین کی حیثیت امریکہ کے مقابلے میں قابل ذکر نہیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ چین نے بڑی خاموشی سے اپنی صف بندی کی ہے اپنی قوم کو ایک منظم اور متحرک مشین میں تبدیل کیا ہے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہو یا ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دوڑ ہو یا پھر معاشی میدان میں مقابلہ بازی چین نے عالمی نظام کا حصہ بن کر اس کے نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہوئے اس نظام کے بانیوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ اس نے جو نظام ترتیب دیا ہے وہ اس قدر پرکشش ہے کہ مغرب ہو یا مشرق، افریقہ ہو یا ایشیا سب اس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔چین عالمی معیشت و تجارت پر چھا رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکی عالمی برتری کا اقتدار ڈولتا ہوا نظر آتا ہے۔امریکہ کے مقابلے میں چینی معیشت متنوع اور مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے۔ چینی معیشت نے 2024ءمیں پانچ فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ 18.9 ٹریلین ڈالر کی پیداواری سرگرمیاں سرانجام دیں۔جبکہ امریکی معیشت نے 2.8فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ 29.2 ٹریلین ڈالر کی اشیاء و خدمات پیدا کیں۔اس کا واضح مطلب ہے کہ چینی معیشت کا حجم تیزی سے پھل پھول رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکی معیشت دن بدن سکڑ رہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار پالیسی سے امریکی معیشت کو بھی کئی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے یورپی یونین سمیت 60 سے زائد ممالک کے خلاف عائد کردہ اضافی ٹیرف کا اطلاق اگرچہ 90 روز کے لیے روک دیا ہے اور دنیا پر فقط 10 فیصد فلیٹ ٹیرف کے اطلاق کے بعد اب پوری توجہ چین پر مرکوز کر دی ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی ڈالر جاپانی ین اور سوئس فرانک کے مقابلے میں کمزور ہوا جبکہ یورو مضبوط ہوا تاہم اضافی ٹیکس کو 90 دنوں کے لیے روکنے کے بعد ڈالر دوبارہ مضبوط ہو رہا ہے۔ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے خلاف چین اور یورپی یونین دونوں نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ہے۔یورپی یونین نے سویابین،موٹر سائیکلز اور بیوٹی مصنوعات پر ڈیوٹی عائد کی ہے۔اس تجارتی جنگ میں چین کو تنہا کرنے کے لیے امریکہ نے یورپی یونین کے خلاف کوئی جوابی قدم نہیں اٹھایا تاہم امریکہ کی طرف سے چین پر 34 فیصد ٹیرف کے اطلاق کے بعد چین نے رد عمل کے طور پر امریکی مصنوعات کی درآمد پر 84فیصد ڈیوٹی عائد کر دی جواباََامریکہ نے انتہائی سخت قدم اٹھاتے ہوئے 125 فیصد ٹیرف ڈیوٹی کا اطلاق کر دیا چین نے جن 18امریکی کمپنیوں پر ڈیوٹی عائد کی وہ تمام کمپنیز دفاع اور دفاعی پیداوار سے منسلک ہیں۔ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ میں شدت نے بہت سے خدشات اور سوالات جنم دیے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مستقبل کا معاشی نظام چین کے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔ عالمی معیشت میں اس وقت چین کا پلڑا بھاری ہے اور اسے بظاہر شکست ہوتی دکھائی نہیں دے رہی چین کی بڑھتی ہوئی معیشت کا حجم امریکی نظام کیلئے شدید خطرہ ہے دوسری طرف پوری دنیا کیلئے معاشی ترقی کے نئے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔