امریکہ نے گزشتہ دنوں پاکستان کی مزید19 کمپنیوں پر برآمدی پابندیاں عائد کردیں۔ امریکی پابندی کی زد میں آنے والی پاکستان سمیت 70 کمپنیوں میں 42 چینی اور متحدہ عرب امارات کی 4کمپنیوں کے علاوہ برطانیہ، فرانس، ایران، تائیوان اور سینیگال کی کمپنیاں شامل ہیں۔ ان کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے منافی کام کر رہی تھیں۔ امریکی محکمہ تجارت کے مطابق جو کمپنیاں جوہری پروگرام سے منسلک ہیں، اُن پر الزام ہے کہ وہ حساس جوہری ٹیکنالوجی اور مواد کی خرید و فروخت میں ملوث رہی ہیں جبکہ میزائل پروگرام سے منسلک کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے کلیدی پرزہ جات اور ضروری ساز و سامان فراہم کر رہی تھیں۔ حالیہ پابندیوں کے نتیجے میں اب یہ کمپنیاں امریکی کمپنیوں سے کاروبار نہیں کر سکیں گی جس سے اُنکی عالمی کاروبار کرنیکی صلاحیتیں متاثر ہونگی اور امریکی فہرست میں شامل ہونے کے بعد یہ کمپنیاں امریکی ساختہ کسی بھی پرزے، سافٹ ویئر یا مشینری کی خریداری نہیں کر سکیں گی، اس طرح ان کیلئے جدید امریکی ٹیکنالوجی اور سامان کا حصول ناممکن ہو جائیگا۔ پاکستان کی 19کمپنیوں پر امریکی پابندی کے ردعمل میں دفتر خارجہ نے ان پابندیوں کو یکطرفہ قرار دیا اور کہا کہ یہ پابندیاں بغیر ثبوت لگائی گئی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے پاکستانی کمپنیوں پر اس نوعیت کی پابندیاں عائد کی ہوں۔ اس سے قبل 2024ء میں بھی امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل سے منسلک ادارے نیشنل ڈیفنس کمپلیکس اور دیگر کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اسی طرح دیگر کئی کو پابندی کی فہرست میں ڈالا گیا تھا جنکے حوالے سے امریکہ کا دعویٰ تھا کہ یہ کمپنیاں پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام سے منسلک ہیں اور ان کیلئے آلات، سامان اور پرزہ جات وغیرہ سپلائی کررہی ہیں۔ اسی طرح امریکہ 2021ء میں بھی پاکستان کی 13 کمپنیوں پر جوہری اور میزائل پروگرام میں معاونت کے الزامات لگاکر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے چین کی 42کمپنیوں پر حالیہ پابندیاں ایسے وقت عائد کی گئی ہیں جب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کے خلاف محصولات میں اضافے کی وجہ سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے اس سے قبل بھی چین کو اپنی ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا جس میں سیمی کنڈکٹر سے لے کر سپر کمپیوٹرز تک ہر چیز شامل تھی مگر اس سے چین کی دفاعی صنعت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔
پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام شروع دن سے ہی امریکہ اور بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور یہ ممالک اسے اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں جس کا اندازہ کچھ ماہ قبل امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’پاکستان کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی امریکہ کیلئے بڑھتا ہوا خطرہ ہے جو امریکہ کو نشانہ بناسکتا ہے۔‘‘ پاکستان کے میزائل پروگرام پر بھارت کی گھبراہٹ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن سپر پاور امریکہ کی پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر تشویش اور پابندیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کیساتھ تعاون بڑھارہا ہے اور امریکہ نے بھارت کو مختلف ممالک سے ٹیکنالوجی حاصل کرنیکی اجازت دی ہے۔ بھارت اپنے میزائل پروگرام کیلئے دنیا بھر سے کھلے عام ساز و سامان خرید رہا ہے مگر بھارتی میزائل پروگرام کو ساز و سامان سپلائی کرنیوالی کمپنیاں امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں اور امریکہ نے بھارت کے میزائل پروگرام پر کبھی اس طرح کی پابندیاں عائد نہیں کیں جسکا میزائل پروگرام پاکستان سے بہت ایڈوانس ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں کئی بھارتی نژاد شامل ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل میں پاکستان کے بارے میں امریکہ کا رویہ کیسا ہو گا۔
پاکستان پر حالیہ امریکی پابندیاں کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی ان پابندیوں سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر کوئی اثر پڑیگا لیکن امریکہ کی ان پابندیوں کا سلسلہ پاکستان کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ ماضی میں بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کے حصول کے دوران اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے مگر ہمارا ایٹمی پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ موجودہ صورتحال میں بھی امریکی دھمکیاں اور پابندیاں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی راہ میں حائل نہیں ہونگی بلکہ پاکستان خود انحصاری کی طرف گامزن ہوگا کیونکہ امریکہ کو پاکستان کے جن میزائل پروگرام پر خدشات لاحق ہیں، وہ ایک عرصہ قبل مکمل کئے جاچکے ہیں۔ پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں بلکہ یہ پروگرام دشمن ملک بھارت کیلئے Deterrence اور خوف کی علامت ہے۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ کچھ ممالک نے ایٹمی عدم پھیلائو کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنی پسندیدہ ریاستوں کیلئے جدید دفاعی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کیلئے لائسنس کی شرائط کو آسانی سے نظر انداز کررکھا ہے۔ اس طرح کے دوہرے معیارات اور امتیازی طرز عمل عالمی ایٹمی عدم پھیلائو کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔