• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں پانی کی تقسیم کے مسائل تو سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی،بیاس اور ستلج سے محرومی کے بعد ہی شدید تر ہو گئے تھے۔پھر بھارت کی جانب سے چناب اور جہلم پر ڈیمز بنا کر ان کے پانی کا رخ موڑ دینے سے سارا بوجھ دریائے سندھ پر پڑ گیا جس پر نئی نہریں نکالنے کے منصوبے نے حکومت اور اس کی حلیف جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔حکومت کا دعوی ہے کہ سبز پاکستان اقدامات کے تحت چھ تزویراتی نہریں بنائی جا رہی ہیں۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا اور مسلم لیگ ن کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ نئے علاقے آباد کرنا ہیں تو ضرور کریں مگر دریائے سندھ پر ہم سودا نہیں کریں گے۔یہ متنازع منصوبہ رکتا ہے تو زرعی شعبے کی ترقی کے لیے 50سال کا منصوبہ بنانے کے لیے تیار ہیں ورنہ پیپلزپارٹی ان کے ساتھ نہیں چل سکتی۔حکومت جو پیپلزپارٹی کی بیساکھی کے سہارے قائم ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا شہباز شریف آج وزیراعظم ہیں تو انہیں سندھ کے عوام کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ایک ایسے وقت جب ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے یہ ایشو وفاق کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ہماری مخالفت اصولی ہے۔پانی کی منصفانہ تقسیم ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ہم ملک کی ترقی،دہشتگردی کا خاتمہ، مہنگائی میں کمی اور روز گار کے مواقعوں کی فراہمی چاہتے ہیں اور اس حد تک ہی ہم ساتھ چلنے کو تیار تھے۔ملک اس وقت بے شمار داخلی اور خارجی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔نئے نہری قضیہ پر دور اندیشی اور درست حکت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہمارے لیے مزید نئی مشکلات اور مسائل پیدا ہوں گے۔

تازہ ترین