مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
سمندر سے گھڑوں پانی بَھر لینے کے باوجود اُس کا پانی کم نہیں ہوتا۔ کچھ ایسی ہی خصوصیت کی حامل، جامعہ کراچی میں شعبۂ تاریخ کی سابق چیئرپرسن، ڈاکٹر حنا خان بھی ہیں۔ اُنھیں اُن چند ستونوں میں شمار کیا جاسکتا ہے، جن پر جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ کی عمارت کھڑی ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ ایک طویل عرصے سے طلبہ کی شخصیت سازی اور تدریسی ذمّے داریوں کے فرائض بخوبی سرانجام دے رہی تھیں۔ شعبۂ تاریخ کی چیئرپرسن مقرر ہوئیں، تو جس خوبی اور خوش اسلوبی سے اپنی ذمّے داریاں ادا کیں، مثال ملنا مشکل ہے۔
گزشتہ ماہ ریٹائر ہوئیں، تو شعبۂ تاریخ نے ایک الوداعیہ تقریب کا انعقاد کیا، جس میں مقررین نے اُنھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس پُروقار تقریب میں شعبۂ تاریخ سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، ایڈمنسٹریشن کے عملے اور طلبا و طالبات کے علاوہ دیگر شعبہ جات کے اساتذہ اور ساتھی پروفیسرز نے بھی اُن کی ہمہ جہت شخصیت اور علمی خدمات پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر صاحبہ کی علمیت سے مسفید ہونے والے طلباء و طالبات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اُن کی ذات میں کسی بھی قسم کی بڑائی اور تکبّر کا شائبہ تک نہیں۔ وہ ایک قابل ترین معلّمہ ہونے کے ساتھ فنِ تحریر و تقریر میں بھی ماہر ہیں۔ بے شمار نیشنل اور انٹرنیشنل کانفرنسز میں اُن کے ریسرچ پیپرز خاصی پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر حنا خان کا طویل تدریسی کیریئر ادارہ جاتی بدعنوانیوں کے خلاف جدوجہد، طلبہ اور اساتذہ کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے عبارت ہے۔
نیز، بحیثیت چیئرپرسن، وہ ساتھی اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ہمیشہ شفیق اور مددگار رہیں۔ ہم نے کبھی اُن کے ماتھے پر شکن دیکھی، نہ کبھی اُنھیں اونچی آواز میں بولتے سُنا۔ وہ جب اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں لیکچر دیتیں تو ایک ایک لفظ گویا دل میں اُترتا محسوس ہوتا۔
تاریخ جیسا خشک اور تھکا دینے والا مضمون بھی اس طرح سمجھا کر پڑھاتیں کہ کلاس قطعاً بوجھل نہ ہوتی۔ غرض یہ کہ دورانِ تعلیم ہمیں اتنا کچھ سکھایا کہ لفظوں میں شکرگزاری ممکن نہیں۔ بس، اللہ ربّ العزت سےدلی دُعا ہے کہ اُنھیں صحت و تن درستی کے ساتھ طویل عُمر عطا فرمائے۔ (زبیر انصاری، شعبہ تاریخ، جامعہ کراچی، کراچی)