• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مزدوروں پر چلنے والی گولیوں کی گونج پوری دنیا میں سُنی گئی

انسانی تاریخ میں روزی روٹی کا مسئلہ ہمیشہ سے بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ مرد و خواتین، سب ہی کسی نہ کسی انداز میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور یوں زندگی کا پہیّہ رواں دواں رہتا ہے۔ اِس ضمن میں انسان پر کئی زمانے گزرے۔ 

عہدِ غلامی سے لے کر دورِ حاضر کے آجر اور اجیر کا رشتہ استوار ہونے تک، انسان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ اُسے باعزّت روزگار میسّر آسکے، جب کہ استحصالی قوّتیں ہمیشہ محنت کشوں کے تعاقب میں رہیں، یہاں تک کہ انسان جب صنعتی انقلاب کے دَور میں داخل ہوا، تو اِس کشمکش میں تیزی آگئی۔گو کہ یہ سلسلہ پوری دنیا میں جاری تھا، لیکن امریکا میں زیادہ شدّت دیکھی گئی، جہاں محنت کشوں یا فیکٹری ورکرز کے حقوق کی پامالی عروج پر تھی۔ایک ہزار سے زاید فیکٹریز میں تقریباً 3لاکھ مزدور کام کر رہے تھے، لیکن اُن کی حالت ابتر تھی۔ 

کسی چُھٹی کے بغیر 16-16گھنٹے کام ایک معمول بن چُکا تھا اور اُنہیں کسی قسم کی طبّی سہولت بھی حاصل نہیں تھی۔ اُن سے ازمنہ وسطیٰ کے غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا تھا اور اگر کوئی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا، تو پولیس کے ذریعے اُس کی آواز دَبا دی جاتی۔ 

اِس امر میں شک نہیں کہ مزدوروں میں اپنے حقوق کا شعور آنے کے ساتھ،اُن کی ٹریڈ یونینز بھی قائم ہو چُکی تھیں، لیکن سرمایہ داروں کو حکومت اور پولیس کی بھرپور حمایت حاصل ہونے کے سبب کوئی بھی مزدوروں کی آواز سُننے کو تیار نہ تھا۔

انقلابی تبدیلی

لیکن پھر 1886ء کے اواخر میں یک لخت حالات نے پلٹا کھایا اور مزدوروں کی برسوں سے دَبی خواہشات، ایک احتجاج بن کر نمودار ہوئیں۔ اُس دَور میں ایک برطانوی سماجی لیڈر، رابرٹ اوون کا یہ نعرہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا تھا کہ’’مزدوروں سے اندھا دھند اور لگا تار کام لینے کی بجائے اُن سے 8گھنٹے کام لیا جائے تاکہ باقی وقت وہ اپنی فیملی کے ساتھ گزار سکیں‘‘مگر سرمایہ داروں کو یہ مطالبہ کسی صُورت گوارا نہیں تھا، کیوں کہ ان کی مصنوعات کی پیداوار متاثر ہوتی تھی۔

مزدوروں نے ٹریڈ یونینز کے زیرِ اہتمام یکم مئی 1886ء کو امریکی شہر، شکاگو کی’’Haymarket‘‘میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا پروگرام بنایا۔ ان احتجاجی مظاہروں میں 40ہزار سے زائد مزدوروں نے شرکت کی۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، جس سے ایک مزدور ہلاک اور متعدّد زخمی ہو گئے۔ یکم مئی کو احتجاجی مظاہروں کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور صرف ایک، دو ماہ میں آجر و اجیر اور صنعت و حرفت کا منظر نامہ یک سَر تبدیل ہو کر رہ گیا۔ 

4 مئی کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے زیادہ خطرناک اور تشویش ناک ثابت ہوئے کہ اُس روز مظاہروں کے دَوران کسی نامعلوم شخص نے پولیس اہل کاروں پر بم پھینک دیا، جس سے 7اہل کار ہلاک ہوگئے۔ حکّام نے اِس واقعے کی ذمّے داری مزدوروں پر ڈال کر اُنہیں گرفتار کر لیا اور 8مزدوروں کو سزائے موت سُنا دی گئی، جن میں سے4مزدوروں کو 11نومبر 1887ء کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ 4مئی کو پولیس فائرنگ سے کئی مزدور ہلاک اور زخمی ہو گئے۔

اِس دوران ایک زخمی مزدور نے اپنے خون سے سُرخ کپڑا لہرایا، جو بعدازاں مزدوروں کی جدوجہد کی سُرخ علامت بن گیا۔ ان مظاہروں اور احتجاجی جلسوں نے مزدوروں میں اپنے حقوق سے آگہی کی ایک ایسی لہر پیدا کر دی، جس سے دنیا کا تقریباً ہر مُلک متاثر ہوا۔

یوں دنیا بَھر کے مزدور اوقاتِ کار 8گھنٹے تک محدود کرنے اور دیگر حقوق کی بازیابی کے لیے متحد و متفّق ہوگئے۔ چناں چہ 1889ء میں 26ممالک کی سوشلسٹ مزدور جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کے نمائندوں نے ایک مشترکہ اجلاس میں یکم مئی کو ہونے والے واقعات کی یاد میں، یکم مئی کو’’عالمی یومِ مزدور‘‘( International Workers Day)منانے کا اعلان کیا، جو پوری دنیا میں ہر سال منایا جاتا ہے۔ 

آج دنیا کے ترقّی یافتہ ممالک میں بالخصوص اور بہت سے ترقّی پذیر ممالک میں بھی، مزدوروں کو طے کردہ اوقاتِ کار کے علاوہ دیگر جو سہولتیں میسّر ہیں، اُس کا سہرا احتجاج کے دَوران اپنی جانیں قربان کرنے والے مزدوروں کے سر ہے۔ اِس امر میں شک نہیں کہ دنیا بَھر کے مزدوروں کو اب بھی اپنے تمام بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ تاہم، اُنھیں جو حقوق حاصل ہیں، وہ شکاگو کے مزدوروں کی اس تحریک کا ایک اہم سنگِ میل تصوّر ہوتے ہیں۔

دنیا بَھر کے مزدور ہر سال یکم مئی کو جلسے، جلوس اور مظاہروں میں اِس عہد کا اعادہ کرتے ہیں کہ ابھی تک جن ممالک میں ٹھیکے داری نظام ہے، دہاڑی دار مزدوروں، مزارعوں یا دیگر محنت کشوں کے ساتھ جو استحصالی رویّے اپنائے، جو حقوق غصب کیے جاتے ہیں، اُن کے مکمل خاتمے تک وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اقوامِ متحدہ کے 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بَھر میں 15سال سے زائد عُمر پر مشتمل لیبر فورس کی تعداد ساڑھے تین ارب ہے۔ 

چین، بھارت اور امریکا میں سب سے زیادہ لیبر فورس موجود ہے۔ اس کے بعد انڈونیشیا، برازیل، بنگلا دیش، روس، جاپان اور پاکستان کا(6کروڑ 30لاکھ) نمبر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق بیش تر ترقّی پذیر ممالک میں مزدوروں کی تعداد کا بڑا حصّہ Forced Labour یعنی جبری مشقّت پر مشتمل ہے، جن پر مزدوروں کے بنیادی حقوق کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔

’’یومِ مزدور‘‘کس مُلک میں کیسے منایا جاتا ہے؟

اگرچہ دنیا کے بیش تر ممالک میں’’ مزدوروں کا عالمی دن‘‘ یکم مئی کو منایا جاتا ہے، لیکن بعض ممالک میں یہ یکم مئی کی بجائے دیگر تاریخوں میں بھی منایا جاتا ہے اور ان تاریخوں کا تعلق موسم کی تبدیلی سے ہے۔ جیسا کہ امریکا میں محنت کشوں کا عالمی دن ہر سال ستمبر کے پہلے پیر کو منایا جاتا ہے، جب موسمِ بہار کی آمد ہوتی ہے اور نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ امریکا میں لیبر ڈے 1872ء سے منایا جارہا ہے۔ 

اِسی طرح آسٹریلیا، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا میں بھی ستمبر کے پہلے پیر کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کی مختلف ریاستوں میں اس دن کی مختلف تاریخیں مقرّر ہیں۔ آسٹریلیا میں مزدوروں کی جدوجہد بہت پرانی ہے۔

اس کی ریاست، وکٹوریا میں اوقاتِ کار 8گھنٹے تک محدود کرنے کے لیے سب سے پہلا مارچ 21اپریل 1856ء کو کیا گیا۔ مزدوروں نے یونی ورسٹی آف میلبورن سے یہ مارچ شروع کیا، جو پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت کے باہر اختتام پذیر ہوا۔ اس روز مزدوروں نے کام چھوڑ دیا تھا۔ 

ماہرین کے بقول، آسٹریلیا دنیا کا پہلا مُلک ہے، جہاں اوقاتِ کار 8گھنٹے تک محدود کرنے کا مطالبہ منظور ہوا۔ بنگلا دیش میں ابتداً مزدوروں نے 24اپریل کو’’مزدوروں کا عالمی دن‘‘ منانے کی تجویز پیش کی تھی کہ اُس روز وہاں ایک عمارت کے منہدم ہونے سے کئی مزدورہلاک ہوگئے تھے۔ 

تاہم اس پر عمل نہ ہو سکا۔ کینیڈا میں 1894ء سے ستمبر کے پہلے سوموار کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ 22جولائی 1882ء کو ٹورنٹو میں مزدوروں نے ایک شان دار ریلی نکالی اور حکومت نے مزدوروں کی ٹریڈ یونین کی تشکیل کا حق تسلیم کر لیا۔ کینیڈا کے اس احتجاجی مظاہرے سے متاثر ہو کر نیویارک میں بھی اِسی قسم کے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیا۔ کینیڈا میں مزدوروں کے عالمی دن کے موقعے پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ 

چین میں بھی یہ دن زور و شورسے منایا جاتا ہے۔ 2008ء تک یہ دن، تین ایّام کی تقریبات پر محیط تھا۔ بعدازاں، اِسے ایک روز تک محدود کر دیا گیا، تاہم اب بھی نجی طور پر تقریبات تین دن جاری رہتی ہیں۔ روس میں لیبر ڈے یکم مئی کو منایا جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ دن، موسمِ بہار کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اِس موسم میں روس کے بیش تر علاقے، جو تاریکی اور دھند میں لپٹے رہتے ہیں، سورج کی روشنی سے منوّر ہو جاتے ہیں۔

اِس دن کی ایک نمایاں خصوصیت ماسکو میں ہونے والی شان دار پریڈ ہے اور اس روز وہاں عام تعطیل ہوتی ہے۔ روس میں 1991ء سے پہلے لیبر ڈے پر سیاست کی چھاپ نمایاں تھی، لیکن اب اس پر سیرو تفریح کا عُنصر غالب نظر آتا ہے۔ بھارت میں بھی لیبر ڈے کی تاریخ بہت پرانی ہے، جہاں پہلا یوم مئی 1923ء میں چنائی(مدراس) میں منایا گیا، جس کا اہتمام’’ ہندوستان کسان پارٹی‘‘ نے کیا تھا۔

جمیکا میں لیبر ڈے کی تاریخ کافی دل چسپ ہے۔ 1961ء سے پہلے 24مئی بطور ایمپائر ڈے منایا جاتا تھا، جو کہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا کا یوم پیدائش تھا۔ (اُس وقت جمیکا، برطانیہ کے زیرِ نگین تھا)۔1972ء سے یومِ مئی پبلک ہالیڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جاپان میں بھی اِس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور یہ یومِ تشکّر کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ قازقستان میں یہ دن ستمبر کے آخری اتوار کو منایا جاتا ہے، جب کہ 1995ء سے یہ دن عوام کے اتحاد کے طور پر بھی منایا جا رہا ہے۔

اِس موقعے پر حکومت مزدور رہنماؤں کو مختلف میڈلز اور ایوارڈز سے بھی نوازتی ہے۔ ملائیشیا میں اِس روز جلسے، جلوس نکالے جاتے ہیں اور عام تعطیل ہوتی ہے۔ فلپائن میں یہ دن 1903ء سے منایا جارہا ہے، جب مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے بھرپور احتجاج کیا تھا، جب کہ 1908ء میں اِس یوم کو سرکاری حیثیت دی گئی اور اِس روز عام تعطیل کا علان کیا گیا۔ 

سوئٹزر لینڈ میں یومِ مزدور پر عام تعطیل تو نہیں ہوتی، البتہ اس روز لوگ اپنے طور پر چُھٹی کر لیتے ہیں اور بچّے روایتی انداز میں گھروں کے سامنے گیت گاتے ہیں، جس پر گھروں کے مکین اُنہیں چاکلیٹس اور مٹھائیاں پیش کرتے ہیں۔ تاجکستان میں بھی اِس روز اگرچہ عام تعطیل نہیں ہوتی، لیکن لوگ پھر بھی اپنے طور پر تقریبات کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ تُرکیہ میں یکم مئی، مزدوروں کے عالمی دن کے ساتھ’’ یومِ استحکام‘‘ کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی یہ دن خاصے اہتمام سے منایا جاتا ہے اور اس روز عام تعطیل ہوتی ہے۔ وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹّو کے دَور میں، 1972ء میں پہلی مرتبہ سرکاری طور پر مزدوروں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس روز جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں، حکومتی عمائدین بھی مزدوروں کے حق میں دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ سوشل سیکیوریٹی نیٹ ورک، اولڈ ایج بینی فٹس اسکیم، ورکرز ویلفیئر فنڈز، کم سے کم اجرتوں کا تعیّن اور دیگر متعدّد اسکیمز سے مزدوروں کی حالت بہتر بنانے میں مدد ملی۔

پاکستان کا آئین بھی محنت کشوں کو اُن کے بنیادی، طبّی، تعلیمی، پیشہ ورانہ اور دیگر حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے، لیکن اِس سب کے باوجود اگر اب بھی مجموعی صُورتِ حال دیکھی جائے، تو مزدور اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ اعلان کردہ کم از کم اجرتوں کی صریحاً خلاف ورزی، آئے روز ملازمتوں میں چھانٹی، کانٹریکٹ ملازمین کا عدم تحفّظ اور دیگر بنیادی مراعات سے محرومی پاکستان کی لیبر فورس کا ایک المیہ ہے۔ 

بے روزگاری، منہگائی، ملازمت کا عدم تحفّظ، ناکافی اجرت اور دیگر مسائل نے مزدور اور ملازمت پیشہ افراد کو شدید مشکلات سے دو چار کر رکھا ہے، جس کا واضح نتیجہ ہر سال کروڑوں افراد کے خطِ غربت سے نیچے چلے جانے کی صُورت نکلتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ کارخانوں اور دفاتر کا پہیّا رواں رکھنے والے محنت کشوں، ملازمین کو اُن کا جائز مقام دیئے بغیر ایک خوش حال معاشرے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

سنڈے میگزین سے مزید