• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام وسرکار و دربار اسلامی جمہوری پاکستان! غور فرمائیں، جدید معاشرے میں پیشہ صحافت نے کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی کرشماتی ایجادات کی معاونت سے کتنی اہمیت اور ممالک کی قومی زندگی میں کس قدر حساسیت اختیار کرلی ہے؟ اتنی کہ اب یہ گھر گھر اور فردفرد اطفال تا بزرگوار، اپنی پیشہ ورانہ خدمات پہنچاتا ہے۔ انسان کو عطائے رب کریم، عقل سلیم کے بلیغ استعمال سے انٹرنیٹ اور سیٹلائیٹ کمیونیکیشن کے دنیاوی و انسانی معجزات نے بچوں، بوڑھوں اور دور افتاد علاقوں میں بکھرےبکھرے آباد الگ تھلگ ریاستی شہریوں تک کو اس قابل کر دیا ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیر پوری مملکت تک اور عزم باندھ لیں تو باآسانی پوری دنیا میں پہنچا دیں۔ لیکن یہ ابلاغی صلاحیت کے حوالے فقط تہذیب انسانی کا ایک عظیم حصول ہے۔ کیا (پیغام) پہنچا سکتے ہیں، جو پہنچا رہے ہیں وہ کیا اور کتنا موثر ہے، یہ ملین ڈالر سوال ہے؟ جو جائزے اور تجزیے کا طالب ہے کہ پورے معاشرے کو لپیٹ میں لئے غالب پیشہ صحافت کے کردار و خدمات اور عوام الناس کے ہاتھ لگ گئی، دور دور اور لاکھوں کروڑوں میں اپنا مدعا پہنچانے کی صلاحیت اس سوال سے ایک عظیم انسانی اور ہر قوم و ملک کی قومی ضرورت کو اس سوال پر جدا کردیتی ہے۔ یہاں صحافی کا کردار جدا ہو کر کمیونیکیشن اسکالرز اور محققین کاشروع ہو جاتا؟۔ہمارے درویشی مزاج اور طرز زندگی کے حامل حریت پسند شاعر جالب نے اپنی قومی، سیاسی بیباک شاعری پر بڑے آئین سے آمریت کو للکارتے ہوئے فرمایا تھا:

مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم

میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا

بلاشبہ یہاں جو حبیب جالب کی ’’میں‘‘ ہے یہ اسکا اپنی حریت پسندی پر مان ہوگا لیکن یہاں وہ آمریت سے بیزار اور جمہوریت کیلئے بیدار اور برسرپیکار عوام کا نمائندہ شاعر بن کرسینہ سپر ہوا۔ اپنی اعلیٰ و بامقصد ابلاغی صلاحیت (شاعری) سے وہ عوامی نمائندہ ہونیکا حق بجانب ہے۔ جالب کا امتیاز تو یہ تھا:کہ ان کا ترنم ہی باکمال نہیں تھا، اس کیساتھ جالب کے ہی منہ سے نکلے اور باڈی لینگویج سے بھی جڑے کچھ سوتی اثرات ہوتے کے سامعین باآسانی انقلاب کی تصویر اپنے ذہن میں خود بنا لیتے جو تبدیلی کی ایسی عکاس ہوتی جو جالب عوام کو دکھانا بتانا چاہتا تھا۔ یقیناً شاعر حریت کا پیغام کوئی فقط حکومت اکھاڑ کر رجیم چینج نہیں ہوتا تھا۔ وہ سخت گیر لیکن محدود ترین اور ذات و انا میں لپٹی آمریت کی مذمت اور وسیع تر تبدیلی کے خواب کی تعبیر و تصویر کو بھی پیش کرتا۔ اس طرح جالب کا شمار اردو کے پراثر شاعروں میں ہوتا ہے۔ اس اعزاز میں اسکی دربار سے دوری سے پیدا ہونے والا امپیکٹ فیکٹر بلند درجے پر ہے۔

قارئین کرام، خصوصاً سرکار و دربار، موجود اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، یاد رہے گزری 20ویں صدی، اپنی بیش بہا جملہ انقلابی ایجادات و اختراعات میں سب سے انقلاب آفریں کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی ورطہ حیرت میں ڈالنے والی ایجادات اختراعات کے باعث ’’کمیونیکیشن سنچری کہلائی، لیکن تیسرے ملینیم کے آغاز تا دم یعنی جاری 21 ویں صدی کے پہلے ربعہ میں جو ابلاغی انقلاب سوشل میڈیا کے زور پر برپا ہوا اس نے، خدا را سمجھا جائے عوام الناس کی قومی ابلاغی یا عالمی ابلاغی طاقت کو خطرناک اور تباہ کن اسلحے کی ہولناک طاقت اور دفاع و سلامتی کی انتہائی طاقتور اور نفیس ترین کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے زور پر واضح غالب کردیا۔ اسکے شہریوں کے آسان لیکن ذہین و فطین و لطیف اور حکیمانہ استعمال نے ایمپاورڈ ہوئے پیپلز ایٹ لارج کو ہر طرح کی افواج پر واضح طور پر غالب کردیا ہے۔ ہیومین سیکورٹی سرحدات سے زیادہ اہم اور اس کی محتاج ہوگئی۔ آج کا ہر فرد اس کے استعمال پر انہماک اور مسلسل کوشش سے وہ اتنا ایمپاورڈ ہوگیا ہے کہ اس کی بڑی جملہ محتاجی ختم اور عقل سلیم کے بعد اور اسی (عقل سلیم) کے ساتھ لازم و ملزوم دوسرا بڑا انسانی شرف اعلیٰ ابلاغی صلاحیت کے انتہائی نتیجہ خیز استعمال سے بڑے بڑےطاقتور انسانوں، حکمرانوں اور ریاستی نظام کے مقابل آ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف کھڑا ہوگیا ریاستی امور میں اپنا حصہ لینے کا اہل یا نا ملنے پر ریاستی نظام کی قلعی کھولنے کے قابل بھی ہوگیا ہے۔ لیکن یاد رکھا جائے وہ تادم اس محدود ہی صلاحیت کا ہی حامل ہے کہ اس (شہری) نے اپنا مدعا، اپنا مقدمہ، اپنا بیانیہ کیا بنانا ہے؟ ہم جانتے اور بہت بلند درجے پر سیاسی ابلاغ اور صحافی تجزیوں میں مانتے ہیں کہ بڑے بڑے حکمران و سیاستدان، دانشور ، علماء و خطبہ ، صحافی شاعر و ادیب جو زندگی کا بڑا حصہ پیغام سازی یعنی بیانیہ سازی میں گزارتے ہیں غلط اور بدنیتی پر مبنی گمراہ کن بیانیوں سے بڑے بڑے ڈیزاسٹرز کرتے، اپنی اعلیٰ انسانی ابلاغی صلاحیت کے الٹ معاشرے کیلئے خطرات و خسارے و خدشات کا سبب بنے اور ہر دم بنے رہتے ہیں۔ہر گز کوئی اختلاف نہیں کہ سوشل میڈیا بریگیڈ جو کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے شبابی گستاخی استعمال پر بھی دسترس رکھتے ہیں لیکن پیغام بازی کے حوالے کیا اور کیسے اور کتنا کیا ڈلیور کرتا ہے،ایٹ لارج نہیں جانتےیوں واقعی گستاخانہ کردار کے حامل اور عادی بھی ہوگئے اور ہو رہے ہیں۔ یقیناً یہ تادم چیلنج ہے کہ : انہیں قابو کرنے کی بھی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین