برصغیر پاک و ہند کہنے کوتو ارضی سیاسی تقسیم میں سات براعظموں، افریقہ، انٹارکٹیکا، ایشیا، آسٹریلیا، یورپ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ جیسے سات عظیم براعظموں کے مقابل برصغیر ہی ہے لیکن اپنے مجموعی ارضی و انسانی پوٹینشل کے حوالے سے یہ کسی بھی بڑے سے بڑے ایک یا اکٹھے دو تین براعظموں کی مجموعی صلاحیت کے مقابل زیادہ سرگرم، جاندار اور بھرپور ہے۔ افرادی قوت سے لے کر پوشید ہ و آشکار ارضی وسائل سے مالا مال ہے۔ تاریخی طور پر تاحال یہ خود کسی برعظیم سے کم نہیں رہا، لیکن اس سے بڑی اور منفی حقیقت یہ کہ: جتنے وسائل، اتنے ہی مسائل۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب نوآبادیاتی نظام (کلونیئل ازم) کی تحلیل کا عمل شروع ہوا، نئی مملکتیں (نیشن اسٹیٹس) بننا شروع ہوئیں تو اس انقلاب آفریں عالمی عمل کا سب سے بڑا واقعہ پارٹیشن آف انڈیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام تھا۔ ممالک کی تعداد کے اعتبار سے بنگلہ دیش کے وجود میںا ٓنے اور خطے کے نواحی ممالک نیپال، سری لنکا، مالدیپ، افغانستان اور بھوٹان دنیا کے سب سے نحیف ہی، علاقائی بندوبست سارک میں شمولیت سے برصغیر کو اور زیادہ وسعت ملی۔ اس طرح قدرتی وسائل، آبادی، رقبے اور وسائل کے اعتبار سے امن عالم و انسانی سلامتی و استحکام کیلئے کسی بھی براعظم سے زیادہ حساس اور توجہ کا طالب سب سے عظیم خطہ ہے۔ لیکن پاکستان کی شہ رگ اور ملکی مرکزی و قدرتی دریائی نظام شہرہ آفاق انڈس ریور سسٹم کی بالائی گزر گاہ جموں و کشمیر پر بھارت کے 77 سالہ ناجائز قبضہ نے امن عالم کے خصوصی حوالے سے بقول سابق امریکی صدر کلنٹن مسئلہ کشمیر کو دنیا کا فلیش پوائنٹ بنا دیا ہے۔ بھارت کی پہل اور خطے میں بلاجواز قیادت کے جنون میں دوسری مرتبہ ایک ہی روز 4ایٹمی دھماکوں (مئی 1998ء) اور جواباً و مجبوراً پاکستان 6ایٹمی دھماکوں کے کامیاب ترین تجربے کے بعد سے تو یہ فلیش پوائنٹ مسلسل بلنک کر رہا ہے اور کئی مرتبہ اس کی بلند آواز سیٹیاں دنیا نے سنیں لیکن فلسطین جتنے حساس اور دیرینہ مسئلہ کشمیر کو فیصلوں سے کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے حق خود ارادیت دینے کی بجائے بھارت کی ہٹ دھرمی اور اپنے انفرادی ’’قومی مفادات‘‘ کو عالمی امن اور اس کے چارٹر پر ترجیح دینے والے ممالک نے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کو برقرار رکھنے کی ہلہ شیری دیئے رکھی۔
اس پس منظر میں بھارت ہندو بنیاد پرستی میں مبتلا ہو کر اپنا ماڈرن ’’سیکولر ڈیموکریسی‘‘کا تشخص کھو کر کھلی دہشت گردی کی طرف مائل ہوگیا۔ پہلے مودی نے ہندتوا نظریے پر بھاری مینڈیٹ حاصل کرکے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا بیانیہ بنایا، جارحانہ انداز میں اس کی رٹ لگائی، خلاف آئین مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی، کشمیریوں پر ظلم و جور کے پہاڑ توڑے،سرجیکل سٹرائیک کا شوق پورا کرتے پاکستان سے منہ کی کھاتے،دو طیارے گنوائے، ابھینندن کا داغ تمغے کی چمک سے صاف کرنے کی کوشش کی، پھر ’’گھس کر مارنے کی‘‘ دھمکیوں پر گزارا کیا۔ پاکستان میں بات نہ بنی تو پورا زور افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سیریز پر لگا دیا۔ پھر افغانستان سے کچے دھاگے سے بندھنے پر پورا زور لگا دیا۔ امریکہ اور کینیڈا میں ’’گھس کر مارنے‘‘ کا گھناؤنا اور خونیںکھیل کھیلا تو ہر دو ممالک کی حکومتوں نے اپنی تحقیقاتی ایجنسیوں کی رپورٹ سے سکھ لیڈر کے قتل اور دیگر دہشت گردانہ وارداتوں میں ملوث ہونے کے تمام شواہد کو پوری دنیا کے سامنے مکمل بے نقاب کردیا۔ اور دس حوالوں سے پاکستان کے خلاف بھارت کی سرکاری دہشت گردی مکمل ثابت شد ہ ہے۔ سب سے بڑا ثبوت تو کلبھوشن یادیو ہے۔ گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس کی مسافروں سمیت آتش زدگی تو بڑے اور قدرے پرانے حوالے ہیں جن سے بھارتی حکومتی دہشت گردی مکمل بے نقاب ہوئی، خود بھارت کے سرکاری حلقوں اور اپوزیشن سے ممبئی کے ہوٹل پر تین روزہ دہشت گرد حملے بارے انگلیاں اٹھیں۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری نے اس پر کتاب تک لکھ ڈالی۔
اب جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے دور افتادہ بلند پہاڑی علاقے میں سیاحوں پر قابل مذمت دہشت گردانہ حملہ کیا یہ غمناک خبر نشر ہوتے ہی جس طرح اور جس سرعت سے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرکے بھارتی سکیورٹی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کا ڈیزاسٹر ہوا یا پھر پلوامہ جیسا ڈرامہ رچایا گیا جسے بھارتی اپوزیشن لیڈروں نے پاکستان سے زیادہ بے نقاب کیا۔ اب جو مقبوضہ کشمیر میں دور افتادہ بلند سیاحتی مقام پر سیاحوں کے گروپ پر دہشت گردی کرکے 27 شہریوں کو قتل کیا گیا ہے یہ پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے بہت تشویشناک ہے۔ یہ انتہائی قابل مذمت واردات مقبوضہ کشمیر سوشل میڈیا کے معتبر اور سنجیدہ سیکشن نے بھارتی میڈیا کی مانیٹرنگ اور دیگر حقائق تک پہنچتےدسیوں سوال اٹھا دیئے ہیں جبکہ مودی نے پاکستان کے دریائی نظام میں رخنہ ڈال کر بڑا ڈیزاسٹر کیا ہے۔ یہ پاکستان کےخلاف اعلان جنگ کے مترادف ہےکہ کھلی روایتی جنگ کی ہمت تو بھارت کر نہیں سکتا کہ بات ایٹمی جنگ پر آپریشنل تیاریوں کی طرف نہ چلی جائے، سو پاکستان کی ایک انتہائی نازک صورت حال کا فائدہ اٹھاتے شک کو یقین میں خود بھارت نے تبدیل کیا ہے کہ جتنی سرعت سے اس نے حسب معمول پاکستان پر دہشت گردی کا الزام دھرا ہے جس طرح پاکستان کے داخلی بحران میں اسے نئی مشکلات میں جکڑنےکیلئےمقبوضہ کشمیر سے گزرنے والے پاکستان کے دریائی نظام کی روانی کو روکنے کا اعلان کیا ہےیہ پاکستان کے خلاف کھلی جنگ کے مترادف ہے۔ مودی کا اعلان پاکستان کیلئے زندگی موت کا معاملہ ہے کہ نئی دہلی سندھ طاس کا معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کرکے ہمیں پانی کے مستقبل اور بڑے ذریعے سے محروم کرنے کی جسارت کرے۔ پاکستان کی برابر کی ایٹمی طاقت کے خوف اور فروری19کے زخم یاد کرکے اس مرتبہ ’’دریاؤں کے رخ موڑنے‘‘ کو جنگی حربہ و ہتھکنڈا و ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہےکہ یہ ہماری خوراک و زراعت کا معاملہ ہے، سو پاکستان کو دنیا پر فوری اور مکمل بیباکی سے واضح کرنا ہوگا کہ : بھارت ہمیں ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کی تھیوری کی طرف لا رہا ہے ایسے کہ :بھارت اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پانی ترسیل روکنے کو بڑا ہتھیار بنا رہا ہے۔ کتنی بڑی اور خوفناک حماقت ہے کہ:ہم کوئی پابند رہیں گے کہ اکتفا عالمی عدالتوں اور ضامنوں پر انحصار کریں گے۔ سو جنگ ونگ تو نہیں ہوگی نہ بھارت سرحدوں پر کھلی جنگ کی ہمت کر سکے گا نہ سندھ کا پانی روک سکے گا۔ اتنی بڑی حماقت کر بیٹھا تو ’’مرتا‘‘ جو کرتا ہے وہ بھارت کو بہت اچھی طرح معلوم ہے۔ پانی بندش کے خلاف ہم اپنے کون سے اور کس وقت کیا استعمال کریں گے اس کا بھارت ہی ہمیںموقع دے گا لیکن یہ دنیا بھر کو باور کرانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ دفاع وطن کا یہ کار عظیم پاکستان کی قوت اخوت عوام ہی سرگرم اور بیانیہ سازی میں یکتاسوشل میڈیا بریگیڈ ہی کر سکتا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔