حالی نے بقراط کے حوالے سے کیا خُوب کہا ہے؎کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا .....مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا..... کہا، دُکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا..... کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا۔ یوں تو سرزمینِ یونان میں بے شمار باکمال اور اہلِ علم شخصیات نے جنم لیا، لیکن ان میں رہتی دنیا تک زندئہ جاوید رہنے والی ایک عظیم شخصیت کا نام بقراط ہے۔
جنہیں اُن کی، فنِ طب یونانی کے فروغ کے لیے جلیل القدر خدمات کے اعتراف میں ’’بابائے طب‘‘ کہا جاتا ہے۔ بقراط (دوم) نے 460قبل از مسیح میں یونان کے ایک جزیرے میں جنم لیا، جسے یونانی زبان میں کوس کہتے ہیں۔ان کے والد کا نام ایرقلیدس اور دادا کا نام بقراط (اوّل) تھا۔یونان میں عام رواج تھا کہ خاندان کے پہلے بیٹے کا نام اُس کے دادا کے نام پر رکھا جاتا۔
یونانی زبان میں لفظ بقراط کے معنی ’’صحت پر گرفت رکھنے والا‘‘ اور دوسرے قول کے مطابق، ’’ارواح کو گرفت میں رکھنے والا‘‘ کے ہیں۔ بقراط نے ابتدائی طبّی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، اس کے بعد یونان کی معروف طبی درس گاہوں سے استفادہ کیا۔ اس کےقابل ِذکر اساتذہ میں دیمقراطیس اور جارجیاس قابل ذکر ہیں۔ بقراط کی سحرانگیز شخصیت میں کمال درجے کی ظاہری خوبیوں کے ساتھ باطنی خوبیاں، اخلاقِ کریمانہ، حیا، وضع داری اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
وہ مال و دولت،جاہ و مرتبہ سے کوسوں دور بھاگنے والا، ضرورت بھر آمدنی پر قناعت کرنے والا، غریب پرور اور غریب مریضوں کا علاج کرکے روحانی مسرّت سے سرشار ہونے والا انسان تھا۔ بقراط نے اپنی برسوں کی تحقیق اور فکر کی بدولت سلطنتِ یونان میں روایتی طریقۂ علاج کو مسترد کرتے ہوئے ایک فطری طریقۂ علاج یعنی ’’طبِ یونانی‘‘ کی باضابطہ بنیاد رکھی۔
اسی لیے بقراط کا شمار یونان کے اکابر اطباء میں کیا جاتا ہے۔ بقراط سے قبل سرزمینِ یونان میں فنِ طب ایک خفیہ خزانے کا درجہ رکھتا تھا۔ جسے طبقۂ اشرافیہ محض اپنے خاندان کی صحت کی دیکھ بھال تک اپنے سینوں میں محفوظ رکھتا تھا۔ فنِ طب کی زبانی تعلیم اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے اور اسے عمومی سطح پر پھیلانے سے احتراز کی وجہ سے یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں یہ عظیم فن ختم نہ ہوجائے۔
چناں چہ بقراط نے یہ خدشہ بھانپتے ہوئے فن ِطب کو مخصوص طبقے کی برسوں پرانی اجارہ داری سے نکالنے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے اُسے چند ضابطوں کے مطابق عوام النّاس میں عام کرنے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ اس سلسلے میں بقراط نے کوس شہر میں چنار کے ایک درخت کے نیچے اپنے شاگردوں کو طب کی تعلیم دینے کا آغاز کیا۔ اسی لیے اس درخت کو ’’بقراط کا درخت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یونانی مفکّر، سائنس دان اور حکیم بقراط نے فنِ طبابت میں بہت کام کرکے دنیا بَھر میں نام پیدا کیا۔ وہ دنیا کا پہلا طبیب تھا، جس نے طب کو مذہب اور فرسودہ نظریات سے علیٰحدہ کرکے سائنسی طرزِ فکر کے ذریعے عوام سے رُوشناس کروایا، اپنے عالمانہ اور حکیمانہ اندازِ فکر سے ایک زمانے سے رائج تعویذ گنڈوں، ٹونے ٹوٹکوں، قیاس و حیل اور سحرمیں بھٹکتی ہوئی طب کے اصول و نظریات کو مرتب کرکے اسے ایک مستقل فنی اسلوب کے ڈھانچے میں ڈھال دیا۔
پہلی باریونان کے لوگوں کو بتایا کہ ہمیں بیماری کے دوران مافوق الفطرت اور کم زور اعتقادات کے بجائے قوانینِ فطرت پر غور کرنا چاہیے۔اس طرح بقراط نے یونان میں پہلی مرتبہ روایتی جادو ٹونے کے ذریعے مریضوں کے علاج معالجے کے بجائے سائنسی طرزِعلاج کے طریقۂ کار کی بنیاد ڈالی اور اسی وجہ سے دنیا میں ’’بابائے طب‘‘ کہلایا۔
یونانی طریقۂ علاج کےبنیادی نظریے کی رُو سے کسی انسان میں امراض کی بنیاد اس انسان کےمزاج، اخلاط یا کیفیت پر مشتمل ہوتی ہے۔ چناں چہ اس نظریے کے مطابق جب تک یہ اخلاط اعتدال پر قائم رہتے ہیں، انسان کا مزاج بھی معتدل رہتا ہے اور اسی کیفیت کا نام تن درستی ہے، لیکن جب یہ اخلاط کسی اندرونی یا بیرونی اثر کے سبب اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں، تو انسان کا مزاج بھی اعتدال میں نہیں رہتا اور یہ صورتِ حال بیماری کی کیفیت سے تعبیر کی جاتی ہے۔ اس صُورتِ حال کو اعتدال پر لانے کے لیے مریض کو مناسب غذا، تدبیر اور دوا کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی کا نام علاج ہے۔ بدنِ انسانی کا یہ نظام ایک قوت کے ذریعے انجام پاتاہے، جسے قوتِ مدبّرئہ بدن(Immunity) کہا جاتا ہے۔
فطرت کے اصولوں کے مطابق ہرانسان کے چار مزاج ہوتے ہیں، سردی،گرمی، تری اور خشکی، جب کہ اسی طرح بدنِ انسانی میں چار اخلاط بھی ہوتے ہیں، جن میں بلغم، صفرا، سودا اور خون شامل ہیں، یعنی وہ سیال مادّے، جو غذا کے ہضم اور تغیّر سے بدنِ انسانی میں پیدا ہوتے ہیں، جب کہ انسانی مزاج کی بنیاد اس کی کیفیت پر منحصر ہوتی ہے۔ طبِ یونانی کے فلسفے کے مطابق جب انسان کے قدرتی نظام میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، تو وہ اس کے مزاج اور چاروں اخلاط پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، جس کے باعث بدنِ انسانی میں کوئی خرابی یا بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔
طبِ یونانی کے فلسفے کی رُو سے اسباب ستہ ضروریہ یا(Six Essential) یعنی امراض کے چھے بنیادی اسباب ہوتے ہیں، جنہیں ہوا،کھانا پینا، حرکت و سکونِ بدنی، حرکت وسکونِ نفسانی،سونا، جاگنا اور احتباس و استفراغ کہتے ہیں۔ بلاشبہ، طبِ یونانی ایک مکمل فطری اور قدرتی طریقۂ علاج ہے، جس میں تین مختلف ذرائع سے مختلف امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ ان میں اوّل نباتاتی طریقہ علاج، جس کا استعمال 80فی صد ہوتا ہے، دوم معدنی ذریعۂ علاج، یعنی کیلشیم، میگنیشیم، زنک اور آئرن اور سوم حیوانی طریقۂ علاج ہے۔ یعنی جس میں مرض کے علاج کے لیے حیوانات کے مواد سے تیار کردہ ادویہ استعمال کی جاتی ہیں۔
تینوں ذرائع علاج میں قدرتی طور پر پائی جانے والی خام جڑی بوٹیوں کو ادویہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی میں علاج معالجے کے بھی چار طریقے رائج ہیں، جن میں علاج بالغذا، علاج بالدوا، علاج بالتدبیر اور علاج بالید یعنی جرّاحی شامل ہیں، جب کہ علاج بالتدبیر کے 36طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق مرض کی نوعیت اور مریض کی کیفیت مدِّنظر رکھتے ہوئے شافی علاج کیا جاتا ہے۔
حکمت میں برسوں کے تجربات شاہد ہیں کہ یونانی طریقۂ علاج سے بیماری جڑ سے ختم ہوجاتی ہے، اسی لیے طبِ یونانی کو دنیا کے دیگر طریقہ ہائے علاج کے مقابلے میں ’’علاج بالحکمت‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اگر تن درست آدمی طب یونانی کی ادویہ استعمال کرے، تو وہ اس کے لیے غذا کا درجہ رکھتی ہیں اور اگر مریض استعمال کرے، تو اس کے لیے دوا ہیں۔ یونانی ادویہ کے انسانی صحت پر کوئی ضمنی اثرات (Side effects)بھی مرتّب نہیں ہوتے۔ اسی لیے دنیا بھر میں مختلف دائمی امراض خصوصاً نظامِ ہضم کی خرابیوں سے شفایابی کے لیے طبِ یونانی یا قدرتی طریقۂ علاج روز بروز فروغ پارہا ہے۔
یونانی حکیم بقراط ایک ذہین اور نابغۂ روزگار طبیب تھا۔ تب ہی اس کے طریقۂ علاج اور ضابطۂ اخلاق نے دنیا بھر میں دائمی شہرت حاصل کی۔ اُس نے ایک موقعے پر اپنے پانچ انچھروں میں ساری طب ختم کردی۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اگر مادّہ فاسد سر میں ہو، تو مریض کو غرغرہ کروائیں اور فمِ معدہ میں ہو، تو قے، اگر خاص معدے میں ہو، تو اُسے مُسہل دیں، اور جِلد میں ہو، تو عرق یعنی پسینہ لیں اور اگر عروق یعنی رگوں میں پایا جائے، تو فصد کھلوائیں۔‘‘ بقراط کا مشہور قول ہے کہ چار چیزیں نورِ باصرہ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ گرم کھانا، جلتا پانی سر پر ڈالنا، سورج کو تکتے رہنا، دشمن کی جانب نظر کرنا۔ بقراط کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین چیزیں انسان کو دُبلا کرتی ہیں، نہار منہ پانی پینا، سخت زمین پر سونا اور چیخ چیخ کر بولنا۔
اُسی کا قول ہے کہ چار امور سے بدن خراب ہوتا ہے، نہار منہ نہانا، خالی یا بَھرے پیٹ سے جماع، خشک گوشت کھانا اور نہار منہ پانی پینا۔ بقراط کا مزید کہنا ہے کہ مریض کو جس چیز کی رغبت ہو، اُس کا دینا بے رغبت چیز کِھلانے سے بہتر ہے۔ بقراط ہمیشہ مریضوں کے علاج معالجے اور انہیں فائدہ پہنچانے کے لیے سرگرداں رہتا تھا۔ وہ دنیا کا پہلا طبیب تھا، جس نے مریضوں کے علاج معالجے کے لیے باقاعدہ شفا خانے کی بنیاد رکھی اور اس مقصد کے لیے اپنے گھر کے باغ میں مریضوں کے لیے علیٰحدہ جگہ مقرر کی۔
اُن کو علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تربیت یافتہ شاگرد متعین کیے۔ بقراط نے اس جگہ کا نام ’’اخندوقین‘‘ یعنی ’’بیماروں کا مجمع‘‘ رکھا۔ بقراط کی پوری زندگی کا مشغلہ بس فنِ طب پر غور و فکر، طبّی اصول پر عمل، مریضوں کا علاج، اُنھیں آرام پہنچانا اور مختلف نوعیت کے امراض سے نجات دلانا تھا۔
بحیثیت طبی مصنّف بھی بقراط کا مقام بے حد بلند ہے۔ تشریح، منافع الاعضاء، کلیّاتِ طب، جرّاحت، حفظانِ صحت، فصد اور حجامہ اور ادویہ کے موضوعات پر اگرچہ اُس کی طبّی تصانیف کی تعداد تقریباً280 تک ہے، لیکن اس فنی سرمائے کی گوہرِ نایاب تصانیف میں ’’کتاب الحیوان، کتاب الاغذیہ، کتاب ایڈیمیا اور کتاب الامراض الحادہ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
بقراط نے اپنے شاگردوں کے لیے پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق کے طور پر ایک عہد نامہ بھی اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا، جس میں ایک مثالی طبیب کی خصوصیات اورذمّے داریاں بیان کی گئی ہیں۔ اس عہد نامے کے مطابق اپنے پیشے کی عظمت کے ساتھ کسی بھی طبیب کے لیے مریض سے ہم دردی اور اُس کی رازداری رکھنا از حد ضروری ہے۔ پاک دامنی، میانہ روی اور نفع رسانی طبیب کا خاصّہ ہونا چاہیے اور ہر طبیب پر لازم ہے کہ وہ ان ہدایات پر عمل کرے۔ اس حلف نامۂ بقراط(Hippocratic Oath) کو تین حصّوں میں بیان کیا گیا ہے۔
استاد اور معلّم سے متعلق عہد، مریضوں، علاج معالجے کے متعلق عہد اور دُعا و تنبیہ۔ حلف نامۂ بقراط میں طبیبوں کی ہدایت کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ ’’امکان کی حد تک تمام تدابیر میں مریضوں کے فائدے کا خیال رکھوں گا، جو اشیاء اُن کے حق میں مضر اور ان پر ظلم و زیادتی کے مترادف ہوںگی، اپنے خیال کی حد تک انہیں، اُن سے محفوظ رکھوں گا۔ اگر کوئی مریض مہلک دوا کا طالب ہوگا، تو نہ دوں گا اور نہ ہی اُسے اس قسم کا مشورہ پیش کروں گا۔ عورتوں پر حمل گرانے والی کوئی دوا استعمال نہیں کروں گا۔ اپنی تدبیر اور فن کے ضمن میں پاکیزگی پر ثابت قدم رکھوں گا۔
جس مریض کے مثانے میں پتھری ہوگی، اس پر گراں نہ بنوں گا، بلکہ اسے اُس شخص کے لیے چھوڑ دوں گا، جس کا یہ پیشہ ہوگا۔ جس گھر میں داخل ہوں گا، اس میں محض مریضوں کو فائدہ پہنچائوں گا۔ مَیں تمام امور میں، عورتوں، مَردوں کے معاملے میں، خواہ وہ غلام ہوں یا آزاد، ہر ظلم و ستم اور بدنیتی سے پاک رہوں گا۔ مریضوں کے علاج کے وقت جو کچھ دیکھوں گا، سنوں گا یا لوگوں کے تصرفات میں جو باتیں مریضوں کے معالجاتی اوقات کے علاوہ نظر آئیں گی، جنہیں باہر بیان نہ کیا جاسکے، تو اُن سے باز رہوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ اس طرح کی باتیں کہیں کہنے کی نہیں ہوتیں۔‘‘
طبّی اخلاقیات اور نظم و ضبط کے زرّیں اصولوں پر مشتمل بقراط کا یہ حلف نامہ آج بھی دنیا بھر کےشعبہ طب سے وابستہ افراد کی رہنمائی کے ساتھ اخلاقیات پر ایک مستند دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔ حلف نامے کی تاریخی دستاویز نے طبی پیشے کی خدمات کو بہتر بنانے اور پیشہ ورانہ طبی اخلاقیات کو بے حد استحکام بخشا۔ بقراط نہ صرف مریضوں کے علاج معالجے اور تحفّظ پر خصوصی توجہ دیتا ، بلکہ اپنے شاگردوں سے اس کا حلف بھی لیا کرتا تھا کہ وہ ہمیشہ علاج معالجے کے دوران مریضوں کے ساتھ اخلاقیات کا مظاہرہ کریں گے اور انسانی جان کی حرمت کا خیال رکھیں گے۔ 17ویں صدی میں پہلی مرتبہ بقراط کے حلف نامے کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور ستمبر1948ءمیں ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن کے اجلاسِ عام، منعقدہ جنیوا، سوئزر لینڈ میں بقراط کے تاریخی حلف نامے کو دنیا بھر کے طبیبوں کے لیے ’’اقرار نامہ جنیوا‘‘ کی حیثیت سے منظور کیا گیا۔
جس میں اس کے حلف نامے کی روشنی میں مریضوں کے تحفّظ اور حرمت کی ہدایات کی تجدیدِ نو کی گئی۔ نیز، بقراط کے حکیمانہ اقوال کے مطابق لوگوں نے درندوں کی طرح پیٹ بھر بھر کر کھانے کی وجہ سے خود کو بیمار کر ڈالا اور جب ہم نے اُن کا علاج کیا، تو چڑیوں کی طرح تھوڑی تھوڑی غذا دی اور انہیں تن درست ہوتے دیکھا۔ اُس کے ایک قول کے مطابق کھانے کا مقصد زندگی قائم رکھنا ہے، نہ کہ زندگی کھانے کے لیے ہے، اور مرض کا علاج آس پاس پائی جانے والی جڑی بوٹیوں ہی سے کرنا چاہیے۔
اس وقت دنیا کے تقریباً26ممالک میں یونانی طریقۂ علاج رائج ہے۔ جس میں طبِ یونانی، آیورویدک، چینی طریقۂ علاج، قدرتی علاج اور متبادل طریقۂ علاج شامل ہیں۔ جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں شہریوں کی صحت کی دیکھ بھال یقینی بنانے کے لیے2003ء سے مختلف مشرقی طریقۂ علاج آیورویدک، یوگا، قدرتی علاج، یونانی، سدھا اور ہومیو پیتھی پر مشتمل آیوش(Ayush) کے نام سے ایک ملک گیرموثرنظام قائم ہے۔