• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر باغ میں پھول اور کانٹے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں باغ عدن سے آدمی کا سفر گلشن عدم کو ہوا۔ آدمی کے راستے میں کبھی پھول اور کبھی کانٹے آتے رہے ۔ تقدیر کا یہ الٹ پھیر کبھی اسے راحت دیتا رہا اور کبھی تکلیف کا باعث بنتا رہا۔ کبھی اس کے نصیب میں جنگی اور جنگلی کانٹے آئے تو کبھی اس کا مقدر امن کے پھولوں سے بھرتا رہا۔ کبھی جنگ تباہی لاتی رہی اور کانٹے اس کی زندگی کا سفر کھوٹا کرتے رہے۔ قرآن پاک کی سورۃ قریش میں ارشاد ہے’’جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور جس نے خوف سے امن دیا‘‘۔ اس آیت پاک کی روشنی میں امن کسی بھی معاشرے کے لئے اللہ پاک کا خاص انعام ہے۔

افسوس یہ ہے کہ اس خطے کے لوگ امن کے خدائی انعام سے بار بار محروم ہوئے ہیں آج کل پھر سے بھارت کے عزائم جنگ چھیڑنے کے ہیں ہم کمزور معیشت کے باوجود پچھلے 75 سال میں 6 بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں ان میں سے چار پاک بھارت چھوٹی بڑی جنگیں تھیں اور دو بین الاقوامی افغان جنگیں تھیں۔ دنیا کی حالیہ تاریخ میں ہمارا ملک شاید وہ واحد ہے جس نے 70 سال میں چھ جنگیں لڑیں ہیں اور ابھی بھی مفلوک الحال نہیں، اسی طرح مائع لگے کپڑے پہنے لوگ ریستورانوں پر مزیدار کھانے کھا رہے ہیں حالانکہ دنیا کے کسی ملک کو جنگ چھو بھی جائے تو اس ریاست اور اس کے باشندوں کی کمریں سالوں تک سیدھی نہیں ہوتیں، ہم شایدلوہےکے بنے ہیں کہ اوپرتلے کی جنگوں کے باوجود نہ صرف زندہ ہیں بلکہ پژمردہ یا مضمحل نہیں بلکہ عام دنیا کی طرح رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

کہانی کا آغاز 1947ء میں ہوا دو نئے پھول دنیا کے باغ میں وجود میں آئےایک کنول کا مذہبی پھول اور دوسرا معطر چنبیلی کا سفید پھول۔ کنول کا پھول بڑا تھا ، اس کی ذمہ داری بھی بڑی تھی مگر کنول کے بھارتی پھول نے کبھی کیکر کے کانٹے بوئے اور کبھی صاف پانی کو گدلا کیا، ہر ہمسایہ پھول میں عدم تحفظ پیدا کیا۔ پاک چنبیلی کو کِھلنے کے فوراً بعد ہی اپنے بچاؤ کا اور زندہ رہنے کا مسئلہ پیدا کردیاگیا۔ بھارتی سفید اور پیازی پھول نے 75سال سے بڑا ہونے کے باوجود بڑا پن نہیں دکھایا اسے دلچسپی ہے کہ یاتو چنبیلی مرجھا جائے اور سوکھ کر تہہ خاک چلی جائے یا وہ اپنی سوچوں سے اسلامی نظریاتی اور ذاتی انا کی خوشبو ختم کرکے زرد کنول کے پھولوں کے جھنڈ میں پناہ لے یا چنبیلی کی پاک اور مذہبی خوشبو پیلے اور گدلے پانی کے کنول کے بے خوشبو نظریہ کے سامنے جھکا دے۔

پھول اور کانٹے کی کہانی بہت سادہ ہے کہ کنول کا پھول چنبیلی کیلئے خطرہ تھا ، ہے اور شاید رہے گا۔ اول تو کنول کےپھول کا اندازسوقیانہ، غلط، حاکمانہ اور علاقےکے پولیس مین والا ہے۔ دوسری پاک چنبیلی بھی اپنے آغاز سے ہی اپنے حجم سے بہت بڑے اسلامی اور بین الاقوامی عزائم کی حامل ہے اگر کنول کا پھول خطے کا واحد چیمپئن بننا چاہتا ہے تو چنبیلی کمزور ہونے کے باوجود کنول کی پتیوں کو لہولہان کرکے اسے امن سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ چار ظاہری جنگوں کے علاوہ کنول اور چنبیلی کے پھولوں میں ہر وقت ایک خفیہ سفارتی، معاشی اور معاشرتی جنگ جاری رہتی ہے۔ دہلی اور پنڈی دونوں جگہ ایک دوسرے کی تباہی اور ایک دوسرے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی منصوبہ بندی جاری رہتی ہے۔ کنول نے بلوچستان اور طالبان کے وحشی کانٹوں کو پیسے اور اسلحے سے زہر آلود بنا دیا ہے، چنبیلی بھی اپنی بساط میں جواب دینے سےباز نہیں آتی اور یوں دنیا کےاس کونے میں ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ ایٹم بموں سے لیس دنیا کے باغ کے یہ پھول نہ صرف ایک دوسرے کو تباہ کردیں گے بلکہ باغ میں نہ کوئی سبزہ بچے گا نہ پھول اور نہ درخت۔ کنول اور چنبیلی کی رقابت جعفر ایکسپریس کے سانحے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ پہلگام واقعے کو بھارتی شرارتوں اور اس کے ردعمل سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔

امریکی عودالصلیب پھول (PEANY)اور چینی پیازی آلو بخارے کا پھول (PLUM) کی معاشی لڑائی زوروں پر ہے ہمارا عود سے تجارتی رشتہ چینی آلو بخارے کی نسبت گہرا ہے مگر چین کے آلو بخارے سے ہمارا اسٹرٹیجک رشتہ امریکی عود سے کہیں زیادہ مضبوط ہے ۔ دوسری کنول اور چنبیلی کی جنگ جیسی صورتحال دنیا بھر کے لئے پریشان کن ہے۔

گدلے پانی کے بھارتی کنول کا اگر یہ خیال ہے کہ چنبیلی کوتنہا کرکے یا دبا کر وہ معاشی ترقی کر لے گا تو خیال خام ہے اسی طرح اگر چنبیلی کا اس وقت فوکس معاشی بہتری ہے تو پھر اسے جنگوں سے بچ کر رہنا ہے ۔ اکثر ماہرین معیشت سمجھتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ سے پہلے چنبیلی معاشی طور پر بھارتی کنول سے بہت مضبوط تھی مگر جنگ نے پاکستانی چنبیلی کی تیز خوشبو پر شدید اثر ڈالا اگر ہمارے عزائم جی10 اور جی 20 میں جانے کے ہیں تو پھر وہ لڑائی سے نہیں امن سے پورے ہوںگے بھارتی کنول کی مذموم خواہش یہی ہوگی کہ چنبیلی ملکی معیشت کو اس سے آگے نہ لے جائے اور یوں پہلے سے مضبوط تر نہ ہو جائے۔

کنول اور چنبیلی میں سے یہ گھاس پھوس تو چنبیلی کے ساتھ ہے کہ میرا سانس اسی خوشبو سے چلتا ہے مگر اپنے کمترین علم کی بنیاد پر نتیجہ یہ نکالتا ہوں کہ آج کی دنیا میں کوئی ملک اکیلا امیر اور خوشحال نہیں ہوتا بلکہ ملکوں کا ایک پورا جتھا ایک علاقائی تعاون کے ذریعے ان سب ملکوں کو امیر، مضبوط اور خوشحال کرتا ہے۔ یورپی یونین، آسیان اور اس طرح کے کئی علاقائی تجارتی اتحاد ملکوں کو مضبوط اور خوشحال بناتےہیں۔ مودی آج کے خوشنما باغ میں ایک کانٹا ہے جو اس علاقے کی راہداریوں میں کانٹے اور چاقو، خنجر، تلواریں بچھائے بیٹھا ہے اگر اس خطے میں صرف دلی سے لے کر واہگہ اور خیبر سے لیکر براستہ افغانستان راہداریاں کھل جائیں، کنول گندے پانی اور گہری سازشوں سے نکل آئے تو یہ خطہ آج بھی لہلہاسکتا ہے کنول اور چنبیلی سمیت سب پھول اور توانا ہو سکتے ہیں، کانٹے کیکر کے ہوں یا مودی کی ذہنی سوچ کے وہ دفن کئے بغیر یہ خطہ ترقی نہیں کرسکتا۔ چنبیلی کو کارنر کیا گیا تو وہ لڑے گی مگر اے کاش ہم اس باغِ دنیا کو جنت صورت بنا سکیں۔ پھول مسلے نہ جائیں بلکہ مہکائے جائیں۔

تازہ ترین