• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی اپنی مکارانہ چالوں کے باعث اپنے ہی لوگوں کو مرواتا ہے اور پھر لاشوں پر سیاست چمکاتا ہے، پورے ہندوستان میں یہ سوال بڑی شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جب بھی بھارت میں کوئی الیکشن قریب آتا ہے تو بی جے پی سرکار کوئی نہ کوئی فالس فلیگ "کارنامہ" انجام دیتی ہے، کبھی پلوامہ تو کبھی کچھ۔ گزشتہ روز ایک انڈین خاتون کم از کم چھ سات حملے ایسے گنوا رہی تھی، جو بی جے پی سرکار میں ہوئے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا گیا، اب پہلگام میں ایک واقعہ ہوا ہے، اس واقعہ نے بھارتی سیکورٹی فورسز کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے، بھارت کے اندر سے لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ 9 لاکھ فوج کی موجودگی میں ایسا کیسے ہو گیا کہ چار دہشتگرد آئے اور اتنا بڑا واقعہ کر کے واپس پاکستان کی طرف چلے گئے۔ دوسرا سوال بڑا اہم کیا جا رہا ہے کہ کیا وہ دہشتگرد اتنے طاقتور تھے کہ وہ آئے اور واپس بھی چلے گئے۔ تیسرا سوال اور بھی اہم ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے کیا کر رہے تھے؟ انہیں اس واقعہ کا پتہ کیوں نہ چل سکا؟ چوتھا سوال دنیا کے سامنے بڑا اہم ہے کہ بغیر تحقیق کے کس طرح بھارت نے پاکستان پر الزام لگا دیا اور ساتھ ہی سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا، واہگہ بارڈر بھی بند ہو گیا، سفارتی عملے کے تیس اراکین کو نکلنے کا بھی کہہ دیا گیا۔ یہ ساری من گھڑت کہانی کا مقصد بہار کا الیکشن ہے، بہار بہت بڑی ریاست ہے، بہار ہی سے تعلق رکھنے والے لالو پرشاد یادیو بڑے مشہور ہوئے تھے، بی جے پی کو بہار میں شکست نظر آ رہی ہے، اس لئے انہوں نے پہلگام ڈرامہ کیا اور سخت فیصلے کرکے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، بی جے پی کا یہ ڈرامہ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ عام بھارتی شہری یہ سوال کرتے ہیں کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد مودی بہار میں ہونے والی الیکشن ریلی میں کیوں چلے گئے؟ انہوں نے سارا جنگی ماحول الیکشن کی جیت کے لئے بنایا ہے۔ اگر پہلگام سے بی جے پی کی مقبولیت نہ بڑھی تو اسی طرح کا کوئی اور واقعہ ڈاچی گام، کپواڑہ، بارہ مولہ یا سری نگر کے لال چوک میں کروایا جا سکتا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سکھوں کی ہمدردیوں کا رخ موڑنے کے لئے بھارتی حکومت کوئی واقعہ مشرقی پنجاب میں کروا دے، اس سب کے باوجود قرین قیاس یہ ہے کہ بھارت حملے میں پہل ضرور کرے گا، جب سے پاکستانی فضائی حدود بند ہوئی ہیں، بھارتی ائر لائنز کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ نقصان ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں میں ہے۔جن ملکوں میں بڑی اسلحہ ساز فیکٹریاں ہیں، وہ اس جنگی ماحول پر خوش ہیں کیونکہ انہیں امید ہے کہ ان کا اسلحہ بہت بکے گا، اسلحہ بیچنے والے ان ملکوں نے جنگوں سے کمایا ہے، ان جنگوں کا ایندھن ملکوں کی معیشت کے ساتھ ساتھ غریب عوام بنتے ہیں کیونکہ لڑنے والے سپاہی غریب گھرانوں سے آتے ہیں اور لڑتے صرف سپاہی ہیں، کمزور معیشت کا خمیازہ بھی غریب لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے، اسلحہ بیچنے والوں کی چکا چوند ترقی کا انحصار غریبوں کے خون پر ہے، یہ لوگ غریبوں کی لاشوں پر زندگی کے باغ اگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں ایران اور چین کا کردار منفرد نظر آیا، ایران نے دونوں ملکوں میں ثالثی کی پیشکش کی ہے جبکہ چین نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے۔ چینی وقتی نہیں، طویل مدتی پالیسیاں بناتے ہیں۔ چین کی سرحدیں 13 ملکوں سے ملتی ہیں، پاکستان سے چین کا کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا، باقی 12 ملکوں کے ساتھ چین کا کوئی نہ کوئی تنازعہ ضرور رہا ہے۔حال ہی میں وفات پانے والے پوپ فرانسس صرف سو ڈالر چھوڑ کر اس دنیا سے گئے، ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا، کوئی گھر بھی نہیں حالانکہ وہ کیتھولک چرچ کے سربراہ تھے، کرسچن مذہب کے رہبر ہونے کے ناطے وہ بہت طاقتور تھے، ان کی پوزیشن ایسی تھی جو انہیں ہر سال 34 لاکھ یورو دے سکتی تھی لیکن انہوں نے یہ رقم لینے سے انکار کر دیا تھا، پوپ نے ویٹیکن کے پر تعیش اپارٹمنٹ میں رہنے کی بجائے کاسا سانتا مارٹا میں رہنا پسند کیا، جو ایک سادہ اور معمولی سی رہائشگاہ تھی، کوئی بڑی بلڈنگ نہیں تھی، پوپ کا کوئی ذاتی نوکر نہیں تھا، ایک بستر اور بس ایک میز، چند چیزیں… اس نے تو روایتی سرخ لوفرز کی بجائے اپنے پرانے سیاہ جوتے پہنے، چھوٹی فورڈ فوکس میں سفر کیا، سادہ لباس پہنا، ویٹیکن ملازمین کیساتھ کھانا کھاتے تھے۔ اس کے برعکس جب ہم اپنے حالات دیکھتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے، اقبال نے کہا تھا کہ

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

شہری ہو، دیہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ

مانندِ بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن

نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا

ہر خرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن

میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!

تازہ ترین