پاکستان کے سیاسی اور معاشی افق پر 23-2022کا سال شدید افراتفری میں گزرا تھا۔اقتصادی ماہرین نےاسے گزشتہ 20سال کے تناظر میں ڈرپ اکانومی کا نام دیا جس کے سب سے زیادہ اثرات ریکارڈ مہنگائی کی شکل میں سامنے آئے۔موجودہ حکومت کو شدید معاشی بحران ورثے میں ملا۔عالمی اور مقامی قرضوں میں اضافہ،ترقیاتی منصوبوں کے بڑھتے ہوئے تخمینے،واجبات کا ختم ہونے کے بجائے ری شیڈول ہونا سمیت کئی طرح کے اقتصادی چیلنجز اب بھی درپیش ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کے وژن اور اور مؤثر اقدامات کی بدولت معاشی بحالی کے ضمن میں خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں اور مہنگائی میں بتدریج کمی ایک خوش کن پیش رفت ہے جو 60سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔تاریخی طور پر پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح 1957سے 2025تک 8اعشاریہ 40فیصد رہی جس کی بلند ترین سطح 37اعشاریہ 97فیصد مئی 2023میں ریکارڈ کی گئی جبکہ کم ترین سطح 10اعشاریہ 32فیصد فروری 1959میں دیکھی گئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 9ماہ سے مہنگائی کی شرح مسلسل سنگل ڈیجیٹ میں برقرار ہے اور یہ گزشتہ ماہ اپریل میں کم ہو کر صفر اعشاریہ 28فیصد پر آ گئی جو مارچ میں 0.7فیصد تھی۔معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کے نرخ میں 7روپے 41پیسے فی یونٹ کمی سے آئندہ مہینوں میں مہنگائی مزید منفی میں جا سکتی ہے۔گزشتہ ماہ پیاز،انڈے،ٹماٹر،چکن اور آٹا سستا،گوشت اور مصالحے مہنگے ہوئے۔تازہ ترین اعداد و شمار میں ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی میں 0.15فیصد اضافہ ہوا ہے۔ماہرین نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ کہ اب جبکہ مہنگائی 60سال کی کم ترین سطح پر ہے،پالیسی ریٹ کو بھی سنگل ڈیجیٹ تک لانا چاہیے۔ان کے مطابق بنیادی مہنگائی کور انفلیشن پالیسی ریٹ کے تعین کا کلیدی اشاریہ ہے اور موجودہ حالات میں اس میں خاطر خواہ کمی کی گنجائش موجود ہے۔