• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

مجھے بچپن ہی سے موسیقی سے بہت شغف تھا، اس موسیقی کا ’’سلسلۂ نسب‘‘ استاد چاہت فتح علی خان سے جا ملتا تھا۔ وہ یوں کہ جس پرات میں آٹا گوندھا جاتا تھا وہ جب میرے ہاتھ لگتی تو میں اسے ڈھول کا نعم البدل سمجھ کر بجانے لگتا، اس کے ساتھ میں کوئی گانا بھی گاتا۔ میری شروع سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ میرے ٹیلنٹ کو کبھی تسلیم نہیں کیاگیا بلکہ الٹا اسے جگتوں کی زد میں لیا جاتا رہا۔ حالانکہ جب میں نے ماڈل ہائی اسکول ماڈل ٹائون (لاہور) میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا تو اگلے ہی سال مجھے اسکول بینڈ میں شامل کرلیا گیا وہ جو ایک ڈھول ہوتا ہے بہت بڑا، جس کے ساتھ باقی سب آوازیں دب جاتی ہیں، ’’مجھے‘‘ اس کے حوالے کردیا گیا، اس کے بوجھ سے میری کمر دہری ہو جاتی تھی تو کیا ہوا، عاشقی میں ایسے بہت سے مقام آتے ہیں۔

تفنن برطرف مجھے ڈھول کی تھاپ اور اس کے ساتھ رقص بہت اچھا لگتا ہے۔ میں گھر جاتے ہوئے رستے میں ڈھول والوں کو فٹ پاتھ پر بیٹھے گاہکوں کا انتظار کرتے دیکھتا ہوں تو کبھی کبھار ان کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں اور انہیں ڈھول بجانے کا کہتا ہوں، جب ڈھول بجتا ہے تو رقص کی خواہش پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہوں اور جب محسوس کرتا ہوں کہ اپنی اس خواہش پر قابو پانا میرے لئے مشکل ہو رہا ہے اور میں کسی بھی لمحے بیچ میدان کے رقص کناں ہو سکتا ہوں تو میں ان کی مٹھی گرم کرکے اپنی کار میں جا بیٹھتا ہوں اور یوں ’’عزت سادات‘‘ بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔

ایک وقت تھا جب میں ہر جمعرات کو شاہ جمال جایا کرتا تھا، نیچے چرسی بیٹھے سادہ سگریٹ کو بھرے ہوئے سگریٹ میں تبدیل کررہے ہوتے اورمیں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا جاتا، روضے پر حاضری دیتا اور پھر گونگا سائیں کے قریب جا کھڑا ہوتا، وہ سرمستی کے عالم میں ڈھول بجا رہا ہوتا اور اس کے سامنے بہت سے لوگ بے خودی کی حالت میں رقص کناں ہوتے۔ ان میں سے میںایک شخص کو نہیں بھول سکتا، اس کے لمبے لمبے بال تھے بلکہ زلفیں کہنا زیادہ موزوں ہے، وہ جس طرح گھومتا تھااور مسلسل جھومتا تھا یہی لگتا تھا کہ وہ اس وقت ہمارے درمیان نہیں کہیں اور ہے۔ ایک دفعہ میں نے گونگے سائیں کی عشق کی دھنوں پر رقص کی کوشش کی مگر میں نے بہت جلد محسوس کیا کہ صوفیانہ رقص کے لئے دل کی دنیا آلائشوں سے پاک ہونا چاہیے۔ میں کئی مہینے شاہ جمال جاتا رہا۔ پھر ایک دن میںنے دیکھا کہ وہاں گونگے سائیں کی جگہ کوئی اور تھا اور وہ صرف ڈھول بجا رہا تھا، جو کوئی بھی بجا سکتا ہے۔

میں نے آج اپنی ایک ایسی یاد آپ سے شیئر کرنی ہے جو مجھے بہت عزیز ہے۔ ہمارا ایک دوست مظفر بخاری تھا جو ڈیوس روڈ پررہتا تھا اور احمد ندیم قاسمی کی محفلوں میں بھی شرکت کیا کرتا تھا، ایک دفعہ اس نے اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا، میرے علاوہ دس بارہ دوست اور بھی تھے اور کھانے کے علاوہ ایک بہت اسپیشل آئٹم کامیڈین امان اللہ کی پرفارمنس تھی،اس نے دو تین گھنٹے تک ہمیں اپنی جگہ سے ہلنے نہ دیا، وہ ہمیں ہنساتا بھی رہا اور اس دوران کسی ایک جملے سے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کرتا رہا، میں نے گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج چکےتھے، میں نے مظفر سے اجازت چاہی، موٹر سائیکل کو کک ماری اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔

جب میں اسمبلی ہال کے پاس پہنچا، مجھے رات کی تنہائی اور پہنائی میں بہت دور سے آتی ڈھول کی آواز سنائی دی، جوں جوں میں آگے بڑھتاگیا یہ آواز میرے قریب آتی چلی گئی، حتیٰ کہ میں وہاں پہنچ گیا جہاں سے یہ مسحور کن آواز سنائی دے رہی تھی، یہ بلھّے شاہ کے مرشد عنایت شاہ قادری کا مزار تھا اور اس کے باہر تین درویش، درویشی لباس میں ملبوس ایک سرمستی کے عالم میں ڈھول کی تال پر رقص کر رہے تھے، وہاں میرے اور ڈھول والے کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ میں نے موٹر سائیکل کو بریک لگائی اور ان درویشوں کے پاس کھڑا ہوگیا، تھوڑی دیر بعد مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی میرے اندر رقص کر رہا ہے، سڑک پر ٹریفک نام کی کوئی چیز نہیں تھی، اندر عنایت شاہ قادری آرام فرما رہے تھے اور باہر ان کے درویش مسلسل جھوم رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ کوئی میرے کان میں کہہ رہا تھا کہ یہاں تجھے دیکھنے والا کوئی نہیں، چل آج تو بھی اپنے اندر کے درویش کو باہر آنے کی اجازت دے،ہاں اور ناں کی کشمکش رہی، بالآخر ہاں غالب آگئی اور ان تین درویشوں میں ایک چوتھا درویش بھی ان میں شامل ہوگیا، مجھے اس وقت پتہ چلا جب صبح ہو چکی تھی اور سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ میں گھبرا کر درویشوں کے گھیرے سے باہر نکلا، موٹر سائیکل کو کک ماری اور واپس اپنی دنیا میں آگیا۔ مگر شاید واپس نہیں آ سکا تھا کہ اتنے برس گزرنے کے بعد بھی میں اس کے سحر میں مبتلا ہوں۔ (جاری ہے )

تازہ ترین