• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماں اور ممتا ... بے مثل، لاثانی رشتہ، معتبر و مستند حوالہ

’’میری مما دُنیا کی بیسٹ مما ہیں۔‘‘’’میری ممی میرا بہت خیال رکھتی ہیں، وہ سب سے اچّھی ہیں۔‘‘ ’’میری امّی سے زیادہ اچّھی اور مہربان تو کسی کی بھی امّی نہیں ہوں گی۔‘‘ ’’میری مما بہت خُوب صُورت اور اسمارٹ ہیں…‘‘ مِس صدف تمام طالبات کے مضامین پڑھ رہی تھیں، جو آج انہوں نےماؤں کے عالمی دِن کے موقعے پر خصوصی طور پر لکھوائے تھے کہ ہر بچّی اپنی ماں سے متعلق اپنے جذبات و احساسات کا اظہار تحریر کی شکل میں کرے۔

ہر بچّی کی تحریر محبّت و عقیدت میں گُندھی ہوئی تھی اور ہر ایک ہی نے اپنی ماں کی عظمت کےبیان کےلیے حسبِ استطاعت بہترین الفاظ اور جملوں کا انتخاب کیا تھا۔ بعض مضامین تو جذبات سے اس قدر معمور تھے کہ پڑھ کر اُن کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی، جسےاُنھوں نے اپنے دوپٹے کے کنارے سے خُشک کیا اور تمام پیپرز فائل میں رکھ کر اسٹاف رُوم سے باہر آگئیں۔

اگلا پیریڈ شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ وہ راہ داری میں چلی آئیں، جہاں بریک ٹائم چل رہا تھا۔ کچھ طالبات گراؤنڈ میں کھیل رہی تھیں، کچھ خوش گپّیوں میں مشغول تھیں اور کچھ زوروشورسےکسی بات پربحث مباحثہ کر رہی تھی۔ بھولے بھالے چہرے، پوتّرخیالات و احساسات، تصنّع سے پاک باتیں اور معصومانہ خواہشات… وہ اپنے سامنے موجود گیارہ سے چودہ سال کی بچّیوں کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں اور دل ہی دل میں سوچ رہی تھیں کہ یہ طالبات عُمر کے مدارج دبے پاؤں طے کر رہی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دوشیزگی کا رُوپ دھارلیں گی۔ نکھری نکھری یہ پُھول سی بچّیاں، جو ابھی زمانے کے سرد و گرم سے ناآشنا ہیں، چند برس بعد والدین کی دہلیز سے ایک نئے گھر میں بےشماراُمیدوں، آرزوؤں کے ساتھ قدم رکھیں گی اوراُس کے بعد ماں کا عظیم الشّان رُتبہ پائیں گی۔

ماں … دُنیا کا سب سے پیارا، خالص اور سچّا رشتہ۔ ایسا اَن مول رشتہ کہ خالقِ کائنات نے اپنی بے پایاں محبّت کے لیے اس کی مثال دی۔ ایک معصوم، بھولی بھالی،شوخ وشنگ، پاکیزہ، بےریا سی لڑکی ماں کے منصب پر فائز ہوتے ہی کس قدر سنجیدہ اور معاملہ فہم ہوجاتی ہے۔ اُس کی بےفکری اور لا اُبالی پن تو گویا گود میں ایک ننّھے وجود کے آتے ہی ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ گہری اور وقت، بے وقت کی نیند، سہیلیوں سے موبائل فون پر لمبی لمبی باتیں اور ناز نخرے، سب ہی کہیں کونے کھدرے میں منہ چُھپا کردُبک جاتے ہیں۔ رہ جاتا ہے، تو بس ایک واحد احساس، ممتا کا احساس۔

میرا بچّہ، میرے جگرکا ٹکڑا، اُس کی نیند، اُس کی بُھوک کا خیال، اُس کی صفائی سُتھرائی، اُس کی ضروریات اوربس…زندگی اب اُسی سے شروع ہوتی اور اُسی پر ختم۔مامتا کا مقام اور اُس کی شناخت، یہی تو نرم و ملائم، پنکھڑی جیسے نازک، حسّاس جذبات ہیں۔ ماں کے لیے تو پوری کائنات بس اُس کی اولاد ہوتی ہے کہ جیسے کائنات کے سارے رنگ اِک ممتا میں سمٹ گئے ہوں۔ یہی عورت ماں بننے سے قبل چُھوئی مُوئی کی مانند ہوتی ہے اور ماں کے منصب پر فائز ہوتے ہی جیسے پہاڑوں سے ٹکرانے کا حوصلہ اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ ایک کے دِل کی دھڑکن دوسرے کے دِل سے جُڑی ہوتی ہے۔

یہی وہ معتبر ومستند رشتہ ہے، جسےدُنیا کے ہر مذہب اور ہر تہذیب و معاشرت میں اعلیٰ ترین مقام عطا کیا گیا ہے۔ ممتا وہ لاثانی جذبہ ہے کہ جس کی حرارت، ٹھنڈک اور روشنی دیکھ کر شمس وقمر بھی محجوب ہو جائیں اور جس کی نرمی وگرمی سے تارے بھی شرما کر بادلوں کی اوٹ میں چُھپ جائیں۔

ایک گھر میں کئی رشتے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کو تقویّت بھی دیتے ہیں۔ والدین، اولاد، دادا، دادی، بھائی، بہن، چچا، چچی، بھائی، بھابھی وغیرہ۔ الغرض ہر رشتہ ہی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن رشتوں کی اس عمارت کو قائم و دائم رکھنے میں ایک ہستی بنیادی و کلیدی کردار ادا کرتی ہےاور وہ ماں ہےکہ جو حالات کی مناسبت سے موزوں فیصلے کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی، اپنی اولاد کو ایک مضبوط حصار میں لےکر معاشرے میں سَر اُٹھا کےجینے کا ہُنر بھی سکھاتی ہے۔ 

سو، ماؤں کے عالمی یوم پر ہمارا یہ پیغام ہے کہ اگر آپ کے والدین بقیدِ حیات ہیں، تو اُن کی قدر کیجیے، اُنہیں راضی رکھیے اور اُن کی دُعائیں لیجیے، کیوں کہ آپ کے لیے اُن سے بڑا ولی کوئی نہیں۔ وہ آپ کے اور اللہ کے درمیان ایک بہترین رابطہ ہیں۔ اُن کی خدمت، اطاعت وفرماں برداری کیجیے اور اُن کی ناراضی سے بچیے۔ محض ماؤں کے عالمی یوم پرماؤں کو یاد رکھنے کی بجائے ساری زندگی اُن کی خدمت کے لیے وقف کردیں، کیوں کہ ہماری فلاح اُن کی خوشی ہی سے مشروط ہے۔