• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئل کی کُوک کی طرح، بیٹی کی رخصتی پر ہُوک گویا ایک ماں کے دل میں بسی وہ پھانس ہوتی ہے، جو اُسے کسی بےتاب، بِن پنکھ پنچھی کی طرح ہولائے رکھتی ہے۔ کوئل کی کُوک تو رسیلے آموں کی آمد کا اعلان کرتی ہے، جب کہ بیٹی کو پروان چڑھانے کے بعد محض تین بول پڑھوا کر اُس کی زندگی کا انتساب اِک اَن جان فرد کے(جو بیٹی کی نسبت پھر سب ہی کو عزیز ہوجاتا ہے) نام کرکے اُس کی رخصتی پر جو ہُوک اُٹھتی ہے، اُس کا درد عموماً والدین سمیت سب ہی عزیزواقارب کو ہوتا ہے، مگر ماں کے تو کہیں بہت اندر سے وہ ہُوک اُٹھتی ہے اور اندر ہی کہیں دب بھی جاتی ہے کہ اِس ہُوک کے ساتھ بے احتیاطی میں ذرا سی چُوک ہو جائے، تو خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

یہ احتیاط بَھری محبتیں کچھ سال قبل تک زندگی کا تقاضا ہوا کرتی تھیں، پر اب لگتا ہے، جیسے نہ کوئل کی کُوک سے آموں کی آمد مشروط رہی ہے اور نہ ہی بیٹیوں کی رخصتی پرماؤں کے دِلوں ہی سے کوئی ہُوک اُٹھتی ہے۔

ویسے تو یہ باور کروانا کہ ’’تم اکیلے نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ بہت ہی خُوب صُورت احساس ہے اور ہم زندگی کے بہت سے محاذوں پر ایک دوسرے کو یہ احساس دلا رہے ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ احساس تقویت کا باعث بننے کے بجائے شکستگی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ 

اگر کوئی اس حوصلے کو سیڑھی کی طرح استعمال کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرے، توسو فی صد درست، لیکن اگر کسی کو اِس حوصلے نے اتنا آسودہ، مطمئن کردیا کہ اُس سے ہمّت و طاقت کے ساتھ خُود کو منوانے، ثابت کرنے، کہیں رہنے بسنے کی لگن ہی چھین لی، تو یہی حوصلہ زہرِ قاتل کے مثل ہے۔ 

جیسا کہ آج کل کی نوبیاہتاؤں کے ذہن میں آتا ہے کہ ہم پرسسرال کی ذمّے داریاں ڈال کر سخت ظلم کیا گیا ہے۔ امّی کا گھر بھی تو تھا، جہاں ہم شوقیہ جتنا کام کرتے، کرلیتے، باقی اُن پرچھوڑ کر اُٹھ جاتے۔ حالاں کہ ایک وہ وقت بھی تھا، عورت چکّی چلا کرآٹا پیسنے سے لے کے گوندھ کے پکانے تک کےعمل کو روزمرہ معمول سمجھ کر انجام دیتی تھی۔ 

آج مشینی زندگی سے معمولاتِ زندگی تو آسان ہوئے ہیں، لیکن جہاں سب کچھ اِن مشینوں کا مرہونِ منّت ہو کے رہ گیا ہے، وہیں دوطرفہ تعلقات کو بھی مشینی یا دوسرے لفظوں میں مادیت پرستی کے ترازو میں تولا جانے لگا ہے۔ ذرا ایک طرف کا پلڑا ہلکا ہوانہیں، رشتےکی ڈور’’لائی بے قدراں نال یاری، تے ٹٹّ گئی تڑک کرکے‘‘ کے مثل ہوگئی۔ بات شروع ہوئی تھی ہُوک اور کُوک سے اور جا پہنچی ’’ٹوٹ‘‘ پر۔

ماں کی وہ تربیت، جو محبّت کی مٹی سے گندھی، چاہت و الفت کی مہک میں بسی، حیا کے ابرق سے سجی سجائی تھی، آج نہ جانے کہاں جا سوئی ہے۔ ایک ماں، جو اس معاشرے کا وہ کردار ہوا کرتی تھی، جسے سب کچھ بتا دیا جاتا، تو بھی اُس کے پاس صبر کی پَھکّی، شُکر کا چُورن اور محنت کا پھل ہی ہوا کرتا۔ جن سے وہ اپنی بیمار اولاد کا علاج کیا کرتی۔ آج حالات بدل گئے۔ وقت کی چال ڈھال، رفتار بدل گئی، تو ایسے میں لگتا ہے، ماں ہی بدل گئی۔ اور ماں بدلی، تو بیٹی بھی بدل گئی۔ 

ماضی کے اوراق بوسیدہ، جذبات و احساسات غیر سنجیدہ ہوئے۔ گھر بنانے، سنوارنے کی تصوّر میں مادیت پرستی کا عمل دخل بڑھ گیا۔ بیٹیوں کی رخصتی پر صندوقوں میں بھر کر دیے جانے والے کپڑے، بستر، جو گھر بھر کے لیے ہوا کرتے تھے، اب اُن پر پرائیویسی کا ٹیگ لگا دیا گیا ہے، بلکہ پییٹیوں، صندوقوں کا تو وجود ہی ناپید ہوا چاہتا ہے۔ وہ ماں، جو بچّوں کے لنچ باکسز تیار کرتے، اضافی پراٹھے رکھ دیا کرتی کہ دوست بھی کھا لیں گے۔ 

اب اپنے بچّے کو لنچ ذرا ہٹ کے کرنے کا مشورہ دیتی ہے، کیوں کہ اب پراٹھوں کی جگہ فروزن نگٹس، کباب، پزا، شوارمے نے جو لے لی ہے۔ وہ ماں، جو بیٹی کو جہیز میں برتن بھانڈے، بستر، لحاف زیادہ تعداد میں اِس لیے دیا کرتی کہ سسرال میں آتے جاتے مہمانوں کے کام آئیں گے، اب پہلے سے یہ طے کرواتی ہے کہ بیٹی بَھرے پُرے سسرال میں نہیں رہے گی۔ 

نہ جانے وہ ماں کہاں گئی، جو بیٹی کو ہمیشہ سسرال کا مان رکھنے کا درس دیا کرتی تھی، جس کی اولین ترجیح بیٹی کو اِک نئے گھر، ماحول میں ایڈجسٹ کرنا، اُسے ہنستا بستا دیکھنا ہوتی تھی۔ بات یہ ہے کہ آج سے دو تین عشرے قبل کی ماں کا ایک ایک پَل اپنے بچّوں کےلیے وقف ہوا کرتا تھا۔ شب و روز کے تسلسل میں زندگی کی دوڑ بہت تیز تھی، نہ ہی ممتا موبائل فونز کی بھینٹ چڑھی تھی۔ 

مجموعی طور پر افراد کا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کی سنگت میں گزرتا۔ آج کی طرح نہیں کہ کھانے کی میز پر بیٹھے دو افراد بھی، ہاتھوں میں پکڑے موبائل فونز میں گم ہیں۔ اب تو دلہنیا، پیا گھر پہنچنے تک کے اِک اِک لمحے میں ’’مما‘‘ کو لائیو کال پرساتھ رکھتی ہے۔ سسرال میں پہلے دن کا آغاز مما سے اِملا لے کر کرتی ہے اور پھر ہر نئے دن کا ایک نیا سبق، اُسے ’’مشن امپاسیبل‘‘ کو پاسیبل بنانےکے قریب ترین لے جاتا ہے۔

اِس سارے منظرنامے میں بھی اہم ترین کردار ایک ماں ہی کا نظر آتا ہے۔ مطلب ماں اور ممتا تو آج بھی ہے، بس فرق صرف اتنا ہےکہ ماحول، تعلیم و تربیت کے انداز میں واضح تبدیلی آگئی ہے۔ ہماری روایتی دیسی ماں بھی بہت حد تک غیر روایتی، بدیسی ہوگئی ہے اور اِس میں ایک بہت بڑا کردار ’’میڈیا‘‘ کا ہے۔ دنیا کی دیگر تمام مخلوقات میں ماں اور ممتا کا تصور آج بھی صدیوں پہلے جیسا ہی ہے، کیوں کہ وہ انسانوں کی طرح ذرائع ابلاغ سے مستفید نہیں ہوتیں۔ کسی بھی جانور پر نگاہ ڈال لیں، آپ کو کسی ایک کی بھی صدیوں پرانی فطرت و جبلّت میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئے گی۔ 

گئے وقتوں میں، بڑوں کی موجودگی میں سَروں پر دوپٹا نہ اوڑھنے پر بُرا منانے والی، کسی کو سلیولیس، بیک لیس پہنے دیکھ کر سخت خفا ہونے والی، کنواری لڑکیوں کے منہ سے شادی کی بات سُن کر ڈانٹ ڈپٹ کرنے والی اور کسی کی طلاق، خلع کی خبر پر سخت کفِ افسوس ملنے والی نسل کو بھلا کیا خبر تھی کہ ہم جس نسل کے والدین بنیں گے، اُن کے لیے یہ سب بہت ’’نارمل‘‘ ہوگا۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ’’سب چلتا ہے‘‘ سے شروع ہونے والا یہ سفر آج ’’یہ تو نارمل بات ہے‘‘ تک آپہنچا ہے۔ لیکن اگر ہم وقت کا پہیا پیچھے کی طرف گھمانا چاہتے ہیں۔ سب کچھ پہلے جیسا نہ سہی، کسی حد تک بہتر دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے والدین، خصوصاً ’’ماں‘‘ کی تربیت کرنی ہوگی۔

تب ہی تنزلی کی رفتار روکی، معاشرتی زوال کو لگام ڈالی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیں، ایک ماں اعلیٰ اوصاف کی حامل، تعلیم و تربیت یافتہ ہوگی، تو ہی مستقبل کے باپ بھی اچھے ہوں گے۔ سو، پدرسری، مادرسری کے جھگڑے چھوڑ، خودسری سے بچنے کی کوشش کریں کہ درحقیقت تو خُود سری ہی اِس معاشرے کو گُھن کی طرح کھا رہی ہے۔

بلاشبہ، گھر، گھروندے بنانا انسان کی فطرت ہے، اور ان گھروندوں کا اصل پنچھی ’’ماں‘‘ ہی ہے، جس کی کُوک یا ہُوک ہی سے گھروندے کی دنیا آباد ہے۔ تو آج کے دن اتنا ہی کہنا ہے، دنیا کے گھروندے میں بسے سب پنچھیوں کی خیر، ماؤں کی کُوکتی ہُوکوں کی خیر کہ اُن کی کُوک کی مٹھاس، ہُوک کا درد ہی نسلوں کی آب یاری کرتا ہے۔ اور آج ایک بار پھر اُسی مٹھاس اور درد کو جگانے کی اشد ضرورت ہے۔