• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا کی تاریخ میں کچھ ایّام ایسے ہوتے ہیں کہ جو محض کیلنڈر کی تاریخ نہیں ہوتے، بلکہ اپنے کاندھوں پر تہذیبی، نظریاتی اور فلسفیانہ معنی کا بوجھ لیے ہوتے ہیں۔ ’’یکم مئی‘‘ بھی انہی دِنوں میں سے ایک ہے۔ بظاہر تو یہ ایک دن ہے، مگر اِس ایک دن میں دو مختلف دُنیائیں، دو متضاد فلسفے اور دو متقابل روایات ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتی ہیں۔ 

ایک طرف ’’یومِ مئی‘‘ ہے، جو بعض ممالک میں ’’مزدوروں کے عالمی دن‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے اور دوسری طرف ’’یکم مئی‘‘ ہے، جو یورپ میں صدیوں تک ’’یومِ بہار‘‘ یا ’’مے ڈے‘‘کے طور پر منایا جاتا رہا۔ اِن دونوں مظاہر کو ایک ہی عینک سے دیکھنا تاریخ سے ناانصافی اور شعور سے فرار کے مترادف ہوگا۔

یکم مئی کا دن یورپ کی قدیم دیومالائی اور زرعی روایات میں موسمِ بہار کی آمد کا دن رہا ہے۔ اس دن کو’’مے ڈے‘‘ کے نام سے منایا جاتا تھا، جس کی جڑیں یورپ کی قدیم بُت پرست تہذیبوں میں پیوست ہیں اور ان تہذیبوں کے باشندے اُس روز درختوں، پُھولوں اور دیوی، دیوتاؤں کو خراج پیش کرتے تھے۔ خاص طور پر’’فلورا‘‘، جو پُھولوں اور بہار کی دیوی سمجھی جاتی تھی، اس دِن کا مرکزی کردار ہوتی۔ 

دیہی معاشروں میں یہ دِن زمین کی زرخیزی اور نئی فصلوں کی امید کا استعارہ تھا۔ تاہم، یہ سب کچھ ایک بُت پرستانہ اور غیرالہامی روایت کے تحت ہوتا رہا، جس میں فطرت کی پرستش بنیادی عُنصرتھی، جب کہ اس تہوار کے برخلاف ’’یومِ مئی‘‘ کو مزدوروں کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ عالمی اشتراکی تنظیم نے 1889ء میں پیرس میں منعقدہ اپنے اجلاس میں کیا تھا اور اِس کا مقصد یہ تھا کہ دُنیا بَھر کے مزدور اس دن یک جہتی کا مظاہرہ کریں، اپنے حقوق کی بازیافت کے لیے آواز بلند کریں، سرمایہ دارانہ اقتدار کے خلاف اجتماعی جدوجہد کریں اور اہلِ اقتدار کو تختِ حکومت سے گرا دیں۔ انہوں نے 1886ء میں شکاگو میں ہونے والے قتلِ عام سے اس دن کوجوڑدیا۔ اُس روز مزدور اپنے مطالبات کےحق میں مظاہرہ کررہے تھے اور اس مظاہرے کے پیچھے بھی اصل طاقت اشتراکیوں ہی کی تھی۔

اشتراکیوں کا طریقۂ واردات ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ مزدوروں کے مظاہروں کو پُرتشدّد بنانے اور اُنہیں حکومتِ وقت سے متصادم کرنے اور ان کے دِلوں میں غم و غُصّے کی آگ بھڑکانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، تاکہ مزدوروں کو حُکم رانوں کا تختہ اُلٹنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کیا جاسکے۔شکاگو کے مذکورہ مظاہرے میں بھی یہی ہوا تھا۔ مظاہرین میں سے کسی نامعلوم شخص نے پولیس پربم پھینکا، جس پر پولیس نے گولیاں برسا دیں۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ ہم کن نظریات اور کن تہذیبی روایات کی نمائندگی کرتے ہیں؟ یکم مئی کو اگر ہم محض ایک روایت، ایک رخصت یا ایک تعطیل سمجھ کر گزارتے ہیں، تو ہم نہ صرف تاریخ کے ساتھ بلکہ اپنے شعور کے ساتھ بھی ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

سوشلسٹ انٹرنیشنل نے خُود یہ اعلان کیا تھا کہ جب مزدور ریاست قائم ہوجائے گی، تو یکم مئی کو پھر سے ’’یومِ بہار‘‘ کے طور پر منایا جائے گا۔ یہ اعلان خود اس اَمر کی غمّازی کرتا ہے کہ یکم مئی کی دو تہیں ہیں۔ ایک انقلابی اور دوسری دیومالائی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سعودی عرب جیسے ممالک میں بھی یکم مئی کو تعطیل نہیں ہوتی۔ 

یہ ممالک یکم مئی کو ’’مزدوروں کے دن‘‘ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔ لہٰذا، ہمیں خُود سے یہ سوال کرنا چاہیےکہ اگر ہم یکم مئی کوعام تعطیل کے طور پر مناتے ہیں، تو کیا ہم اشتراکی جدوجہد کے انقلابی وَرثے کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں یا ایک قدیم بُت پرستانہ تہوار کو نادانستہ طور پر زندہ کر رہے ہیں؟ کیا ہماری تعطیل شعوری ہے یا غیر شعوری؟ کیا ہم اس دن کی اصل رُوح جانتے ہیں یا محض ایک عالمی فیشن کی پیروی کررہے ہیں؟

یاد رہے، اگر انسانی تاریخ میں’’محنت و مشقّت‘‘ کوکوئی اعلیٰ ترین اخلاقی وروحانی مقام حاصل ہوا ہے، تو وہ اسلامی تہذیب کی بدولت ممکن ہوا۔ اسلام نے مزدوری کو محض معاشی عمل نہیں سمجھا بلکہ اِسے ایک دینی، اخلاقی اور تمدّنی قدرمیں ڈھال دیا۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ’’محنت‘‘ کو عزّت و شرف کا درجہ دیا گیا اور یہ شعور کسی فلسفۂ مادیّت پر مبنی انقلابی تحریک کا نتیجہ نہیں، بلکہ رسالتِ محمدی ﷺ کے سچّے اور عملی نمونے سے ماخوذ ہے۔ 

رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں محنت، مساوات اور اخلاص کا ایسا ہمہ گیر مظہر ہمیں غزوۂ خندق کے موقعے پر دکھائی دیتا ہے کہ جہاں تاج دارِ مدینہ ﷺ بنفسِ نفیس مزدوروں کی صف میں شامل ہو کر خندق کھودنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

یہ محض ایک عسکری تدبیر نہ تھی بلکہ ایک تہذیبی علامت تھی۔ ایسی علامت کہ جس میں محنت، قیادت، مساوات اور قربانی کا اعلیٰ ترین نمونہ مجتمع ہوگیا۔ پس سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر ہمیں دُنیا کے محنت کشوں سے اظہارِ یک جہتی کرنا ہے، تو کیا اس کے لیے ہم مغرب کی دیومالائی یا اشتراکی روایت کے حامل ’’یومِ مئی‘‘ کے محتاج ہیں؟ کیوں نہ ہم اپنی اسلامی تاریخ میں جھانکیں کہ جہاں’’یومِ خندق‘‘ جیسا دن موجود ہے۔

ایک ایسا دن کہ جو نہ صرف ’’محنت‘‘ کے عمل کو روحانی رِفعت عطا کرتا ہے بلکہ قیادت اور مزدور کو ایک صف میں لا کر انسانی مساوات کا بلند ترین معیار بھی قائم کرتا ہے۔’’یومِ خندق‘‘ کو مزدوروں کے دن کے طور پر اپنانا نہ صرف ہمارے تہذیبی شعور کی بازیافت ہے بلکہ ایک ’’فکری بغاوت‘‘ بھی ہے، جو اغیار کی اندھی تقلید سے انکار کرتے ہوئے اپنی روحانی میراث اپنانے کا عندیہ دیتی ہے۔ 

یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ محنت کشی کی حقیقی رُوح صرف تن خواہوں، مراعات یا اوقاتِ کار کی جنگ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا جامع تصوّر ہے جس میں فرض (یعنی کام کو ذمّے داری سمجھ کر ایمان داری سے انجام دینا)، ایثار (یعنی اپنی ضرورتوں سے زیادہ دوسروں کے مفاد کو ترجیح دینا)، اِخلاص (یعنی محض اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا) اور اجتماعیت (یعنی پورے معاشرے کے ساتھ جُڑ کر مشترکہ فلاح کے لیے کوشش کرنے) کے تصوّرات شامل ہیں۔ 

اسلام نے اِسی حقیقت کو صدیوں قبل اُجاگر کیا تھا کہ محنت، زَراندوزی کا آلہ نہیں، بلکہ رُوح کی پرورش اور تمدّن کی تعمیرکا وہ مقدّس وسیلہ ہے، جو خاکی وجود کو ملکوتی معنی بخشتا ہے۔ لہٰذا، یومِ خندق منانے کا فیصلہ، مغرب کے مادّی لبرل ازم کے مقابلے میں ایک ایسے نکتۂ نظر کی تجدید ہے کہ جو محنت کو مادیّت کے پردے میں چُھپی ہوئی عبادت اور مزدور کو معاشرے کا معمارِ حقیقی قرار دیتا ہے۔