برِصغیرمیں تاریخی، روحانی اور تہذیبی اہمیت کے حامل شہر، اوچ شریف کے مغرب میں تقریباً 17 کلومیٹر کے فاصلے پر ’’پنجند‘‘ کا وہ خُوب صُورت مقام واقع ہے، جہاں پانچ دریا چناب، ستلج، بیاس، جہلم اورراوی مل کر ایک حسین سنگم بناتے ہیں۔
یہاں موجود پنجند بیراج قدرت اور انجینئرنگ کا ایک شاہ کار ہے، جو نہ صرف آبی وسائل کو منظّم کرتا ہے، بلکہ جنوبی پنجاب میں زراعت کے حوالے سے بھی ناقابلِ فراموش کردار ادا کر رہا ہے۔ پنجند کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’مہا بھارت‘‘ میں اس کا ذکر’’پنجا ندا‘‘ (یعنی پانچ ندیوں) کےحوالے سے ملتا ہے، جب کہ پنجاب کی تاریخ کا بھی پنجند سے گہرا تعلق ہے۔
محقّقین کے مطابق مسلمانوں کی آمد سے قبل پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی تک پھیلا ہوا تھا اور اسے ’’سپت سندھو‘‘ یعنی ’’سات دریاؤں کی سرزمین‘‘ کہا جاتا تھا، لیکن جب دریائے سندھ اور اٹک کے علاقے اس سے علیحدہ ہوئے، تو اس کا نام ’’پنج ند‘‘ ہوگیا اور پھر جب کابل کے راستے مسلمان پنجاب میں آئے، تو انہوں نے اس کا نام ’’پنج ند‘‘ کی بجائے ’’پنجاب‘‘ یعنی ’’پانچ دریاؤں کی سرزمین‘‘ رکھ دیا۔
بعد ازاں، یہی نام زبانِ زدِعام ہوگیا۔ پنجند تاریخی اعتبار سے رومانیت کی حامل سرزمین رہی ہے، جسے اردو، پنجابی اور سرائیکی زبان و ادب کے کئی نام وَر شعرا نے موضوعِ سُخن بنایا۔ پانچ دریاؤں کےملاپ کا تصوّر ہی انسانی ذہن کے لیے دِل چسپی کا حامل ہے، شاید اسی لیے مُلک بھر کے دُور دراز علاقوں سے بھی لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس ضمن میں مسعود منوّر کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے کہ ؎ ہے پنجند کی گزرگاہ میرا نصف خیال… مَیں نصف وادیِ گنگ وجمن میں رہتا ہوں۔
’’پنجند‘‘ جن پانچ دریاؤں کے حوالے سے جانا جاتا ہے، اُن میں سے دریائے راوی احمد پورسیال کے قریب دریائے چناب میں شامل ہوتا ہے۔ اِسی طرح دریائے جہلم بھی تریموں (جھنگ) کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔ دریائے بیاس مشرقی پنجاب ہی میں دریائے ستلج میں شامل ہوتا ہے اور یہ دریائے ستلج پاکستان میں آتا ہے۔
سو، دریائے چناب (جس میں راوی اور جہلم کا پانی شامل ہے) اور دریائے ستلج (جس میں دریائے بیاس کا پانی شامل ہے) پنجند کے مقام پر باہم ہو کر ضلع راجن پورمیں مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ 1960ء میں پاکستان اوربھارت کے درمیان ہونے والے ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کے تحت پاکستان نے راوی، بیاس اور ستلج کے پانیوں سے دست برداری اختیار کرلی اور اب دریائے راوی ’’آلودہ نالے‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، جب کہ دریائے ستلج بھی ریگ زار میں تبدیل ہوچُکا ہے۔ واضح رہے کہ دریائے ستلج کا 180میل کنارا ریاست بہاول پُور سے متصل ہے۔
1921ء میں دریائے ستلج کے پانی کو استعمال کرنے کے لیے نواب آف بہاول پُور، نواب سر صادق محمّد خان عبّاسی خامس نے ریاست بیکانیر اور پنجاب کے ساتھ مل کر ’’ستلج ویلی پراجیکٹ‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا، جس کے تحت 31مارچ 1924ء کو پنجند ہیڈورکس کی تعمیر کا آغاز ہوا، جو 1932ء میں ایک کروڑ 92 لاکھ 79 ہزار 93 روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی۔
اس منصوبے کے تحت پنجند بیراج سے دو بڑی نہریں، عباسیہ اور پنجند کینالز اور بعدازاں نیو عباسیہ لنک کینال نکالی گئیں، جوضلع بہاول پُوراور رحیم یارخان سمیت چولستان کے وسیع رقبے کو سیراب کرتی ہیں۔ دسمبر 2014ء میں پنجاب حکومت اور ایشیائی ترقّیاتی بینک کے درمیان ایک طے شُدہ معاہدے کے تحت پنجند بیراج کی بحالی اور اَپ گریڈیشن کے منصوبے کا آغاز ہوا۔اس دوران کچھ عرصے کے لیے پنجند بیراج کو عوام اور گاڑیوں وغیرہ کے لیے بند رکھا گیا، لیکن 2020ء میں یومِ آزادی کے موقعے پر کھول دیا گیا۔
ممتاز محقّق ودانش وَر، حسینی لائبریری اور صادق لائبریری کے بانی و روحِ رواں اور سیکریٹری’’ادارہ تحقیق وتذکرۂ تاریخِ پاکستان‘‘ راناپرویزالحسن صادق کے پاس موجود 1930ء کی دہائی کی تاریخی تصاویر اور آفیشل دستاویزات سے پنجند بیراج کی تعمیر اور اس منصوبے کے دیگر پہلوؤں سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ اُن کی لائبریری میں موجود ایک تصویر ایسی ہے، جس میں زیرِ تعمیر پنجند ہیڈورکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر، ایگزیکیٹیو انجینئر مسٹر جیمز ایل رائے (James L. Roy) کشتی میں نواب آف بہاول پور سرصادق محمد خان عباسی خامس کےساتھ کھڑے ہیں۔
صادق لائبریری میں موجود ہیڈ پنجند آفیشل رپورٹ 1932ء کے مطابق، مسٹر جیمز ایل رائے 5 اکتوبر 1925ء سے یکم اپریل 1932ء تک ہیڈ پنجند پر تعیّنات رہے۔ اس دوران وہ متعدد مرتبہ تعطیلات پرانگلینڈ گئے، تومسٹرلالہ کنور سین 15جون 1928ء سے 15جولائی 1928ء تک، مسٹر جے ایچ فلیچر 10 اپریل 1930ء سے6 نومبر 1930ء تک اور مسٹر آر ایس ڈنکن9 فروری 1931ء سے 26فروری1931ء تک بہ طور قائم مقام پراجیکٹ ڈائریکٹر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ پنجند ہیڈورکس کی افتتاحی تقریب منعقد نہیں ہوئی تھی، لہٰذا اس کے سنگِ بنیاد اور افتتاحی تختیوں کے غائب ہونے کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔
ستم ظریفی کی بات ہے کہ محکمۂ سیاحت کی سرکاری ویب سائٹ پر پنجند جیسے تاریخی اور سیّاحتی لحاظ سے اہمیت کےحامل مقام کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں سیّاحت کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی بنیادی سہولتیں میسّر ہیں، البتہ تعمیر و تاریخ محفوظ رکھنے کے لیے، ساتھ ایک چھوٹا سا میوزیم قائم کیا گیا ہے، جہاں آب پاشی کے مختلف ذرائع اور تاریخ، پنجند ہیڈ ورکس کی تعمیر کے دوران استعمال ہونے والے نایاب آلات، ہیڈ ورکس کی تعمیر کے دوران بنائی گئی یادگار تصاویر اور ہیڈورکس اور اس سے نکالی جانے والی تمام نہروں کا ماڈل موجود ہے۔
یہ میوزیم مخدوش حالت میں ہیڈ ورکس کے کنارے قائم ہے، لیکن یہاں طلبہ اور سیّاحوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہی نہیں، بلکہ دُوردراز سے آنے والے سیّاحوں کی رہنمائی کے لیے کسی گائیڈ کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ انگریز دَور میں تعمیر ہونے والی تاریخی عمارت جوایکسیئنز کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی، اب بُھوت بنگلے میں تبدیل ہوچُکی ہے۔
مبیّنہ طور پر یہاں سے کروڑوں روپے مالیت کا سامان بھی غائب ہوچُکا ہے، جب کہ اس کا اندرونی احاطہ فصل کی کاشت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پانچ دریاؤں کے سنگم پر کھڑے ہو کر بھی سیّاحوں کو اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی کے ہر گھونٹ کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
یہاں مارکیٹ کے نام پر چند مچھلی تلنے کی دُکانیں ہیں، جہاں بجلی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے چند لمحے گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ پنجاب کی زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس مقام پر دہشت گردی یا ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ ہرسال عید کے ایّام اور جشنِ آزادی کے موقعے پر کئی مَن چلے دریا کی بے رحم لہروں کی نذر ہوجاتے ہیں، لیکن تاحال اس کے سدِباب کے لیے بھی سیفٹی اینڈ سیکیوریٹی کا کوئی نظام وضع نہیں کیا جاسکا۔
آج دُنیا بَھر میں سیّاحت، ایک صنعت کا درجہ اختیار کر چُکی ہے۔ کئی ممالک ایسے ہیں کہ جن کی معیشت کا مکمل دارومدار ہی سیّاحت پر ہے۔ ہمارے یہاں بھی قدرتی حُسن، تاریخی اہمیت کے حامل سیکڑوں مقامات موجود ہیں، مگر یہاں زندگی کی بنیادی سہولتوں کی عدم دست یابی نےاُن کا حُسن گہنا دیا ہے۔
کسی بھی مُلک کی تہذیب و ثقافت اور اُس کے تاریخی مقامات اُس کی شناخت ہوتے ہیں، جنہیں آنے والی نسلیں ثقافتی ورثے کے طور پر سنبھال کر ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔ پنجند کے مقام پر مُلک کے پانچ دریاؤں کا باہم مل کر بہنا قوم کو محبّت، اخوّت اور یگانگت کا درس دیتا ہے۔
اس مقام کوحکومتی سرپرستی سے اہم سیّاحتی مقام بنایا جاسکتا ہے، جس سے مقامی ترقّی کے علاوہ کثیر زرمبادلہ کمانے کے مواقع بھی دست یاب ہوں گے۔ نیز، اس کےذریعے ہم دُنیا کے سامنے پاکستان کا ایک روشن چہرہ بھی پیش کر سکتے ہیں۔