یہ اب سے پندرہ ماہ قبل کی بات ہےکہ بھارت میں ہندوتوا مظالم کی رپورٹنگ کرنے والی ڈیٹا ویب سائٹ ’’ہندوتوا واچ‘‘ کو انتخابات سے قبل بلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت سیاسی تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ یہ عمل مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر مکمل کنٹرول کا ایک اور ہتھکنڈا ہے اور انتخابات میں کام یابی کی خواہش مند مودی سرکار میڈیا سنسر شپ کے لیے سرگرم ہے۔
الجزیرہ کا کہنا تھا کہ انتخابات سے دو ماہ قبل بھارت میں میڈیا سنسر شپ کے خدشات بڑھ گئے ہیں، مودی سرکار نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو دستاویزی شکل دینے والی ڈیٹا ویب سائٹ ہندوتوا واچ کا اکاؤنٹ اور ویب سائٹ بلاک کر دی ہے۔
واضح رہے کہ ہندوتوا واچ بھارت میں انتہا پسند ہندوتوا نظریے کے پیروکار ہندوؤں کے اقلیتی اور پس ماندہ برادریوں پر مظالم کی رپورٹنگ کے لیے امریکاسے ہینڈل ہونے والی ایک آزاد تحقیقی ڈیٹا ویب سائٹ ہے۔ ہندوتوا واچ کے ساتھ مودی سرکار نے ملک میں نفرت انگیز تقاریر کی رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ انڈیا ہیٹ لیب کو بھی بلاک کر دیاتھا۔ ہندوتوا واچ کے بانی کشمیری صحافی رقیب حمید نائیک کو مودی کے سرکاری عہدے داروں نے ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔
مودی حکومت کی آزاد صحافت اور تنقیدی آوازوں کو دبانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ ستمبر2023میں ہندوتوا واچ اور انڈیا ہیٹ لیب نے مشترکہ طور پر مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز تقریر پر ایک رپورٹ شایع کی تھی۔ رپورٹ میں مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز تقریر کے 255 سے زیادہ دستاویزی واقعات کا تجزیہ کیا گیا جن میں80فی صد واقعات مودی کی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں رونما ہوئے تھے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا تھاکہ تقریباً70فی صد واقعات 2023 اور2024میں ان ریاستوں میں پیش آئے جن میں انتخابات ہونے تھے۔
نومبر2022میں ایکس پلیٹ فارم، ایلون مسک کی سرپرستی میں آنے کے بعد سے بھارت میں ایکس اکاؤنٹس پر مشتمل سنسرشپ بڑھ گئی ہے۔ 2023میں ایکس کمپنی نے امریکا میں قائم انڈین امریکن مسلم کونسل اور ہندوز فار ہیومن رائٹس ان انڈیا کے ایکس اکاؤنٹس کو بند کر دیا تھا۔ دی پولس پروجیکٹ کی بانی ،سچترا وجین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اقلیتیوں کے خلاف تشدد کی معلومات، یا کسی بھی قسم کی دستاویزات نہیں چاہتی ہے۔
ماضی میں، دو ڈیٹا بیس ہندوستان ٹائمز اخبار اور انڈیا اسپینڈ نے نفرت انگیز جرائم کی رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی، لیکن2017اور2019میں ہندو قوم پرستوں کی شدید تنقید کے بعد انہیں یہ سلسلہ روکنا پڑا۔ عالمی میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (RSF) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2023 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کی درجہ بندی 180 ممالک میں سے161پر آ گئی تھی، جو 2022 میں 150 تھی۔
یاد رہے کہ بھارت میں 100000 سے زیادہ اخبارات اور 36ہزار سے زیادہ ہفتہ وار اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ380نیوز چینلز ہیں۔ معروف صنعت کار، اڈانی سے وابستہ 70 نیوز آؤٹ لیٹس ہیں جن کے 8 کروڑ سے زیادہ فالوورز ہیں۔
اس سےچند یوم قبل بھی ہندوستان میں ہندوتوا فکر کا عکّاس ایک اور اہم نوعیّت کا واقعہ رونما ہواتھا۔وہ پچّیس جنوری 2024 کی بات تھی۔ اس روز انتہا پسند ہندوؤں کے جتھّوں نے ہندوستان کی ایک تاریخی مسجد اور چرچ پر حملہ کرکے وہاں ہندوتوافکر کی عکّاسی کرنے والے پرچم لہرا دیے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُن انتہا پسند ہندوؤں کا کہنا تھا کہ ایک نہیں بلکہ ایک ہزار مزید بابری مسجدیں گرائیں گے۔
دراصل وہ بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی کے ہاتھوں رام مندرکے افتتاح کا اگلا روز تھا اور انتہا پسند ہندوؤں کے جتھوں نے ریاست اترپردیش کے علاقے بلوچ پورہ میں فتح کی ریلی نکالی تھی جس کے دوران مسجد اور ایک چرچ پر حملہ کیا گیا تھا۔ بلوچ پورہ میں دیوان جی کی1677میں تعمیر کی گئی بیگم شاہی مسجد میں لاٹھی بردار ایک تا ڈیڑھ ہزار جنونی ہندو داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ کی۔
انتہاپسند ہندوؤں نے جے شری رام کے نعرے بھی لگائے، امام مسجد کو زدوکوب کیا، مینارپر ہندوتوا کا پرچم لہرا دیا اور نعرہ لگایا کہ ہم ایک نہیں بلکہ ایک ہزار مزید بابری مسجد گرائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ مسجد اور روضہ خواجہ غیاث الدین قاضی وانی کی بیٹی اور ممتاز محل کی والدہ دیوان جی بیگم کے لیے وقف ہیں۔
اسی طرح ریاست مدھیہ پردیش میں بھی ایک چرچ پر بھی حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے چرچ کی دیوار پر چڑھ کر صلیب کا نشان اتارا اور ہندوتوا کا پرچم لہرا دیا۔ حملہ آور شدید نعرے بازی بھی کرتے رہے۔ علاوہ ازیں ایسے کئی واقعات مدھیہ پردیش کے علاقوں دبتلائی، مٹاسولہ، اوبیراؤ اور دامنی ناتھو میں بھی پیش آئے۔ کیرالہ، کرناٹک اور آسام میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے۔
ہندوتوا فکر کی جڑیں
ان دو واقعات کی تفصیل یہاں پیش کرنے کا مقصد ہندوستان میں ہندوتوا فکر کی معاشرے میں پھیلی ہوئی جڑوں کی نشان دہی کرنا ہے۔ بعض ماہرینِ سیاسیات کا کہنا ہے کہ بھارت اسلامو فوبیا اور آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندو توا نظریے کو ہوا دے کردراصل ملک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو دبانا چاہتا ہے۔ آج بھارت پر جو جنگی جنون طاری ہے اور جس طرح وہ پاکستان کے خلاف جارحیت کررہا ہے اس میں بھارتی پروپیگنڈہ مشینری ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے۔
پاکستان پر نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کے الزامات لگا کر بھارت اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانےکے لیے ہر محاذ پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہا ہے اور پہلگام کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
بھارت کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے بہ قول بی جے پی یا بھارتیہ جنتا پارٹی دراصل راشٹریہ سیوک سنگھ کا سیاسی بازو ہے جو مقبوضہ کشمیر میں رام راج کا نفاذ چاہتی ہے۔ حالاں کہ آئین میں اس ملک کا کا سرکاری نام بھارت ہے، ہندوستان نہیں اور بھارت کو ایک سیکولر ملک کا درجہ دیا گیا تھا۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع علاقہ ہے، جہاں اس نے رائے شماری کرانے کا حکم دے رکھا ہے اور بھارت پچھہتر سالوں سے اس پر مسلسل ٹال مٹول کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کشمیریوں کی نسل کشی کررہی ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ دنیا بھر اور خود بھارت میں مودی کو گجرات کے قصاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ماضی میں امریکا نے نریندر مودی کی دہشت گردی والی پالیسیز کے باعث ان کے امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کر رکھی تھی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ نریندر جی شروع ہی سے مسلم دشمن رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں بھارت پاکستان میں خصوصاً بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کرچکا ہے، جن میں اب تک80ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں۔ کلبھوشن یادیو پاکستان میں ان کارروائیوں کا اعتراف بھی کرچکا ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا کے دوپڑوسی ممالک، بھارت اور پاکستان کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ لیکن دس، بارہ برسوں سے نہ جانے بھارت کی سر میں کیا سودا سماگیا ہے کہ وہ ہر چند برس بعد اپنے کسی ہم سائے سے حالات بگاڑنے پر مائل ہوجاتا ہے۔
تاہم اس ضمن میں وہ پاکستان کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ’’خاص سلوک‘‘کرتا ہے۔ کبھی وہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرکے آبی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سخت خلاف ورزی کرتا ہے، کبھی نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کرتا ہے، کبھی میزئل داغتا ہے تو کبھی ڈرونز بھیجتا ہے۔
اس سے قبل وہ کشمیر سے بہنے والے دریاؤں پر غیر قانونی ڈیم بنا کر آبی جارحیت کا مرتکب ہوچکا ہے اور مسلسل پاکستان کو دھمکیاں دے کر خطے میں اپنی با لادستی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ دراصل اس کے جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم سے علاقائی امن و استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
بھارت کی تخریبی سرگرمیوں اور ہم سایہ ممالک کے خلاف جارحیت کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں قیام امن مسلسل ایک خواب بنا ہوا ہے۔ اس کے فالس فلیگ آپریشنز پہلے سے غیر مستحکم علاقائی صورت حال کو مزید ابتر بنارہے ہیں۔ لیکن ایسا ایک روز یا ایک برس میں نہیں ہوا ہے، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک خاص ذہنیت اور فکرکار فرما ہے۔
مودی کی سیاست کا محور ہندوتوا
اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نریندر مودی کی سیاست کا بنیادی نکتہ بھارت کو عملی او رآئینی طو رپر سیکولر ریاست کے مقابلے میں ہندوتوا پر مبنی ریاست میں تبدیل کرنا ہے اور وہ اس ایجنڈے کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سیاست میں نریندر مودی کی ہندوتوا سیاست کا جادو پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔
بدقسمتی سے نریندر مودی کی حکومت نے بھارت کی ریاست سے جڑے اہم اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر بھی لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بھارت میں مودی کی ہندوتوا پر مبنی سیاست کو قبول کرلیں۔
مودی اور آرایس ایس کی سیاسی فکر یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے جن لوگوں نے بھی بھارت میں رہنا ہے انہیں ہندوتوا کی بالادستی کو قبول کرنا ہوگا ۔ سخت گیر ہندوتوا کی سیاست سے جڑے سیاست دان واشگاف انداز میں دیگر اقلیتوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر ان کو ہندوتوا کی بالادستی قبول نہیں تو وہ بھارت چھوڑ سکتے ہیں۔
آج مودی سرکار ملک بھر میں ہندو انتہا پسندی پر مبنی ہندوتوا پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے، جس نے سیکولر بھارت کے دعوے خاک میں ملا دیے ہیں۔ عالمی ذرایع ابلاغ میں بھی بھارتی حکم راں جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم کی انتہا پسندانہ پالیسیز کی رپورٹس شایع ہوچکی ہیں۔ مثلا دی وائر کے مطابق2014میں مودی کے دور اقتدار کے آغاز ہی سے بھارت کا سماجی اور سیاسی مکالمہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریے سے متاثر ہے۔
رپورٹ کے مطابق مودی کے ہندوتوا اقدامات میں تین طلاق پر پابندی، آرٹیکل 370 کا خاتمہ، شہریت ترمیمی ایکٹ،نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کی قانون سازی اور رام جنم بھومی منصوبہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ہندوتوا کے نئے مرحلے میں اب شہروں اور شہری زندگی پر کام کیا جارہا ہے، جہاں سماجی، ثقافتی اور مکانی طور پر ہندوتوا نظریہ لاگو کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے گھروں کو اجتماعی سزا کے طور پر منظم طریقے سے مسمار کرنا شہروں پر ہندوتوا پالیسیزرائج ہونے کی واضح مثال ہے۔
دی وائر کے مطابق بھارت میں ’’منی پاکستان‘‘ کا نام مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں کو توہین آمیز انداز میں پیش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک خاص منصوبے کے تحت مودی سرکار نے مسلمانوں کو کم ترقی یافتہ اور بدحال علاقوں میں دھکیل دیا ہے، جہاں بنیادی ضروریات، تعلیم اور معاشی مواقعے موجود نہیں ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں شروع ہونے والی ڈی کالونائزیشن نے ممبئی، چنئی اور کولکتہ کے بعد اب مسلمانوں کے نام پر بنائی جانے والی سڑکوں اور شہروں کے نام بھی تبدیل کردیے ہیں۔
علاوہ ازیں ہندوتوا سازش کا دائرہ کار تاریخ اور ثقافت کو محو کرنے تک محدود نہیں بلکہ مسلم تشخص کو بھی مسخ کیاجارہا ہے جیسے مختلف شہروں میں درگاہوں، مساجد اور عیدگاہوں کا صفایا کرنا وغیرہ۔ یہ سب تاریخی اہمیت اور شناخت رکھنے والی جگہوں پر کیا گیا ہے اور ان اقدامات کو ماسٹر پلانز کی خلاف ورزی، قوانین کی پامالی یا پھر ٹریفک کے مسائل جیسے بہانوں کے تحت کیا گیا ہے۔
مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف ’’بلڈوزر انصاف‘‘ کے نام پر عمارتیں مسمار کر رہی ہے، جوپوری برادری، خاندانوں اور محلے کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کو اکثر کم اجرت والے غیر رسمی شعبوں میں کام دیا جاتا ہے جیسے کھانا پکانا، دست کاری، گوشت اور چمڑے کی صنعتیں، وغیرہ۔ یہ کام کے علاقے پہلے ہی غیر محفوظ تھے، لیکن اب انہیں مذہبی بنیادوں پر منظم انداز میں ہراساں کیا جارہا ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کی اس انتہا پسندانہ فکر کے سبب بہ تدریج مسلم کاروبار، مختلف نوعیت کے اقتصادی بائیکاٹ اورپابندیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔بہت سے شہروں اور ریاستوں میں ہندوتوا پالیسیز کے تحت سڑکوں پر، ٹھیلوں اور ہوٹل مالکان کو اپنے نام ظاہر کرنے، مخصوص ہندو تہواروں یا قومی تعطیلات پر گوشت نہ بیچنے جیسی پابندیاں عاید کی جاتی ہیں اور اب پورے محلوں کو ’’تیرتھ یاترا‘‘ (مقدس علاقے) قرار دیا جارہا ہے اور اس وجہ سے گوشت بیچنے اور کھانے پر بھی پابندی عاید کی جاچکی ہے جس سے بےشمار روزگار تباہ ہورہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بہ قول ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر مودی کی ہندوتوا پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مودی کا ہندوتوا نظریہ بھارت کے مسلمانوں کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب فلسطین کی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ نسل کشی شروع ہو جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی قوتیں اس پر کب تک خاموش رہیں گی؟
صرف مسلمان ہی زیرِ عتاب نہیں
جنوب مشرقی بھارت کی ریاستیں جن میں آسام، منی پور، ناگالینڈ، میزورام، میگھالہ، تری پورہ اور اروناچل پردیش شامل ہیں،اپنی قبائلی اور مذہبی تنوع کی وجہ سے منفرد ہیں،وہ بھی ہندوتوا کے جارحانہ عزائم کا شکار ہیں۔ آسام میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) نے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو غیر ملکی قرار دے کر انہیں حراستی کیمپوں میں دھکیلا، جہاں غیر انسانی حالات ہیں۔
منی پور میں نسلی تشدد کو ہوا دی گئی، جہاں عیسائی قبائلیوں کے گاؤں نذر آتش کیے گئے اور انہیں بے گھر کیا گیا۔ مقامی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہندوتوا کے گروہوں نے گرجا گھروں پر حملے کیے اور پادریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ تری پورہ میں بودھ اور عیسائی برادریوں کے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، لیکن بی جے پی کی ریاستی حکومتیں اس پر خاموش تماشائی بنی رہی ہیں۔ یہ سب ہندوتوا کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جو اقلیتوں کو کچل کر ایک ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتی ہے۔
سکھ مذہب کے پیروکار جو پنجاب کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہندوتوا کے جبر کا شکار ہیں۔1984کے سکھ مخالف فسادات کے زخم ابھی تازہ ہیں، لیکن بی جے پی نے کسان تحریک کے دوران سکھ کسانوں کو’’خالصتانی‘‘اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر ان کے وقار کو مجروح کیا۔ دہلی کی سرحدوں پر احتجاجی کسانوں پر تشدد کیا گیا، ان کے خیموں کو جلایا گیا اور انہیں سردی میں بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔
آر ایس ایس سے وابستہ گروہوں نے گوردواروں کے آس پاس نفرت پھیلائی اور سکھ شناخت کو ہندو ثقافت میں ضم کرنے کی کوشش کی۔ سکھ کارکنوں کو سخت قوانین جیسے UAPA کے تحت جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے،جو ان کی سیاسی آواز کو کچلنے کی سازش ہے۔ یہ سب ہندوتوا کی اس دہشت گردی کا حصہ ہے جو سکھوں کی تاریخی جدوجہد کوکم زور کرنا چاہتی ہے۔ عیسائی برادری جو جنوبی اور شمال مشرقی ریاستوں میں نمایاں ہے وہ ہندوتوا کے تشدد سے بری طرح متاثر ہے۔ کرناٹک، کیرالہ، اور تامل ناڈو میں گرجا گھروں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔
پادریوں کو مارا پیٹا جاتا ہےاور عیسائیوں کو’’مذہب کی تبدیلی‘‘کے جھوٹے الزامات میں پھنسایا جاتا ہے۔ اڑیسہ میں2008 کے عیسائی مخالف فسادات، جن میں درجنوں گرجا گھر جلائے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے، ہندوتوا کی دہشت گردی کی بدترین مثال ہیں۔ چھتیس گڑھ میں عیسائی قبائلیوں کے گاؤں تباہ کیے گئے اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں مذہبی تبدیلی کے سخت قوانین لا کر عیسائیوں کی آزادی سلب کر رہی ہیں۔ شمال مشرق میں جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں وہاں ہندوتوا کے گماشتے مقامی ثقافت کو ہندو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے نسلی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ سب ایک ایسی دہشت گردی ہے جو عیسائی شناخت کو مٹانے کے لیے جاری ہے۔
سیکولر ریاست کا نقاب تقریبا اُتر چکا
مودی سرکار کا بھارت کے سیکولر اسٹیٹ ہونے کا جھوٹا دعویٰ تقریبا بے نقاب ہوچکا ہے۔ستمبر 2023 میں نریندر مودی نے آئین سے سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ ہٹا کر بھارت کو ہندو راشٹریہ ریاست بنانے کی راہ ہم وار کردی تھی۔بھارتی میڈیا کے مطابق نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں اراکین اسمبلی کو فراہم کردہ آئین کی تمہیدی کتاب سے سیکولر ازم اور سوشلسٹ کے الفاظ غائب تھے جس پر اپوزیشن جماعت کانگریس نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
قبل ازیں مودی سرکار نے 'انڈیا کے بجائے بھارت کالفظ استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جی-20 اجلاس کے دعوت ناموں سمیت دیگر جگہوں پر بھی انڈیا کے بجائے بھارت کا لفظ استعمال کیا گیا تھا جس سے یہ خبریں گردش میں تھیں کہ پارلیمنٹ کے نئے اجلاس میں انڈیا کو لفظ بھارت سے بدلنے کے لیے قانون میں ترمیم کی جائے گی۔ حکم راں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے متشدد ارکان اسمبلی بھی اس تبدیلی کا عندیہ دے چکے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارتی آئین کے دیباچے میں بھارت کو سوشلسٹ اور سیکولر ریاست قرار دیا گیا تھا جہاں تمام اقلیتوں کو ان کے مذہبی اور انسانی حقوق حاصل ہوگی تاہم آئین کی نئی شائع شدہ کتاب سے مودی سرکار نے سوشلسٹ اور سیکولر کے الفاظ غائب کر دیے۔
ساورکر، اکھنڈ بھارت اور پارلیمان کی نئی عمارت
ہندوستان کی پارلیمان کی نئی عمارت کا کچھ عرصہ قبل ہی افتتاح ہوا ہے۔اس عمارت کی ایک دیوار پر بھارت کا جو نقشہ بنایا گیا ہے وہ دراصل اکھنڈ بھارت کا نقشہ ہے جس میں پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا اور نیپال کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اسی عمارت میں اتاری گئی مودی جی کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ایک تصویر کو پرنام کررہے تھے۔ وہ تصویر ساورکرکی تھی۔
ہندوستان لسانی، ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ایک متنوع معاشرہ سمجھا جاتاہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ ہندوستان کے بانی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مختلف فرقوں اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں کو آپس کے اختلافات بھلا کر نئے ملک میں اتحاد سے رہنا چاہیے اور ہندوتوا کا نظریہ 2014 میں مودی سرکار کے حکومت میں آنے کے بعد اچانک منظر عام پر آیا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نظریے کی شاخیں آزادی سے پہلے کے ہندوستان تک جاتی ہیں۔
یہ نظریہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے میں تو آسانی پیدا کرتا ہی ہے،لیکن یہ ثقافت کی بنیاد پر نفرت پھیلانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ آج کل کی سیاست میں اس کا کردار سمجھنے کے لیے تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ بہ طور لفظ اس کے استعمال کا آغاز ساور کرنے اس وقت کیا جب برصغیر کے لوگ برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ کشیدگی اور جنگ کے دنوں میں یہ نظریہ پیش کرنے کا مقصد ہندوستان کے لوگوں کو ایک نئی پہچان دینا اور بیرونی طاقتوں کو خود سے الگ ثابت کرنا تھا۔
اس نظریے کے پیچھے بنیادی طور پر ہندو نسل اور ثقافت کی برتری کو برقرار رکھنے اور دوسری قوموں اور ثقافتوں کے اثرات سے بچا کر رکھنے کی خواہش چھپی ہوئی ہے۔ ہندو آریائی نسل کے افراد کو باقی مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بہتر ماننے کا یہ تصور نہ ہی نیا ہے اور نہ ہی اس کی ابتدا 1923میں ساورکر کی جانب سے ہندوتوا اصطلاح پیش کرنے کے بعد ہوئی، بلکہ یہ ایک طویل کہانی ہے جس کی جڑیں تاریخ میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔