• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی حکومت خود اپنی چھیڑی ہوئی جنگ میں محض پانچ دن کے اندر افواج پاکستان کے ہاتھوں ناقابل تصور تباہی کے بعدجنگ بندی پر مجبور ہوگئی۔ عدم مداخلت کے مؤقف کو ترک کرکے خود صدر ٹرمپ میدان میں آئے، نئی دہلی اور اسلام آباد سے رابطے کیے اور ہفتے کی شام ساڑھے چار بجے سے فوری جنگ بندی عمل میں آگئی جس کا اعلان امریکی صدر نے خود کیا۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اس تاریخی فتح پر ہفتے کی شب قوم کو دلی مبارکباد اور افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بہادر اور پیشہ وارانہ مسلح افواج نے شرمناک اور کھلی جارحیت پر دشمن کو اسی کی زبان میں موثر اور بھرپور جواب دے کر عسکری تاریخ کا سنہرا باب رقم کیا ہے، جری جوانوں نے چند گھنٹوں میں دشمن کے ساتھ وہ کیا جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ یہ افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ خوددار، غیرت مند اور باوقار پاکستانی قوم کی کامیابی ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آبی وسائل کی تقسیم اورجموں و کشمیر تنازع سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کرنے کیلئے پرامن مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے گا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اب ہم سب مل کر اپنی توانائیاں ملک کیلئے وقف کریں گے۔ بلاشبہ یہ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کو شکست دینے کے نتیجے میں پاکستانی قوم کی خود اعتمادی اور حوصلے میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اسے تعمیر وطن کی مستقل جدوجہد کے لیے استعمال کرکے پائیدار ترقی کا وسیلہ بنایا جائے۔ اس جذبے کو برقرار رکھنے کیلئے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے جائیں ۔ قومی اتحاد و یکجہتی کی موجودہ فضا کو قائم رکھنے کی ہر ممکن تدبیر کی جائے۔ اس پانچ روزہ جنگ نے اہل پاکستان کو دنیا بھر میں ایک خودددار، جری، غیرت مند ، ذمے داراور نہایت باصلاحیت قوم ہونے کے حوالے سے ایک نئی پہچان عطا کی ہے۔ دشمن کے مقابلے میں ہماری فوج، حکومت، ذرائع ابلاغ اور عوام سب نے اپنے طرزعمل سے پاکستان کو اخلاقی اعتبار سے بہت بلند ثابت کیا ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے پاکستان کامقدمہ دنیا کے سامنے ٹھوس ثبوت و شواہد کے ساتھ پیش کرکے عالمی سطح پر خود کو معتبر تسلیم کرایا ہے۔ اس ماحول کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کی تعمیر و ترقی کیلئے اسے بہترین طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وسیع تر مشاورت کے ذریعے اس کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔جنگ بندی کے بعد اب آبی وسائل، کشمیر اور دہشت گردی جیسے مسائل پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ درپیش ہے۔ صدر ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے کردار ادا کرنے پر از خود آمادگی ظاہر کی ہے جو یقینا لائق خیرمقدم ہے۔ بھارت کئی عشروں سے باہمی تنازعات کے پرامن حل کیلئے بات چیت کا راستہ اپنانے پر تیار نہیں ہورہا تھا اور کسی تیسرے ملک کی اس معاملے میں شرکت کو اس بہانے مسترد کردیتا تھا کہ یہ دو ملکوں کا باہمی معاملہ ہے تاہم جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اور جنگ بندی میں امریکہ کے علاوہ ترکیہ، سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران اور اقوام متحدہ کے کردار کی وجہ سے اب مودی حکومت کیلئے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنا مشکل ہوگا جبکہ جنگ میں بالادست رہنے کی وجہ سے پاکستان اپنا جائز موقف منوانے کی بہترپوزیشن میں ہوگا۔ امریکی حکومت اور دوست ملکوں کی جانب سے بھی پاک بھارت تنازعات کے منصفانہ حل کی تلاش میں تعاون کے امکانات موجود ہیں لہٰذا ماضی کے مقابلے میں اس بات کی خاصی توقع ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس موقع کا درست استعمال کرنے میں کامیاب رہی تو طاس سندھ معاہدے ، کشمیر اور پاکستان میں بھارتی حمایت یافتہ گروہوں کی دہشت گردی سمیت تمام مسائل کا منصفانہ حل تلاش کیا جاسکے گا۔

تازہ ترین