مالی وسائل کی قلت کے باعث ملک میں عوامی سہولتوں کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے خاطر خواہ رقوم کی فراہمی ممکن نہیں جس کی وجہ سے جاری قومی بجٹ میں بہت سے ترقیاتی منصوبے مؤخر کیے گئے تھے لیکن مالی سال کے دس ماہ گزرجانے کے بعد سامنے آنے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں کیلئے جو رقوم مختص کی گئی تھیں وفاقی حکومت اب تک ان کا صرف 41 فی صدہی خرچ کرسکی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کے مطابق مالی سال 2025ءکے ابتدائی 10 ماہ یعنی جولائی تا اپریل کے دوران ترقیاتی خرچ 448 ارب 60 کروڑ روپے رہا جو رواں مالی سال کیلئے مختص کردہ ایک ہزار 100 ارب روپے کے نظر ثانی شدہ بجٹ کے 41فیصد سے بھی کم ہے جس سے واضح ہے کہ باقی دو ماہ میں یعنی تیس جون تک ترقیاتی بجٹ کا بقیہ 59فیصد حصہ خرچ نہیں کیا جاسکے گا۔تفصیلات کے مطابق صوبوں اور خصوصی علاقوں، کے پی کے ضم شدہ اضلاع، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان نے ترقیاتی بجٹ کا سب سے کم یعنی صرف36فیصد استعمال کیا ۔ آبی وسائل کا شعبہ جسے پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ یعنی 170ارب روپے جاری کئے گئے تھے، صرف 72 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کر سکا۔توانائی کے شعبے نے 10 ماہ میں 53 ارب روپے یا مختص کردہ 94 ارب 50کروڑ روپے کی سالانہ رقم کا تقریباً 55 فیصد خرچ کیا، محکمہ ماحولیات نے 5 ارب 25کروڑ روپے کی مختص کردہ رقم سے ایک ارب 50کروڑ روپے خرچ کیے، پلاننگ کمیشن نے بھی 19 ارب روپے کے بجٹ میں سے صرف 3 ارب 85 کروڑ روپے خرچ کیے جبکہ تجارت، مواصلات، انسددادِ منشیات اور مذہبی امور کی وزارتیں نیز خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل کوئی پیسہ خرچ نہیں کر سکیں۔ یہ صورت حال بظاہر وزارتوں اور اداروں کی ناقص کارکردگی ظاہر کرتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اسکے اسباب کی وضاحت کی جائے اور کارکردگی کی خامیوں کو دور کیا جائے۔