وزیراعظم شہباز شریف کا یہ عزم، پیغام اور انتباہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کا ترجمان ہے کہ ہم امن اور جنگ دونوں کیلئے تیار ہیں۔ امن پُرسکون زندگی کی ضرورت جبکہ جنگ تباہی اور انسانی المیوں کی علامت ہے لیکن جنگ سے بچنے کیلئے بھی ہمہ وقت کیل کانٹے سے لیس اور تیار رہنے کی اہمیت بالخصوص پاکستان کیلئے اس بنا پر مسلّم ہے کہ اسے اپنے قیام کے وقت سے بقا کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بدھ کے روز سیالکوٹ کی پسرور چھائونی کے دورے کے موقع پر فوجی افسروں اور جوانوں سے خطاب کے دوران بھارت کو دوبارہ بات چیت کی پیشکش کرتے ہوئے جہاں جامع اور مربوط مذاکرات کی ضرورت اجاگر کی وہاں امن اور جنگ دونوں کے حوالے سے پاکستان کے تیار رہنے کی بات بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی آدم پور ایئربیس پر کی گئی اشتعال انگیز تقریر اور بھارتی حکمرانوں کی طرف سے آنیوالے بیانات و اشارات کے تناظر میں ضروری ہوگئی تھی۔ میاں شہباز شریف نے مودی جی کو مشورہ دیا کہ وہ آگ لگانے کی بجائے آگے بڑھنے کی بات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ 71کی جنگ کا بدلہ اس جنگ میں لےلیا، اگر انڈیا نے دوبارہ جارحیت کی تو ایسا جواب دیا جائے گا کہ سوچا بھی نہیں ہوگا۔ ایسی کیفیت میں، کہ بھارت کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کے امکانات کو تاحال رد کرنا ممکن نہیں معلوم ہوتا، جہاں اس نوع کے انتباہات کا دہرانا ایک ضرورت ہے وہاں مختلف سطحوں پر امن عمل آگے بڑھانے کے اقدامات پر توجہ مرکوز رکھنا بھی ضروری ہے۔ دوست ملکوں کی معاونت سے بیک چینل اور سفارتی رابطے غیر معمولی حالات کے ناگزیر تقاضے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے اپنی ثالثی میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی اگرچہ بعض خلاف ورزیوں کی شکایات سامنے آرہی ہیں تاہم پیر 12مئی کو پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت میں جنگ بندی پر اتفاق مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جتنے بھی جنگی معرکے ہوئے، ان میں پاک فوج کی کارکردگی قابل قدر رہی، جبکہ عوام ہر موقع پر اپنی بہادر افواج کی پشت پر کھڑے نظر آئے اور ان کا جوش دیدنی رہا۔ اس وقت، کہ ملک میں منتخب جمہوری حکومت کام کر رہی ہے۔ سول اور فوجی قیادت کے ٹینک پر کھڑے ہوکر نعرہ تکبیر بلند کرنے کا منظر تاریخ کا نیا نقش بن گیا جبکہ سوشل میڈیا، جسے عمومی طور پر ریاست مخالف سمجھا جاتا ہے، چند استثنا کے سوا ریاست کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کو کشیدگی سے نکلنے کے لئے امن بات چیت کی طرف لازماً آنا ہے جن میں آبی معاہدہ، دہشت گردی اور کشمیر کے مسئلے سرفہرست ہونگے۔ ان پر نہ صرف جم کر گفتگو ہونی چاہئے بلکہ ایسا میکنزم بنایا جانا چاہئے جس کے تسلسل میں کسی حادثے، واقعے، حتیٰ کہ جنگی کیفیت کو بھی آڑے آنے نہ دیا جانا چاہئے۔ چند امن دشمنوں یا کسی بیرونی سازش کے آلہ کاروں کو دونوں پڑوسی ملکوں کی امن کوششوں میں تعطل کا جواز بننے کا موقع دینا دانشمندی نہیں۔ یہ مستقل میکنزم لمحہِ موجود کےمسائل حل ہونے کے بعد بھی جاری رہنا چاہئے تاکہ طے شدہ فیصلوں کے حفاظت کا ذریعہ بنا رہے اور نئے پیدا ہونیوالے مسائل کے حل کا مستقل راستہ کھلا رہے۔معاملات بظاہر کتنے ہی مشکل ہوں، جب فریقین مذاکرات کی میز پر آتے ہیں تو بات کچھ نہ کچھ آگے بڑھتی ہے۔ بات آگے نہ بڑھے تو بھی تفہیم کی ایک صورت پیدا ہوتی ہے۔ ملکوں کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں یکے بعد دیگرے مذاکرات کی ناکامی کے باوجود مکالمے کا جاری رہنا ایسے حل کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن گیا جس سے فریقین کی دشمنی دوستی اور اچھے تعلقات میں تبدیل ہوگئی۔