• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کو اپنائے بغیر ’’اپنا‘‘ نہیں بنایا جاسکتا

کراچی کو ’’منی پاکستان” بھی کہا جاتا ہے اور یہ وہی شہر ہے، جہاں پاکستان کی صنعتی بنیادیں رکھی گئیں، جہاں ہر زبان، نسل، قوم کے لوگ روزگار اور بہتر مستقبل کے خواب لیے آتے رہے، مگر آج یہی شہر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، گندگی کے ڈھیروں، پانی کے بحران، ٹرانسپورٹ کے عذاب اور قانون و امن کی تباہ حالی کا شکار ہے۔ کراچی کے مسائل کا آغاز محض انتظامی غفلت سے نہیں ہوا، بلکہ یہ ایک طویل سیاسی، ادارہ جاتی اور نسلی تقسیم کی پیداوار ہیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں میں کراچی کو مقامی سیاست کے نام پر یرغمال بنایا گیا۔ بلدیاتی حکومتوں کو بھی سیاسی جماعتوں نے صرف اختیارات کی جنگ کے لیے استعمال کیا۔یہاں کے ادارے، خصوصاً KMC، KDA، KWSB اور SBCA، مکمل طور پر کرپشن، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کا شکار رہے۔ ان اداروں کی موجودہ حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ شہریوں کے لیے بنیادی سہولتوں کا حصول بھی خواب بن چُکا ہے۔ سچ یہ ہے کہ کراچی کو سیاسی تجربات نے برباد کیا، مگر اب وقت ہے کہ سنجیدگی سے سوچا جائے کہ اِس شہر کا مستقبل کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

حکومتِ سندھ نے حالیہ برسوں میں کراچی میں کئی منصوبوں کا آغاز کیا، جن میں ماس ٹرانزٹ سسٹمز، واٹر سپلائی اسکیمز اور ڈسٹرکٹ لیول ڈیویلپمنٹ شامل ہے، مگر وسائل، اختیارات اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اِس شہر کا اصل المیہ ایک مربوط، مؤثر اور غیرسیاسی شہری نظم و نسق کا فقدان ہے۔ 

کراچی میں بے ہنگم تعمیرات، بغیر کسی ماسٹر پلان کے غیر قانونی آبادیوں کا جال اُس وقت پھیلنا شروع ہوا، جب ادارے یکے بعد دیگرے بے اختیار ہوتے گئے اور ان پر سیاسی جماعتوں کا قبضہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اداروں کی خودمختاری روند کر، اُنہیں سیاسی بھرتیوں اور کرپشن کا مرکز بنا دیا گیا۔ 

کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جیسے ادارے کبھی شہر کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتے تھے، لیکن اب ان کی حیثیت صرف سیاسی مفادات کے تحفّظ تک محدود ہو چکی ہے۔ واٹر بورڈ پانی کی ترسیل میں ناکام ہے، مگر ٹینکر مافیا شہر کے ہر کونے میں سرگرم ہے، جنہیں مبیّنہ طور پر مختلف سیاسی شخصیات کی پُشت پناہی حاصل ہے۔ 

یہ مافیا روزانہ کروڑوں روپے کماتا ہے، جب کہ شہری بوند بوند کو ترستے ہیں۔SBCA کی ناکامی اُس وقت کُھل کر سامنے آئی، جب شہر میں بے تحاشا غیرقانونی عمارتیں تعمیر ہوئیں، جن میں سے کئی زمین بوس ہو گئیں اور انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئی سیاسی حکومت، خواہ وہ بلدیاتی ہو یا وفاقی، اِس عمل میں ملوّث عناصر کے خلاف سنجیدہ کارروائی نہ کر سکی۔

ٹرانسپورٹ کا شعبہ شاید کراچی کے مسائل میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ سرکلر ریلوے جو کبھی یہاں کی پہچان ہوا کرتی تھی، گزشتہ کئی دہائیوں سے بند ہے۔ نئی بسیں، ماس ٹرانزٹ یا کوئی مؤثر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم دینے کی بجائے پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں نے صرف کاغذی منصوبے دیئے یا پھر ایک دوسرے پر الزام تراشی کی۔ صفائی کے شعبے میں صُورتِ حال اِس سے بھی زیادہ مایوس کُن ہے۔ کئی سالوں تک کراچی میں کچرے کی صفائی ایک ایسا مسئلہ رہا، جس پر سیاست تو خُوب ہوئی، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔

سندھ حکومت نے چینی کمپنی کے تعاون سے کچھ علاقوں میں صفائی کا نظام بہتر کرنے کی کوشش ضرور کی، لیکن بلدیاتی اداروں اور وفاق کے عدم تعاون نے ان کوششوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ امن و امان کا مسئلہ بھی کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ کراچی کا ماضی ٹارگٹ کلنگ، بھتّا خوری اور اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے بدنام رہا ہے۔ رینجرز کی تعیّناتی، پولیس ریفارمز اور آپریشنز سے وقتی بہتری تو ضرور آئی، مگر اب بھی شہر کے کئی علاقے رات کے وقت خوف کا منظر پیش کرتے ہیں۔

پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کیے بغیر امن و امان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ سندھ حکومت کے کچھ حالیہ اقدامات، مثلاً کراچی ماس ٹرانزٹ کے لیے اورنج لائن منصوبہ، کراچی واٹر بورڈ کو ری اسٹرکچر کرنے کی کوششیں اور بعض اضلاع میں ترقیاتی منصوبے، اِس طرف اشارہ ہیں کہ حکومت اِس شہر کے سدھار کے ضمن میں بہت سنجیدہ ہے، مگر اس کوشش میں سب کو شامل ہونا ہوگا۔

کراچی کا بحران محض انفراسٹرکچر یا بلدیاتی نظام کی خرابی کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ریاستی عدم توجّہ، سیاسی انتشار اور ادارہ جاتی انجماد کا امتزاج ہے۔ اس شہر کو اگر واقعی ایک جدید، فعال اور انسانی وقار سے ہم آہنگ میٹروپولیٹن میں تبدیل کرنا ہے، تو صرف تنقید سے کام نہیں چلے گا، اِس کے لیے ایک واضح، مربوط اور مستقل لائحۂ عمل درکار ہے۔ ایسا ماڈل، جو صرف حکومت یا کسی ایک پارٹی پر منحصر نہ ہو بلکہ پوری ریاست، تمام اسٹیک ہولڈرز اور خود شہریوں کی شراکت پر مبنی ہو۔ 

دنیا کے کئی بڑے شہر ایک وقت میں کراچی جیسے بحرانوں سے گزرے، مگر اُنہوں نے کچھ بنیادی فیصلے کیے، جنہوں نے ان کی تقدیر بدل دی۔اس حوالے سے استنبول کی مثال قابلِ تقلید ہے۔ 1980 کی دہائی میں استنبول شدید آلودگی، بے ہنگم تعمیرات، پانی کے بحران، ٹریفک جام اور صفائی کے سنگین مسائل میں گِھرا ہوا تھا، پھر میونسپل سطح پر گورنینس کو ادارہ جاتی بنایا گیا، ٹرانسپورٹ کے جدید نظام (جیسے مرمرے اور میٹروبس) متعارف ہوئے، کچرا اُٹھانے کے لیے پرائیویٹ کمپنیز سے شراکت کی گئی اور پانی کے لیے مکمل ماسٹر پلان بنایا گیا۔

نتیجہ یہ کہ آج استنبول نہ صرف تُرکیہ کا ماڈرن شہر ہے بلکہ عالمی معیار کا ماڈل بن چُکا ہے۔یہی بات کولکتہ، بارسلونا اور شنگھائی کے تجربات سے سامنے آتی ہے۔ یہ شہر اُس وقت ترقّی کی راہ پر چلے، جب سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ادارے مضبوط کیے گئے اور شہری پلاننگ، پروفیشنلز کے سپرد کی گئی۔اب سوال یہ ہے کہ کراچی کے لیے ایسا ماڈل کیسے اپنایا جائے؟ کراچی کو ایک’’میٹروپولیٹن سٹی گورنینس ماڈل‘‘کی ضرورت ہے، جس میں میئر کے پاس مالی، انتظامی اور ترقیاتی اختیارات ہوں۔

موجودہ بلدیاتی نظام صرف نمائشی ہے، جب تک KMC، KDA، KWSB، SBCA جیسے ادارے صوبائی یا وفاقی بیوروکریسی کے ماتحت رہیں گے، کراچی کے مسائل کا حقیقی حل ممکن نہیں۔ یہاں سندھ حکومت کو بڑا بن کے دکھانا ہوگا۔ کراچی کی خودمختاری کو گورنینس کے تناظر میں تسلیم کرنا ہوگا، نہ کہ لسانی سیاست کے خوف میں آ کر اسے دَبانا۔ پھر یہ کہ کراچی کے لیے کوئی فعال ماسٹر پلان موجود نہیں۔ 

سندھ حکومت نے کراچی ماسٹر پلان2047 ء کی بنیاد ضرور رکھی ہے، لیکن اس کی رفتار سُست ہے۔کراچی کے تمام اداروں میں ریفارمز ناگزیر ہو چُکی ہیں۔ سندھ حکومت کی واٹر بورڈ میں اصلاحات حوصلہ افزا قدم ہے، لیکن ان اقدامات کو صرف اعلانات تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ پارلیمانی نگرانی، شہری مشاورت اور ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹمز کے ساتھ شفّاف بنایا جائے۔

وفاق نے گرین لائن بس پراجیکٹ اور سندھ حکومت نے اورنج لائن کا آغاز کیا، مگر دونوں منصوبے مکمل ہم آہنگی سے عاری ہیں۔ ایک شہری کے لیے یہ بس نہیں، ایک نظام چاہیے، جو مربوط ہو، وقت پر ہو اور آسان ہو۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیز کی شراکت سے’’کراچی اربن ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘‘ تشکیل دے، جو مکمل خودمختار ہو۔

کراچی کا کچرا محض ایک فزیکل مسئلہ نہیں، یہ ایک منظّم، ادارہ جاتی کرپشن کا استعارہ ہے۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے کچھ اضلاع میں صفائی کا کام ضرور بہتر کیا ہے، مگر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اگر ہر ضلعے کو’’ماحول دوست ڈسٹرکٹ‘‘ بنا کر ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا جائے، تو شہری خود شراکت دار بن سکتے ہیں۔

کراچی کی ایک بڑی خُوبی اس کے تعلیم یافتہ شہری ہیں۔ اگر انہیں فیصلوں میں شریک کیا جائے، محلّہ کمیٹیز فعال کی جائیں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بنائے جائیں، جہاں لوگ اپنی شکایات درج کروا سکیں، تو ایک نیا، مربوط اور جمہوری شہری نظام لانا ممکن ہے۔ یہاں اِس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ سندھ حکومت نے حالیہ برسوں میں محدود وسائل، شدید سیاسی دباؤ اور وفاق کی بے رُخی کے باوجود کئی قابلِ ذکر منصوبے شروع کیے ہیں، جنہیں سیاست سے بالاتر ہو کر تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 

کراچی کو اب تجربہ گاہ نہیں رہنا چاہیے۔ اسے مکمل اختیارات کا حامل ایک باوقار اور خودمختار شہری یونٹ تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف اِسی صُورت یہ شہر دوبارہ روشنیوں، مواقع اور یک جہتی کا مرکز بن سکتا ہے، جیسا کہ پہلے کبھی تھا۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)