• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رنگ، دھنک، یہ مہکا بادل، سب تصویریں تیرک ہیں

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: پریا جٹ

ملبوسات: پریا وارڈ روب

آرائش: Sleek By Annie

کوآرڈی نیشن: جرار رضوی

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ : نوید رشید

پچھلے دِنوں سوشل میڈیا پہ خواتین سے متعلقہ ایک پیج کے تحت ایک سروے کا اہتمام کیا گیا، جس میں خواتین سے صرف ایک سوال پوچھا گیا کہ ’’آپ اپنے شریکِ حیات سے کس ایک چیز کی شدّت سے خواہاں ہیں یا ہوں گی؟‘‘ سروے میں لگ بھگ ہرعُمر کی خواتین کی ایک کثیر تعداد نے حصّہ لیا اور نوعُمر لڑکیوں سے لے کرعُمر رسیدہ عورتوں تک نے بہت دل چسپ، منفرد اور کسی حد تک جلے کٹے جوابات دیئے۔ 

مثلاً ’’صرف احترام‘‘، ’’مکمل وفاداری‘‘، سچّی محبّت‘‘، ’’دل سے تعریف‘‘، ’’دوستی و خیر خواہی‘‘، ’’میچوریٹی‘‘، ’’اعتبار و اعتماد‘‘، ’’بہادری‘‘، ’’ذہنی ہم آہنگی‘‘، ’’امن و سُکون‘‘، ’’دھیمی آواز‘‘، ’’خاموشی‘‘ اور ’’مثبت گفتگو‘‘ سے لے کر اپنا پھیلاوا خود سمیٹنے، گم کردہ اشیاء خُود تلاشنے، ڈھونڈنے، تھوڑا منظّم، سلیقہ مند ہونے، گھر کے معاملات میں بھرپور دل چسپی لینے، لائف پارٹنر کی بات پوری توجّہ سے سُننے، محض ہوں ہاں نہ کرنے اور معمولی بیماری میں تھوڑا صبر کا مظاہرہ کرنے جیسے اَن گنت مشورے بھی دیئے گئے۔ جہاں چند ایک نے "Nothing" کہہ کے بات ہی ختم ہی کردی، وہیں بےشمار نے عورت کی تعریف کی معاملے میں مَردوں کی طرف سے نہایت کنجوسی کا مظاہرہ کرنے پر خُوب لتّے بھی لیے کہ عموماً یہ کنجوسی محض ’’اپنی خواتین‘‘ کی بابت ہوتی ہے۔

اپنی نصف بہتر کی ستائش، تعریف و توصیف، خواہ وہ گھر کی دیکھ بھال، سجاؤ سنوار، اہلِ خانہ، اولاد کی بہترین نگہہ داشت، اعلیٰ تعلیم و تربیت، ایک سے بڑھ کر ایک ذائقے دار خوانوں کی تیاری کے حوالے سے ہو یا خُود عورت کی اپنی آرائش و زیبائش، سولہ سنگھار کے ضمن میں، مَردوں کے منہ سے ایک آدھ جملہ بھی بمشکل نکلتا ہے، گویا الفاظ حلق میں پھنس سے جاتے، زبان لڑکھڑانے لگتی ہے، جب کہ باہر یا اپنے ورک پلیس پر کسی سجی سنوری عورت کو دیکھ کر تو پلکیں جھپکانا تک بھول جاتے ہیں، ذرا موقع ملتا نہیں، تعریفوں کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’عورت اگر بسترِ مرگ پر بھی کوئی خواہش رکھتی ہے، تو وہ خود کو سراہے جانے کی ہے۔‘‘ 

اِسی سے اندازہ لگا لیں کہ عورت کو اس معاملے میں کسی حد تک تشنہ کام، محروم و نا آسودہ رکھا گیا ہے۔ ایک عورت اگر اپنا تن مَن دھن وار کے، پورا جیون ہار کے محض چند ستائشی جملوں کی طلب گار ہے، تو یہ کوئی بہت منہگا سودا، کارِ محال تو نہیں۔

ویسے کام تو مَردوں کا ہے، لیکن سال ہا سال سے یہ ذمّے داری ہم نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھی ہے۔ ہر ہفتے نہ صرف خواتین کی ازلی و ابدی خواہش، ایک سے بڑھ کر ایک لوازماتِ زیب و زینت کی رنگا رنگ محافل سجائے چلے آتے ہیں، ماڈلز سے لے کر، ہمارے انتخاب کو اپنا انتخاب بنانے والیوں تک کی جس حد تک دل جوئی، قصیدہ خوانی ممکن ہو، ضرور کرتے، زمین و آسمان کے جتنے قلابے ملائے جا سکتے ہوں، بلا جھجک، بے دھڑک ملائے جاتے ہیں۔ 

ظاہر ہے، ہمیں کس بات کا ڈر ہے۔ عمومی طور پر مَردوں کو لگتا ہے کہ تعریف و ستائش عورت کا دماغ خراب کرتی، اُسے زیادہ ہی اونچا اُڑانے لگتی ہے۔ جب کہ ہمارا ماننا ہے کہ ستائش و مدح زیادہ تر مہمیز کا کام کرتی ہے۔ یوں کہیے، بس، اپنا اپنا زاویۂ نظر ہے۔

تو چلیں بھئی، آج کی بزم سے بھی دو دو ہاتھ کر لیں، جو پانچ گل رنگ تقریباتی پہناووں سے مرصّع ہے۔ ذرا دیکھیے، گہرے پِیچ رنگ میں جارجٹ کا کیا حسین و دل نشین سے پہناوا ہے۔ بہت ہی نفیس ہینڈ ایمبرائڈری نے قمیص و دوپٹے کو اس قدر دل آویز سا لُک دے دیا ہے کہ نگاہ ہٹانا مشکل ہے۔ رائل بلیو رنگ پلین پہناوے کے ساتھ شیشہ ورک سے آراستہ سلک کے ملٹی شیڈڈ دوپٹے کی ہم آہنگی کا جواب نہیں، تو سیاہ رنگ پلین ٹراؤزر کے ساتھ سفید چکن کاری شرٹ اور نیٹ کے دوپٹے کی ندرت و جاذبیت بھی کمال ہے۔ 

لال و پیلے کے سدا بہار، بہت اسٹرانگ کامبی نیشن میں سلک اور بنارسی فیبرک کے تال میل کے ساتھ کڑھت کی ہم آمیزی لیے ایک حسین جلوہ ہے، تو خواتین کے موسٹ فیوریٹ کلر، جیٹ بلیک میں (کہ اس کا موسم کبھی بدلتا ہے، نہ ہی حُسن ماند پڑتا، فیشن ختم ہوتا ہے) سفید تھریڈ ورک سے خُوب مزیّن انداز کے تو کیا ہی کہنے۔

سچ کہیں، ہمیں تو آج اپنی بزم پر خُود ہی پیار آگیا۔ سلیم محی الدین کا کلام خُوب صادق آتا محسوس ہوا کہ ؎ ’’یہاں وہاں کچھ لفظ ہیں میرے، نظمیں، غزلیں تیری ہیں…رنگ، دھنک یہ مہکا بادل، سب تصویریں تیری ہیں…تنہا رہوں یا بھیڑ سے گزروں، تنہا مَیں کب ہوتا ہوں…یوں لگتا ہے جیسے، مسلسل مجھ پہ نگاہیں تیری ہیں…تنہا ساحل، خواب گھروندا، آس جزیرہ میرا ہے…نیلا بادل، سات سمندر، پانچ زمینیں تیری ہیں…حُسنِ جاناں، عشق کا جادو، رقص و مستی، درد کی لے…اس محفل کی جلتی بجھتی ساری شامیں تیری ہیں…دو حصوں میں بٹی ہے کیسے یہ دنیا، یوں جانا ہے…خواب ہیں جتنے سب میرے ہیں، سب تعبیریں تیری ہیں۔‘‘ اب آپ جب اِن رنگ و انداز کو اپنائیں گی، تو آئینے کو کتنا پیار آئے گا، بےاختیار کیا گنگنانے کو جی چاہے گا، ہمیں بھی بتائیے گا۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید