تحریر: نرجس ملک
ماڈل: میشو چوہدری
ملبوسات: راز کلیکشن بائے سلمان
آرائش: SLEEK BEAUTY SALON (Lahore)
کوآرڈی نیشن: محمّد کامران
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
کہیں پڑھا کہ ’’جو لوگ عورت کی عُمر اُس کے چہرے سے پڑھتے ہیں، وہ دراصل اَن پڑھ ہیں۔ عورت اپنی بیش تر عُمر اپنے دِل کی بھول بھلّیوں میں کہیں جیتی ہے۔ اپنے رشتوں میں سانس لیتی اور اپنے ہر رشتے میں اپنی توانائی پھونک دیتی ہے۔ مکان کو گھر بناتی اور پھر اُسی گھر کے ہر ایک کونے میں تھوڑا تھوڑا جیے جاتی ہے۔
اپنے اُس پیار بَھرے گھروندے میں جلے پیر کی بلّی کی طرح گھومتے ہوئے اکثر اپنے آپ سے مُکرتی رہتی ہے، مگر اپنے خوابوں اور اُن کی تعبیروں کو اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کی آنکھوں میں موتی، ستاروں کی طرح ٹانک دیتی ہے اور بس… یہی سبز موسم اُس کی کُل محبّت، پوری کائنات ہے۔ اور… ’’محبّت‘‘ بھلا کب بوڑھی ہوتی ہے۔ سو، جو لوگ عورت کی عُمر اُس کے چہرے سے پڑھتے ہیں، وہ دراصل اَن پڑھ ہیں۔‘‘
اِسی طرح ایک اور مشہور مقولہ ہے کہ ’’عُمر، محض ایک ہندسہ ہے، آپ کی اصل عُمر وہی ہوتی ہے، جو آپ جی رہے ہوتے ہیں، جس کا آپ خود کو تصوّر کرتے ہیں۔‘‘ جب کہ ایک معروف برطانوی اداکارہ سے کسی صحافی نے اُس کی عُمر سے متعلق سوال کیا، تو اُس کا جواب تھا۔ ’’میرے خیال میں تو کسی عورت سے اُس کی عُمر سے متعلق پوچھنا انتہائی احمقانہ بات ہے۔ یہ ایک غیرمتعلقہ، ناموزوں سا سوال ہے۔
سوال اُن کام یابیوں،کام رانیوں سے متعلق ہونا چاہیے، جو عُمر کی دشوار گزار پگڈنڈیاں، سیڑھیاں الانگتے پھلانگتے حاصل کی گئیں۔ سوال اُن مشکلات، مسائل کے حوالے سے ہونا چاہیے، جن کا مقابلہ کرتے کرتے ہاتھوں، پیروں کی جِلد کُھردری، شفّاف پیشانی شکن آلود اور نوخیز چہرہ جُھریوں زدہ ہوا۔
سوال اُن محبتوں، رشتوں سے متعلق ہونا چاہیے، جو اِس مشکل، کٹھن سفر میں ہم سے کھوگئے، اُن حسین ترین لمحات سے متعلق ہونا چاہیے، جو جہدِ مسلسل کی دشواریوں، کٹھنائیوں میں ہم جی نہ سکے، ہمارے ہاتھوں سے پھسل گئے۔‘‘ اور پھر وہ تو زبانِ زدِ عام سی بات ہے کہ ’’مرد اپنی تن خواہ اور عورت اپنی عُمر کبھی صحیح نہیں بتاتے۔‘‘
ویسے کسی کو بھی، کسی کی بھی اصل عُمر جاننی کیوں ہوتی ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ لوگ گوگل کرکر کے خواتین سلیبریٹیز کی اصل عُمر معلوم کر رہے ہوتے ہیں اور پھر کتنی ہی فن کار خواتین اس ضمن میں سفید جھوٹ بولتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔
ہونا تو یہی چاہیے کہ جو چہرے مُہرے سے جس عُمر کی بھی نظر آتی ہو، اُسے اُسی عُمر کا مان لیا جائے۔ اگر کوئی عُمر چور ہے یا اپنی عُمر سے بڑی نظر آتی ہے۔
کوئی اپنی عُمر کی مناسبت سے زیب و زینت، بنائو سنگھار پسند کرتی ہے یا کوئی عُمر رسیدگی کے باوجود بہت زندہ دل، شوقین مزاج ہے، تو ہر ایک کو اُس کی پسند، ناپسند، مرضی و منشا کے مطابق جینے، سجنے سنورنے کا پورا حق حاصل ہے، خصوصاً عورت کا تو یہ فطری و ازلی حق، گویا اُس کے خمیر میں گوندھا، سرشت میں گھول دیا گیا ہے۔
ان دِنوں مُلک بھر میں موسمِ گرما گویا جوبن پر ہے۔ گرمی کی حدّت و شدّت اور کچھ ماحول کے شدید تنائو نے جسم و جاں ہی نہیں، قلب و ذہن بھی گرما، دہکا سے رکھے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ روزمرّہ سرگرمیاں، ہلکی پُھلکی تقریبات، کہیں آنا جانا، خصوصاً ملازمت پیشہ خواتین کا روز تیار شیار ہوکر اپنے ورک پلیسز پر جانا تو لازم ہی ٹھہرا۔ اور اب اِس آگ برساتی گرمی میں لان، کاٹن کے ملبوسات کے سوا تو کسی فیبرک کے استعمال کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سو، اِن دنوں ہم زیادہ تر ایسے ہی ہلکے پُھلکے پہناووں کے انتخاب کے ساتھ حاضرِ خدمت ہو رہے ہیں۔
جیسا کہ آج کی بزم رنگا رنگ تھری پیس، ٹوپیس، میچنگ سیپریٹس اور کنٹراسٹ پہناووں سے مرصّع ہے۔ ذرا دیکھیے، بلیو جیسے نرم، ٹھنڈے، دل آویز، دوستانہ رنگ میں، ایک سے ایک حسین پرنٹ سے مزیّن چار پہناوے ہیں۔ جن کے ڈھیلے ڈھیلے، سادہ سے اندازِ بناوٹ نے اُنہیں کچھ اور بھی حُسن و دل کشی عطا کی ہے، تو ساتھ ہی خوش گواریت اور راحت و سُکون کا احساس بھی دو چند کردیا ہے۔
رائل بلیو، نیوی بلیو، کیڈٹ بلیو اور سُرمئی مائل نیلے رنگ کے اِن ملبوسات کے پھولوں بَھرے پرنٹس موسم و ماحول کی سختی بہت حد تک کم کرتے محسوس ہو رہے ہیں، تو آف وائٹ بیس پر سُرخ گلابوں کی مہک لیے پہناوے اور اِسی طرح سیاہ زمین پر سُرخ و سفید گلاب دار پرنٹ کی سُندرتا اور دل آویزی کے بھی کیا ہی کہنے۔
اُس پر عُمر بھی وہ ہے، جس میں کیکر پر بھی پھول آجاتے ہیں، تو زیبائش و آرائش کی موزونیت، پھبن تو پھر مشروط، لازم و ملزوم ہی تھی۔ سو، اِن حسین و دل نشین رنگ و انداز کو آپ اپنے مُوڈ کے حساب سے جب، جہاں، جیسے اپنانا چاہیں، اپنا سکتی ہیں۔ تن مَن ہی نہیں، آئینہ بھی بے اختیار گنگنا اُٹھے گا ؎ کہیں گلاب، کہیں سبز گھاس رہنے دو..... چمن کو میرے ذرا خوش لباس رہنے دو۔