’’پیارے عبدالرشید آج تم کچھ بجھے بجھے سے لگ رہے ہو۔ خیریت تو ہے؟‘‘
’’میرے پیارے دوست ناصر حسین میں تمہارا ممنون ہوں کہ تم نے میری خیریت پوچھتے ہوئے صرف آج بجھا بجھا سا دکھائی دینے کی بات کی ہے ورنہ میں تو وہ چراغ ہوں جس کا تیل ختم ہو چکا ہے اور ہوا کا کوئی تیز جھونکا مجھے کسی وقت بھی بجھا سکتا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہے تم آج کچھ زیادہ ہی مایوسی کی باتیں کررہےہو ؟
’’مایوسی کی باتیں کیوں نہ کروں، شوگر دو سو تک پہنچی ہوئی ہے، بلڈپریشر نارمل ہونے کا نام نہیں لے رہا‘‘
’’تمہارے گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر نے مصنوعی گھٹنے ڈالنے کا مشورہ دیا ہے۔‘‘
’’تم ایک جعلی حکیم کی گولیاں استعمال کررہے تھے ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوا؟‘‘
’’اسی بدبخت حکیم نے تو میرا بیڑہ غرق کیا ہے۔ اس کی پہلی دو چار خوراکیں کھانے سے یوں لگا جیسے مجھے کبھی گھٹنوں کا درد تھا ہی نہیں۔‘‘
’’اور اس کے بعد؟‘‘
’’اور اس کے بعد گھٹنے سوجنا شروع ہوگئے اور میں چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوگیا۔ حکیم گولیوں میں اسٹرائیڈ استعمال کرتا ہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہیں خیر تم میری چھوڑو اپنی سنائو دن کیسے گزر رہے ہیں؟‘‘
’’دن کیا گزرنے ہیں دانت سارے گر گئے ہیں، کمر میں درد رہتا ہے، پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہے، پائوں ہر وقت سوجے رہتے ہیں۔
’’کسی سے علاج کرا رہے ہو۔‘‘
’’مختلف امراض کیلئے مختلف ڈاکٹروں کے زیر علاج ہوں اس کے علاوہ ایک پیر صاحب سے دم بھی کراتا ہوں، نیز کوئی ملنے والا اگر کوئی ٹوٹکا بتاتا ہے تو وہ بھی کر کے دیکھ لیتا ہوں۔‘‘
’’میرا بھی یہی معاملہ ہے مگر کچھ لوگ تو بہت عجیب عجیب ٹوٹکے بتاتے ہیں۔‘‘ ’’مثلا؟‘‘
’’مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ کسی نوے سالہ بابے کی دھوتی لے کر ایک بالٹی پانی میں رات بھر ڈبو کر رکھو اور اگلے روز سے یہ پانی نہار منہ دو دوگھونٹ کر کے پینا شروع کرو یہ کورس ایک مہینے کا ہے اور شوگر کیلئے اکسیر ہے۔‘‘
’’کیا خیال ہے لوگ اس قسم کی باتیں کر کے ہم بابوں کا مذاق نہیں اڑاتے؟
’’ یہی معاملہ ہے، اصل میں نئی نسل کی آنکھوں کا پانی مر گیا ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز ہی نہیں رہی۔اور تم دیکھ رہے ہو لڑکیاں کس قدر واہیات لباس پہننے لگی ہیں۔
اور کیا؟ جب اس لباس میں وہ موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتی ہیں تو قمیض کچھ اور کھسک جاتی ہے۔ نوجوانوں کا اخلاق کیوں خراب نہ ہو۔
یہ تو کچھ بھی نہیں ہمارے موبائل گندگی سے بھرے پڑے ہیں اس کے علاوہ پاکستانی رقاصائیں تھیٹر کو چھوڑ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے میلے میں برہنہ رقص کرنے لگی ہیں مجھے اس پر اعتبار نہ آیا چنانچہ میں ایک دن خود دیکھنے چلا گیا اور کانوں کو ہاتھ لگاتا رہا مجھے یقین نہیں آتا کہ ایسا ہوسکتا ہے؟‘‘
’’خود مجھے بھی یقین نہیں آتا تھا چنانچہ جس نوجوان نے مجھے بتایا کہ ایسا ہورہا ہے تو میں اس کے ساتھ میلے میں چلا گیا مگر اس کے باوجود میری آنکھوں کو یقین نہ آیا چنانچہ میں دوسرے دن بھی گیا لیکن اس مرتبہ بھی مجھے یہی لگا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے چنانچہ تین چار بار دیکھنے کے بعد یقین آیا کہ یہ نظر کا دھوکا نہیں حقیقت ہے۔ ناصر حسین! قوم کس طرف جارہی ہے؟‘‘
’’بھائی عبدالرشید یہ تو واقعی بہت افسوسناک صورت حال ہے میں تمہارے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم مجھ سے جھوٹ بولو گے، اس کے باوجود میں تمہاری طرح سنی سنائی باتوں پر یقین کر لینے کو گناہ سمجھتا ہوں اگر ہوسکے تو کسی دن مجھے بھی ساتھ لے جائو ۔
’’ٹھیک ہے، یہ نیک کام آج ہی کرتا ہوں ویسے میں نے تم سے ایک مشورہ بھی کرنا تھا۔‘‘
’’ ضرور کرو، دوست ہوتے کس لئے ہیں؟‘‘
’’تمہیں معلوم ہے میری زوجہ بہت عرصے سے بیمار چلی آرہی ہے۔‘‘
’’نہیں مجھے تو علم نہیں کیا پرابلم ہے ہماری بھابھی کو؟‘‘
’’اسے اکثر نزلہ، زکام رہتا ہے چنانچہ چھینکنے پر آتی ہے تو چھینکتی ہی چلی جاتی ہے۔
اوہو، یہ تو واقعی بہت خطرناک بیماری ہے، تمہیں یقیناً کسی ہمدرد نے عقد ثانی کا مشورہ دیا ہوگا۔
’’بالکل بالکل، تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘
’’میری بیوی بھی ایک تشویشناک بیماری میں مبتلا ہے۔ رات کو سوتے میں خوفناک خراٹے لیتی ہے اور پھر ان کی گونج سے خود ہی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی ہے چنانچہ نہ وہ رات کو چین سے سو سکتی ہے اور نہ میں صحیح طرح سو پاتا ہوں لہٰذا میرے ایک ہمدرد نے مجھے بھی عقدثانی کا مشورہ دیا ہے ۔
’’پھر تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘
’’میرے محلے میں ایک یتیم لڑکی ہے۔ اسے سہارا دینے کا سوچ رہا ہوں ویسےتمہاری نظروں میں بھی کوئی ہو تو مجھے بتانا۔
میری فیکٹری میں بہت سی بے سہارا لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بہت خوبصورت ہے مگر مجھے اس کی خوبصورتی سے کیا لینا دینا ہے مگر وہ مجھے دوسروں کی نسبت زیادہ ضرورت مند لگتی ہے۔ میں نے اس سے عقد کا ارادہ کیا ہے مگر گھریلو فساد سے بچنے کیلئے فی الحال خفیہ رکھوں گا۔ دعا کرو اللہ تعالیٰ میری یہ نیکی قبول فرمائے اور ہاں اگر وہ میلہ جا رہے ہو تو مجھے ضرور ساتھ لے جانا ۔