• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا گیا، کچھ ہلکا پُھلکا لکھیں۔ اُس قوم کے لیے کیا ہلکا پُھلکا لکھیں، جِسے روٹی کا پُھلکا قبول نہیں اور پیٹ کا ہلکا ہمیں منظورنہیں۔ اب بات چل ہی نکلی ہے، ہلکے پُھلکے کی، تو سمجھ یہ آئی کہ پُھلکے کے کلچر کو تو اِس ’’فوڈ پانڈا‘‘ نے نگل لیا کہ اُس کے بجائے ہماری نئی نسل نے پزا، پاستا، لزانیہ چاؤمِن، منچورین اور سنگاپورین رائس سمیت بہت سے ایسے نام جو رٹ رکھے ہیں کہ جو ہماری تو زبان پر بھی نہیں چڑھتے۔ 

مَن چلے کا سودا بھی نہیں کہ جو مَن میں آئے، کہہ دو۔ اب تو گھر میں جو فرد، مرد یا گرد بھی آ جائے، اُسے فیس بُک، انسٹا اور ٹک ٹاک پر بہانا ہے کہ یہ وہ دَور ہے، جس میں ’’سب کچھ‘‘ کہہ دینے کے بھی پیسے ملتے ہیں اور یہ تو ہم اپنے دَور ہی سے سُنتے آ رہے ہیں کہ’’ باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیا‘‘ اِس روپے کی بھی بھلی کہی، کہیں ٹین پرسینٹ، سینٹ پرسینٹ پرناک آؤٹ ہوجائے، تو ہم اُسےآئوٹ نہیں ٹاؤٹ کہتے ہیں، وہ بھی ’’اُن‘‘ کا۔ 

اب کوئی یہ نہ پوچھےکہ یہ ’’اُن‘‘ کون ہستی ہے؟؟ یہ اُن کا، کن کا، کون کا، جن کا، جو بھی ہیں، مافوق الفطرت ہی ہیں۔ یہ زمین زادے تو ہوتے ہیں، مگردعوے دارعرش نشینی ہی کے رہتے ہیں۔ یہ جی ایٹ والے بھی ہوسکتے ہیں اور جی ٹین والے بھی کہ جی ایٹ سے جی ٹین والوں کے گہرے تعلقات ہیں، اب کوئی پوچھے ہے، یہ جی ٹین والےکون؟ تو بھئی، وہی اپنے مارگلہ کے بغل، پہاڑوں کے دامن میں، مَری کے پڑوس والے، جو اُٹھاتے، بٹھاتے، گراتے، گرماتے ہیں اور پھر یہ سب کچھ کرکے سینوں پرسجاتے بھی ہیں۔ کیا…؟ تمغے، اور کیا… اور اپنے ہی سینوں پر نہیں،ماہ جبینوں، نازنینوں، دل نشینوں کے کاندھوں پر بھی۔ 

یہ تمغے قوم کی خدمات کے نام پر سجائے جاتے ہیں اور قوم ان مہ وَشوں کی حیاتِ جاودانی کے قصّے سُن سُن کر حریمِ اقتدار میں ’’حریمِ ناز‘‘ کی شاہانہ اینٹریاں دیکھ دیکھ کرانگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ اور پھر، وجہ ڈھونڈنے پر پتا یہ چلتا ہے کہ یہ شاہانہ ادائیں، مہ وَشوں کی گُم نام صدائیں ہی اِن تمغوں کا کارن ٹھہری ہیں۔

بات نکلی، توطولِ شبِ فراق کی طرح پھیلتی ہی جارہی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ کچھ چیزیں تواب ’’قصّۂ پارینہ‘‘ ہی ہوگئیں، جیسے دوپٹا اب محض ’’پٹّے‘‘ کی شکل اختیار کر چُکا ہے۔ اِسی طرح زلفِ دراز بھی مغلیہ سلطنت کی عُمرِدراز کے مثل ٹھہری، جو آدھی آرزو میں کٹ کر بقیہ انتظار کی کوفت میں مبتلا ہوئے بغیر نہایت رعونت سے کہہ دیا کرتی ہے کہ ’’تُو نہیں اور سہی، اور نہیں، اور سہی‘‘ وقت کے ہرجائیوں کا یہ طور صحیح تو نہیں، مگر رائج ضرور ہے۔ 

رائج کی بھی بھلی کہی، ہمارے زمانے میں بعوض سکّہ رائج الوقت، اپنی زندگی کا انتساب ہمیشہ کے لیے کسی ایک کے نام کردینے کو رشتۂ اِزدِواج میں منسلک ہونا کہا کرتے تھے، مگر آج اِس ’’رشتہ اِزدِواج‘‘ میں سے لفظ رشتہ منہا ہوچُکا ہے، محض اِزدِواج ہی رہ گیا ہے اور اُس میں بھی بس یہی بحث باقی بچی ہے کہ ’’ہم سے تو تمہارے رشتے نہ نبھاویں جائیں گے، تم ہمارے رشتے نبھا سکو تو نبھالو، ورنہ پتلی گلی سے نکل لو۔‘‘

اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا کہ یہ سٹکنا، لٹکنا، اُچکنا، اُچک کر تھرکنا، تھرک کر مٹکنا اور مٹکتے چلے جانا، فیس بُکی رشتےداریاں تو ہوسکتی ہیں، جن کے کارن پیسا کمایا جا رہا ہے، لیکن یہ آخری سانسوں تک کا حصار ہرگز نہیں کہ جس میں اِخلاص کا وقار، پیسے کے چمتکار سےکہیں زیادہ اہم ہوا کرتا تھا۔ 

جب جنم جنم تک ساتھ نبھانے والے آخرت کی تیاری بھی ایک دوسرے کی ہم راہی میں کیا کرتے تھے۔ دلہنیا کے آنچل پر نمازِعشق کی ادائی اور دلہن سے قرآنِ کریم کی تلاوت سُننے والے زوجین کی باہمی الفت و محبّت کے فقط فانی دنیا میں ہی خواہاں نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ اِس ساتھ کو جنّت الفردوس تک پہنچا دینےکی سعی کیا کرتے تھے اور آج اِزدِواجی زندگی کے ماہ و سال ہی تنگیٔ داماں کاشکار ہوئے جاتے ہیں۔ 

مغربی تہذیب کے’’بریک اَپ‘‘ کی صدائیں ہمارے گھروں میں گونجنے لگی ہیں۔ گونجنے سے یاد آیا، ہمارے زمانے میں مُنّی کی بدنامی اور شیلا کی جوانی کے قصّوں کی گونج سنی جاتی تھی اور آج کل نک دے کوکے نے انت مچا رکھی ہے۔ کبھی وہ ناک کے اندر ہوتا تھا، آج کل ناک سے باہر ڈبیا میں قید ہے۔ اب قید کی کیا کہویں، قید تو شاید ہر شخص ہی ہے یہاں، کیوں کہ یہ دنیا ہے ہی قیدخانہ۔ 

جب جسم سے رُوح کا پنچھی نکل بھاگے گا، تب ہی آزادی نصیب ہوگی، وگرنہ تو کہیں فرد اپنے نفس کا قیدی ہے، تو کہیں فرد، فرد کا قیدی۔ کہیں کوئی کسی گروہ کا قیدی ہے، تو کوئی کسی فرقے کا ۔ کوئی فقیہہِ شہر کا قیدی ہے، تو کوئی جبرواستبداد کے نظام کا ۔ اور دنیاوی زندگی میں یہ قید دراصل رب العالمین کی حاکمیت تسلیم نہ کرنے والے چند عاقبت نااندیشوں کے سبب درپیش ہے کہ اصل حاکمیت صرف رب العالمین کی ہے اور جہاں انسان اپنی حاکمیت جتانے کی کوشش کرتا ہے، وہیں سے اِک فساد کا آغاز ہوتا ہے اور پھر قید و بند کی صعوبتیں بھی سہنی پڑتی ہیں۔

بات چل نکلی ہے صعوبتوں کی، تو یہ کہنا بےشک آسان ہے کہ زندگی مشکل ہے، مگر اس مشکل کو آسان بنانا، درحقیقت کہیں زیادہ مشکل ہے۔ ہاں، مگر ناممکن نہیں۔ اِس کا ایک سادہ ساکُلیہ بھی خُود ربِ کائنات نے انسان کو ودیعت کر رکھا ہے کہ ’’ہر مشکل کے بعد آسانی ہے…‘‘ انسان اگر صرف اسکلیے ہی پر کامل یقین رکھے، تو اُس کی تمام ترمشکلات نہ صرف حل ہوجائیں بلکہ تکالیف میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے،بس یقین شرط ہے۔ اور…یقین کسی کے دلانے سے نہیں آتا۔ 

یہ کیفیت تو دل کے نہاں خانوں سے آپ ہی آپ پھوٹتی ہے اور رگ و ریشے کو تر کرتی، ذہن کے تخیلات اور قوتِ پرواز کو مہمیز دیتی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب راسخ یقین، کاملیت کے درجےتک پہنچ جاتا ہے، تو ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن جاتا ہے کہ جسے سرکرنا پھر کسی دشمن کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اگر ہر فرد اپنے اندر ایسے پہاڑ کو نمو دے لے، تو پھر کام یابیاں ہی کام یابیاں قدم چومتی ہیں۔ کسی وقتی ناکامی کو بھی آپ ناکامی کے طور پر نہیں دیکھتے کہ ایک کی ناکامی، بہرکیف کسی دوسرے کی کام یابیبھی تو ہوتی ہے۔ 

دماغ کہتا ہے کہ آپ کا دوسرے یا تیسرے نمبر پر آنا ہی کسی کے پہلے نمبر پر آنے کاباعث بنا ہے، تو اُس کی کام یابی یہ سوچ کر سیلیبریٹ کی جاتی ہے کہ اُس میں کہیں نہ کہیں ہمارا بھی ہاتھ ہے۔ بس، سوچ کا زاویہ بدلنے کی دیر ہوتی ہے، احساسات شُکر کے درجے پر پہنچ جاتے ہیں اور شُکر ہی تو نعمتوں کے دوام کا باعث بنتا ہے۔ کہا گیا ہے، تم شُکر کرو، مَیں بڑھا کردوں گا۔ اور اضافی لینا کسے اچھا نہیں لگتا ہے۔ ادل، بدل کی زندگی توکوئی بھی گزارسکتا ہے، زندگی گزارنے کا اصل مزہ توتب ہے، جب کسی کےساتھ بےلوث، بےغرض ہو کے، بڑھ چڑھ کے اچھا برتاؤ، لین دین کیاجائے۔

ارے… یہ ہلکے پُھلکے کی مَد میں، کچھ باتیں کچھ زیادہ ہی ثقیل نہیں ہوگئیں۔ شاید ہلکا پُھلکا تو بس ایک بسکٹ ہی ہوتا ہے۔ باتیں شروع ہو جائیں، تو پھر اُن کا وزن تو سہارنا ہی پڑتا ہے اور وہ باتوں کا وزن، حجم ہی تو ہوگا، جو روزِ آخرت اچھائی، برائی کا پلڑا گرائے یا اُٹھائے گا۔ نامۂ اعمال دائیں یا بائیں ہاتھ پکڑوائے گا۔ سو، جب بھی بولیں، سوچ سمجھ کر بولیں۔ 

اچھا بولیں، میٹھا بولیں۔ کچھ نہ سمجھ آرہا ہو، تو خاموش رہیں۔ کوشش کریں، دوسروں کو زیادہ سے زیادہ سُنیں۔ یاد رکھیں، جس قدر کم گوئی ہوگی، مصائبِ زندگی بھی کم سےکم ہوتے چلے جائیں گے۔ تو چلیں، اب اِسی ہلکی پُھلکی بات پہ بات ختم کیے لیتے ہیں کہ بات سے بات نکلتی رہے، تو صفحات کے صفحات کالے ہوجاتے ہیں،باتیں ختم نہیں ہوتیں۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائےصفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

پچھتاوا( شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ ) والدین کی دُعا، بُھول جا، زندگی ہے تو رفاقت بھی ہے، بات ہے دل کی( مبشرہ خالد)خاموش چیخیں ( اسما عُمیر صدیقی) سچّائی ہمیشہ جیتتی ہے (حسیب نایاب منگی) اصلیت(نسرین اختر نینا، اسلام آباد) پچھتاوا (مجاہد لغاری، ٹنڈو الٰہیار) کہانی(قراۃالعین لطیف، فاروق آباد) ماما یاد آتی ہے (بُشریٰ ودود، کراچی) اُف یہ باجی رولا(زہرا یاسمین، کراچی )بھینس کے آگے بین بجانا (افروز عنایت، کراچی)۔

ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار

ماں(ارسلان اللہ خان ارسل، حیدرآباد )مجاہدین کی ماؤں کو خراج تحسین (صبا احمد)۔