• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلثوم پارس

’’باباجی!! گلی میں کیچڑ ہے، ٹِک کے گھر بیٹھ جاؤ۔ تمہاری سینچری پوری ہوچُکی ہے۔ اِس عُمر میں تو تمہارے اسپئیر پارٹس بھی نہیں ملیں گے۔‘‘ ’’سینچری کے بعد ہی تو کُھل کر کھیلنے کا مزہ آتا ہے۔ تم جیسوں کو تو دو منٹ میں آؤٹ کردوں۔‘‘ بابا جی نے اپنے لرزتے سَر اور لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ لڑکوں کو کرارا سا جواب دیا۔ لڑکے روز بابا جی کو مسجد جاتے ہوئے ایسے ہی تنگ کرتے تھے۔ 

بابا جی کی عُمر تقریباً ایک سو سال ہو چُکی تھی۔ اُن کے سَر پر دوبارہ کالے بال آنا شروع ہوگئے تھے۔ بابا جی کو جب سے لگن لگی، تو اُنہوں نے کئی بارقرآن پڑھا۔ ہر بار وہ پیچھے سے بھول جاتے، مگر دُھن کے پکّے تھے۔ دوبارہ الحمدللہ سے شروع کر دیتے اور کئی برسوں پر محیط یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا تھا۔ وہ روزانہ ہرحال میں دیوار اور اپنی چھڑی کا سہارا لے کر مسجد پہنچ جاتے۔

بابا جی قاری صاحب کے علاوہ کسی کو سبق نہیں سُناتے تھے۔ مگر دو تین روز سے قاری صاحب اپنے کسی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے اور اپنی جگہ کسی دوسرے مدرسے کے ایک حافظ صاحب کو چند روز کے لیے قائم مقام بنا گئے تھے۔ 

دو تین دن سے سب بچّے حافظ صاحب کو سبق سُنا کر چُھٹی کر جاتے، مگر بابا جی کی نظریں روز کی طرح آج بھی مسجد کے داخلی دروازے پر ٹکی تھیں۔ جب قاری صاحب کے آج بھی آنے کی اُمید دَم توڑنے لگی، تو بابا جی منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے اپنے آگے رکھے موٹے موٹے حروف والے مصحف کو کپڑے کے غلاف میں لپیٹنے لگے۔

اگلے دن بھی بابا جی سب بچّوں سے پہلے مسجد جا پہنچے اور مصحف کھول کر اپنا سبق یاد کرنے لگے۔ ’’بابا جی! آپ کہیں تو مَیں آپ کو گھر چھوڑ آؤں؟‘‘ حافظ صاحب نے بابا جی سے نرمی سے کہا۔ ’’نہیں بیٹے! میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ آج مَیں قاری صاحب سے مل کے ہی جاؤں گا۔‘‘ ’’مگر بابا جی! کل بتایا تو تھا کہ قاری صاحب کو شہر سے لوٹنے میں وقت لگے گا۔‘‘ بابا جی نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے مصحف کو بوسہ دیا اور غلاف میں بند کرتے ہوئے پھر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائے۔ ’’بابا جی! آپ کو کس سے مُہلت لینی پڑے گی؟ کس کو عرضی بھیجنی پڑے گی؟؟؟ 

آپ کل بھی یہی کہہ رہے تھے۔ حافظ صاحب نے آخر پوچھ ہی لیا۔ ’’ہے کوئی میرا یار! مُجھے اُس سے ملنے کی جلدی ہے، مگر قاری دیر کر رہا ہے۔ وہ آجاتا، تو میرا کام آسان ہو جاتا۔ پھر بےفکری ہی بے فکری تھی اگر… یار نے اور مُہلت نہ دی تو میرا اپنے آپ سے کیا وعدہ کہیں ٹوٹ نہ جائے۔‘‘ حافظ صاحب، بابا جی کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے، مگر اُن کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا کہ کون سا وعدہ، کون سا یار اور کون سی مُہلت…؟؟

…٭…٭…٭…٭…

’’کہانی سنو گے؟‘‘ بابا جی نے اپنے خُشک ہونٹوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہوئے حافظ صاحب سے پوچھا۔ حافظ صاحب نے بابا جی کے آگے سے رحل اُٹھا کر الماری میں رکھی اور آلتی پالتی مار کر بابا جی کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ ’’ہاں تو بزرگو! شروع کرو…‘‘حافظ صاحب نے کہا۔ بابا جی نے بھی بغیر کسی تردّد کے کہانی سُنانا شروع کردی۔ ’’ایک تھا نظام دین… کہنے کو تو وہ نظام دین تھا، مگر اُس کے پورے نظام میں دین کہیں بھی نہیں تھا۔

اُس کے ماں باپ بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے، مگر اُس کی بھابھی اور لالے نے اُسے بڑے لاڈ پیار سے پالا۔ اُسے کبھی گرم ہوا تک نہ لگنے دی۔ اُسے دُنیا کی ہر خوشی دی۔ اُس کی بھابھی ہی اُس کی ماں تھی۔ وہ روز اُسے تڑکے اُٹھاتی اور مولوی علم دین کے پاس بھیجتی۔

مگر وہ گھر سے مولوی علم دین کے پاس جانے کی بجائے کھیتوں کی طرف جاتی پگڈنڈی پر تب تک چلتا رہتا، جب تک کھیتوں سے چڑھتے سورج کو نہ دیکھ لیتا۔ کھیتوں کے اوپر چڑھتے سورج کا منظر اُسے بڑا ہی سُہانا لگتا تھا۔ وہ پُھولوں کے اوپر ٹھہرے ننّھے ننّھے شبنم کے قطروں کو اپنے ہاتھوں پر لیتا اور اپنے منہ پر مَل لیتا۔ 

ایک دن اُس کی چوری پکڑی گئی۔ مولوی علم دین نے اسے دو تین تھپّڑ رسید کیے اور لالے کو شکایت الگ لگائی۔ بس وہ دن کہ پھر دوبارہ کبھی نہ اُس نے علم دین کی اور نہ ہی علم دین نے اُس کی شکل دیکھی۔ آہ…!! وقت کا پہیا چلتا رہا اور ایک دن اُس کا لالہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ چند برسوں بعد اُس کی بھابھی بھی منوں مٹی تلے جا سوئی، مگر تب تک نظام دین ایک کڑیل جوان ہو چُکا تھا۔ وہ جب کبڈی کے میدان میں اُترتا تھا، تو بڑے بڑے پہلوانوں کو دُھول چٹا دیتا تھا۔ 

جاتے جاتے بھابھی، نظام دین کے سَر پر سہرا سجانے کا خواب پورا کر گئی تھی۔ اللہ نے اوپر، نیچے نظام دین کو دو بیٹوں سے نوازا اور بھائیوں کو گھوڑی چڑھانے والی ایک بیٹی بھی دی۔ مال ڈنگر، کھیت کھلیان، رزق اتنا تھا کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ کوئی دُکھ درد نظام دین کو چُھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ نظام دین اپنے اللہ سے کانوں تک راضی تھا۔ مگر… شاید… اُس کا ربّ اُس سے راضی نہیں تھا۔‘‘ باباجی نے ایک لمبی سانس لی اور خاموش ہوگئے۔

’’پھر کیا ہوا بابا جی…بابا جی، بابا جی…!‘‘ حافظ صاحب کی بے چینی بتا رہی تھی کہ اُن کو کہانی بہت دل چسپ لگ رہی ہے۔ ’’ہمممم… پھر کیا ہوا؟‘‘بابا جی دوبارہ گویا ہوئے۔ ’’پھر ایک دن نظام دین اپنے بیوی اور آل اولاد کے ساتھ، قریب کے ایک گاؤں میں میلہ دیکھنے گیا۔ دن بھر کھیل کود اور موج مستیوں کے بعد جب سب تھکے ماندے گھر لوٹے، تو نظام دین کی بیوی بھاگ بَھری نے سب کو پیتل کا ایک ایک بڑا گلاس دودھ کا پینے کے لیے دیا۔ جو کہ کاما باڑے سے دھو کر شام ہی کو رکھ گیا تھا۔

بھاگ بَھری اور سب بچّے دودھ پی کے سو گئے۔ نظام دین نے چارپائی پر اپنی کمر سیدھی کی اور روز کی طرح اپنے ربّ کا شُکر ادا کیے بغیر ہی غفلت کی نیند سوگیا، جب کہ دودھ کا گلاس سرہانے دھرے کا دھرا رہ گیا۔ تڑکے جب کاما بھینسوں کا دودھ دھو کے لایا۔ صحن میں پڑی چارپائیوں پر سب کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ 

اُس گھر میں ہر طرف گُھور رات والی خاموشی تھی، جب کہ باقی سب جگہ زندگی کا شوروغُل تھا۔ رات والے دودھ میں سانپ کا زہر تھا۔ اُس کی بھاگ بَھری اور تینوں بچّے سب کے سب مَر گئے اور نظام دین غفلت کی نیند سوتا رہا۔‘‘ اتنا کہہ کر بابا جی نے دیوار کے ساتھ سَر کی پشت ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ 

مسجد میں سنّاٹا چھا گیا۔ گرمیوں کی دوپہر، سردیوں کی رات جیسی خاموشی ہوگئی۔ گہری، پُراسرار خاموشی۔ ’’تو کیا پھر نظام دین غفلت کی نیند سے جاگا؟؟‘‘حافظ صاحب نے بابا جی سے پوچھا۔ ’’ہاں، میرے بچّے! جاگا…جاگا نظام دین غفلت کی نیند سے۔ ایسا جاگا کہ پھر وہ کبھی اپنے ربّ کی یاد سے غافل نہ ہوا۔‘‘ ’’تو کیا نظام دین ابھی زندہ ہے؟؟‘‘حافظ صاحب نے پھر پوچھا۔ ’’پتا نہیں، زندہ ہے یا مَرگیا۔

شاید زندہ ہے، شاید مرگیا۔ شاید میرے ساتھ ہی ہوتا ہے۔‘‘ بابا جی کی خود کلامی پرحافظ صاحب نے ایک لمبی سانس خارج کی۔ اور بابا جی اپنے گُھنٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اٹُھ کرمزید کچھ کہے سُنے بغیر مسجد کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔

…٭…٭…٭…٭…

’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے…‘‘بابا جی نے قاری صاحب کو دیکھتے ہی کہا۔ آج بابا جی کا قرآن ختم ہونا تھا اور وہ اپنے ساتھ مٹھائی کا ڈبّا بھی لائے تھے۔ بابا جی کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ قاری صاحب سے بولے۔ ’’قاری صاحب! وقت بہت کم ہے۔ مَیں دوستوں کو زیادہ انتظار نہیں کروانا چاہتا کہ پھر میری پیشی ہے۔ 

ذرا جلدی سےمیرا آخری سبق سُن لیں۔‘‘ قاری صاحب نے بابا جی کی بے چینی دیکھی، تو فوراً ہی اُن کا سبق سُننے لگے۔ بابا جی بہت لُطف و سرود کی سی کیفیت میں اپنا سبق سُنا رہے تھے۔ اور پھر… باباجی ایک دل نشین مسکراہٹ کے ساتھ سورہ ٔوالنّاس کے آخری سین کے ساتھ ہی مصحف پر سجدہ ریز ہوگئے۔

نظام دین نے اپنے رب سے مہلت ہی اتنی مانگی تھی کہ بس جب تک اُس کا قرآن مکمل نہ ہوجائے، اُسے موت نہ دے۔ اور…اُس کے رب نے اُسے تب تک مہلت دی، جب تک اُس نے چاہی۔ ’’اور جب وقتِ مقرر آجاتا ہے، تو ٹالا نہیں جاتا۔‘‘ ( القرآن)