منگل کی صبح کراچی کے پسماندہ علاقے کچرے میں گھرے شادماں میں کامرانیوں اور خوابوں کی تعبیروں کے درمیان گزری۔ بہت تازہ ولولے، آگے بڑھنے کی امنگیں۔ ایسی سعید ہستیوں کیساتھ جو دوسروں کی زندگیاں آسان کرنے کیلئے اپنی نیک کمائی صرف کرتے رہتے ہیں۔1968ء میں قائم کردہ پاکستان آئی بینک سوسائٹی کے سربراہ قاضی ساجد علی اپنی تمناؤں کو حقیقت میں ڈھالتے ہوئے منہ کے کینسر کا مہنگا علاج مفت کرنے کا مرحلہ بھی عبور کرچکے ہیں۔ ہم سب پاکستان آئی بینک سوسائٹی ہسپتال کے آڈیٹوریم میں بیٹھے اپنا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر قاضی واثق ڈاکٹر شاہانہ ڈاکٹر کاشف دوسری ڈاکٹرز نرسیں رضاکار اپنے اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں۔ سلیم اسلام سہیل یاسین جمیل یوسف اور کئی عطیہ دہندگان کے نمائندے موجود ہیں جو کروڑوں روپے سالانہ عطیہ دے رہے ہیں۔ پورے پورے شعبے کے سالانہ اخراجات کی ذمہ داری لے رہے ہیں ہسپتال صرف قرنیہ کے آپریشن سے شروع ہوا تھا مرنے والوں کی زندہ آنکھیں سری لنکا سے آتی تھیں اور یہاں پاکستانیوں کی بینائی بن جاتی تھیں۔ پھر آنکھیں امریکہ سے بھی آنے لگیں۔ اب آنکھوں کے ہسپتال میں ڈائلیسز بھی مفت ہو رہا ہے۔ گٹکا نسوار کھانے سے خطرناک کینسر کا انتہائی مہنگا علاج بھی بلامعاوضہ۔ اس مرض کا شکار زیادہ تر غریب۔ محنت کش طبقہ ہو رہا ہے۔ ان کیلئے مفت علاج ایک بڑی خوشخبری ہے۔ خواتین کی چھاتی کے سرطان کا علاج بھی مفت۔ خدمت خلق کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ اب قاضی ساجد علی کے صاحبزادے قاضی یاسر بھی اس کارواں میں شامل ہو گئے ہیں۔ قاضی ساجد علی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پرعزم اور پرامید رہے ہیں۔ جنگ گروپ کی خدمات کا اعتراف کیا جا رہا ہے جب اس سوسائٹی کا کوئی دفتر بھی نہیں تھا صرف مہم تھی کہ انکھوں کا عطیہ دیا جائے۔ اخبار جہاں میں میں نے اہمیت کا احساس دلایا۔ جنگ میگزین میں جناب شفیع عقیل نے فیچر لکھا۔ جنگ کی طرف سے اب بھی 56برس گزرنے کے بعد یہ تعاون جاری ہے۔ پاکستان کے مستقبل کی خدمت اب یہ ہسپتال اس طرح کر رہا ہے کہ سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں کیمپ لگا کر اسکولوں کے بچوں بچیوں کی بصارت کے رضا کارانہ معائنے کئے جا رہے ہیں۔ بچپن میں ہی دیکھا جا رہا ہے کہ آلودگی کم غذا علاج معالجے کی سہولتیں نہ ہونے کی بنا پر بچوں کی انکھیں متاثر تو نہیں ہو ر ہیں۔ آج کی تقریب ’’اسکول آئی کلینک‘‘ کے حوالے سے ہی منعقد ہو رہی ہے۔ جرمنی کے قونصل جنرل مہمان خصوصی ہیں سری لنکا کے قونصل جنرل بھی موجود ہیں۔ جرمنی سے، ہائیڈل برگ سے روٹری کلب نے اسکول آئی کلینک کی سرپرستی قبول کی ہے۔ 60ہزار بچے بچیوں کی بصارت کا معائنہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ بلند قامت ڈاکٹر جہاں زیب بین الاقوامی طور پر منہ کے کینسر کے تربیت یافتہ اور تجربہ کار معالج خصوصی ہیں ان کی تقریر سن کر اقبال یاد آرہے ہیں ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘
…………
ایک ہمدم دیرینہ درد مند پاکستانی مرد باکمال کمال اظفر بھی اس ہفتے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ۔
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
جیکب لائنز کے فٹ پاتھ پر ایک سیاسی جلوس سے لیکر خیابان تنظیم میں ایک پرتکلف عشائیے تک کی نصف صدی سے زیادہ کی یادیں ذہن کے پردے پر لہرا رہی ہیں۔ یہ وہ سیاسی دور ہے جب ملاقاتیں ہوتی ہیں تو انقلاب فرانس پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ انقلاب روس کے چرچے چھڑتے ہیں۔چیئرمین ماؤزے تنگ کی سرخ کتاب کی باتیں۔کارل ماکس، گورکی ،مورخ ٹائن بی ۔نیوز ویک کے والٹر لپ مین۔ الاہرام کے محمد حسنین ہیکل کے حوالے دیے جاتے ہیں ۔بیرسٹرکمال کا سیاسی حلقوں میں تعارف مشہور عالم معیشت دان گنر مرڈال کی تصنیف’’ایشین ڈرامے‘‘ میں کمال اظفر کے ذکر سے ہوا تھا ۔جو یقیناًبڑا حوالہ تھا ۔ان کی پہلی سیاسی پارٹی میاں ممتاز دولتانہ کی پاکستان مسلم لیگ کونسل تھی۔ پھر وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ۔1970ءکے انتخابات میںوہ پی سی ایچ ایس کے انتخابی حلقے سے لڑ رہے تھے۔ جو ان دنوں جماعت اسلامی کا گڑھ تھا ۔انہیں فرزند کراچی کا لقب بھی دیا گیا۔ 1970 ءمیں پی پی پی کی فتح مندی پر ہم بھٹو صاحب کا انٹرویو کرنے کیلئے کمال اظفر صاحب کی گاڑی میں ہی لاڑکانہ گئے۔ امان اللہ خان گاڑی چلا رہے تھے پھر اسی گاڑی میں ہم بھٹو صاحب کیساتھ المرتضیٰ لاڑکانہ سے رائس کنال نہر کے کنارے کنارے سکھر روانہ ہوئے۔ انتخابی کامیابی کے بعد اسی گاڑی میں سب سے پہلے انٹرویو کی سبقت ہمیں مل رہی تھی۔ یہ انٹرویو ہماری کتاب’’لاڑکانہ سے پیکنگ‘‘ میں محفوظ ہے۔کمال صاحب شیخ مجیب الرحمٰن سے مذاکرات کیلئے ڈھاکہ جانیوالے وفد میں بھی شامل تھے۔ پھر ممتاز علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر خزانہ اور خالص عوامی وزیر رہے۔جیکب لائنز میں کم قیمت کے گھروں کی اسکیم ان کے نام سے ہی موسوم ہے ۔شہید بینظیر بھٹو نے انہیں اپنے پارٹی پلاننگ سیل میں رکنیت دی۔سندھ کے گورنر بھی بنائے گئے اور وہ گورنرہی تھے جب پیپلز پارٹی کی حکومت کو انکے ہی صدر فاروق لغاری نے برطرف کیا ۔سندھ اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن کمال اظفر گورنر سندھ کے نام سے ہی جاری کیا گیا ۔بہت صاحب مطالعہ قانون، آئین سیاست پر تازہ ترین کتابیں خود بک سیلر ان کے ہاں پہنچاتے تھے۔ ادب اور بالخصوص شاعری سے بہت دلچسپی۔ ایک آرزو تھی ان کی کہ افتخار عارف اور میرے ساتھ ایک شعری نشست رکھی جائے ۔افتخار عارف کی شاعرانہ عظمت کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے تھے ۔ان کے والد محترم محمد اظفرپاکستان کے ابتدائی با اصول سادہ لوح بیوروکریٹس میں تھے۔ اس طرح ان کے سسر ایس ایس جعفری بھی ایو بی دور میں وفاقی سیکرٹری صنعت تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جعفری صاحب نے ادب و دانش کی سرپرستی جاری رکھی۔ کمال صاحب کی رفیقہ حیات محترمہ ناہید جعفری بھی بہت صاحب مطالعہ ہیں ۔نامور مصور۔ دونوں نے اپنی اولادوں کی تربیت بہت ذمہ داری سے کی ۔ انکے صاحبزادے نوجوانی میں ہی انتقال کر گئے ماں اور باپ دونوں کیلئے یہ ایک بڑا صدمہ تھا، بیرسٹر کمال اظفر اپنی یادیں اپنی کتابوں کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں، ان کی آخری تصنیف Waters of Lahore بہت پڑھی گئی ۔نامور بیوروکریٹ سلمان فاروقی نے اپنی سوانح میں کمال صاحب کی اس کتاب کے حوالے بار بار دیے ہیں ۔جناب کمال اظفر اپنے حلقہ احباب میں، پی پی پی پی کے دانشورانہ حلقوں میں اور گورنمنٹ کالج لاہور کے دلدادگان میں ہمیشہ یاد رکھے جائینگے، وہ ایک باوقار اولڈ راوین تھے۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان کے اس عظیم بیٹے کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے بھی ریاست پاکستان نے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا۔