• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صُوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی منفرد دوجہ شُہرت

یوں تو صوفی غلام مصطفٰی تبسم اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں کے شاعر، خصوصاً بچّوں کے مقبول ترین شاعر تھے۔ بڑوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھا۔ استاد تھے، ماہانہ لیل و نہار کے مدیر اور براڈ کاسٹر بھی رہے۔ ٹی وی، ریڈیو سے پروگرام ’’اقبال کا ایک شعر‘‘ کرتے تھے۔ مختصراً ہر میدان کے شہ سوار تھے۔ نظم ہو یا نثر، غزل ہو یا گیت، ملّی نغمے ہوں یا بچّوں کی نظمیں، کون سی صنف ہے، جس میں طبع آزمائی کی اور اعلیٰ مقام حاصل نہیں کیا، لیکن…

’’صُوفی غلام مصطفیٰ تبسّم اپنے خاندان اور احباب میں ایک اور وجہ سے بھی مشہور تھے۔ اور وہ وجہ تھی ایک بہت اچّھے برتاوے/ ورتاوے یعنی بانٹنے والے کی۔ عزیز و اقارب کی بیٹیوں کی شادی میں جاتے، تو مہمانوں کو کھانا کھلانے کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور اس خُوبی سے برتاتے کہ کبھی کھانا کم نہ پڑتا۔ چاہے جتنے مرضی لوگ آجائیں، اب گھر والوں کو کوئی فکر نہ ہوتی۔ صُوفی صاحب بخوشی اس بار کو اُٹھاتے اور پیش آمدہ مشکلات سے خُود ہی نمٹتے اور خُود ہی حل نکالتے۔

مشہور دانش وَر،افسانہ نگار، اشفاق احمد نے ایک بار اپنے ڈرائنگ رُوم میں بیٹھے، پھیکی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جن دنوں وہ گورنمنٹ کالج، لاہور کے طالبِ علم تھے، تو اُن کے استاد، صُوفی تبسّم صاحب نے ایک دِن اپنے Fifth Year کے طلبہ سے کہا کہ ’’چلو بھئی! فلاں گھر میں بارات آنے والی ہے، جا کر کھانا برتانا ہے۔

بھاٹی دروازے میں بتّیاں والی سرکار کے پیچھے ایک گھر تھا، سب وہاں جا پہنچے۔ کچھ دیربعد نائی دیگیں بھی لے آئے۔ گھر والے بڑے خوش اور مطمئن تھے کہ اب صُوفی صاحب آگئے ہیں، تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ باراتیوں کی تعداد 80 بتائی گئی تھی اوراسی اعتبار سے کھانے کے انتظامات کیے گئے تھے، مگر جب بارات آئی، تو لوگ 160 سے بھی زیادہ تھے۔ یہ دیکھ کر صُوفی صاحب کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے اور ناک تک آگئے۔ 

انہوں نے قریب موجود اشفاق احمد سے پوچھا کہ’’اشفاق ہُن کی کرئیے؟‘‘ اشفاق احمد نے اپنی طالب علمانہ سمجھ بوجھ کے مطابق جواب دیا کہ ’’دیگوں میں مزید پانی ڈال دیتے ہیں۔ سالن ہی کا مسئلہ ہے۔ وہ بڑھ جائے گا اور سب کو پورا ہوجائے گا۔‘‘ یہ سُن کر صُوفی تبسّم صاحب نے اشفاق احمد کو ایک چپت لگائی اور بولے، ’’احمق لڑکے! پانی ڈال کر مَرنا ہے کیا؟

اس طرح تو سالن اور جلدی ختم ہوجائے گا۔ اب طریقہ یہ اختیار کریں گے کہ سالن میں گھی کا پورا ’’پِیپا‘‘ یعنی 16 کلو کا پورا ٹِین ڈالیں گے، کیوں کہ جب سالن میں ’’تریِر‘‘ زیادہ ہو، تو کم کھایا جاتا ہے۔‘‘ اور پھر اِسی طریقے سے کھانا تیار ہوا۔ لڑکوں نے بھاگ بھاگ کر کھانا سرو کیا۔ تاہم، وہ اندر سے ڈربھی رہے تھے کہ کھانا کہیں کم نہ پڑجائے، آخر عزّت کا سوال تھا۔ 

کھانا تقسیم کرنے کے ساتھ وہ باراتیوں سے پوچھتے بھی جاتے کہ ’’اور لائیں… اور لائیں...؟ کھانا ختم ہونے ہی والا تھا کہ اچانک باراتیوں میں سے ایک شخص نے آواز لگائی کہ ’’بس جی...‘‘ اور پھر ہر طرف سے بھی یہی آواز آنے لگی۔ ایسے مواقع پر لوگ ہمیشہ کسی پہلی آواز کے منتظر ہوتے ہیں۔ صُوفی صاحب کے ہاتھ میں کپڑا اور کڑچھا تھا۔ وہ اندر سے خدا جانے کتنے پریشان تھے کہ جونہی یہ آواز آئی، تو تیورا کر زمین پرگرگئے۔ 

وہاں ایک بڑا سا لوہے ؒ کا کڑاہا بھی موجود تھا۔ شُکر ہے کہ اس سے اُن کا سَر نہیں ٹکرایا۔ شاگردوں نے بھاگ کر اُٹھایا، لِٹایا، ٹانگیں دبائیں، ہاتھ پاؤں کی مالش وغیرہ کی اور وعدہ لیا کہ ’’خدا کے واسطے ایسی ٹینشن والا کام دوبارہ اپنے ذمّے نہ لیجیے گا۔‘‘ انہوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ ’’میری توبہ! آج تو پریشانی نے مار ہی ڈالا تھا۔‘‘

وہاں سے نکلے، تو استاد صاحب آگے آگے اور شاگرد پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ پندرہ بِیس قدم ہی چلے ہوں گے کہ ایک گھر سے ایک مائی نکلی۔ اُس نے صُوفی صاحب کو دیکھا اور دُور ہی سے پکاری....’’وے غلام مصطفیٰ! مَیں تَینوں لبھدی پِھرنی ساں۔ 

کُڑی دی تاریخ رکھ دِتّی اے، بھادوں دی تیراں.... کَھان پِین دا اِنتظام تُوں اِی ویکھنا اے۔‘‘ صُوفی صاحب جو تھوڑی دیر پہلے ہی برتاوے سے توبہ کر کے نکلے تھے، جھٹ سے بولے، ’’کاغذ لاؤ، یہ لو پینسل اور لکھو۔ تیراں سیرگوشت، ایک بوری چَول… بس اَسی پہنچ جاواں گے۔‘‘

کبھی صُوفی تبسّم نے بھی تو اپنی Self Examination کی ہوگی۔ تبھی تو اُستاد ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے بڑے آرام و سکون سے تنور پر روٹیاں لگانے بیٹھ جاتے تھے۔ ایسی خُوبیاں، جو ذات کاحصّہ بن جائیں اور پھر دُور و نزدیک میں آپ کی پہچان ٹھہریں، تو ذاتی تجربے کے نتیجےمیں ان میں اور نکھار آتا ہے، اُن پر پیار آتا ہے، شرم ساری نہیں ہوتی۔‘‘

(اختر عبّاس کی کتاب ’’قابلِ رشک ٹیچر‘‘ سے نسرین اختر نینا، اسلام آباد کا انتخاب)