نادیہ سیفؤ
سیرت ابنِ ہشام میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ احد کے موقعے پر ایک تلوار اُٹھائی اور فرمایا: ’’کون ہے، جو اس تلوار کو لےگا اور اس کا حق ادا کرے گا؟‘‘ یہ ایک عظیم موقع تھا، کئی صحابہؓ کے دِل میں آگے بڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار لینا عزّت اور مقام کی علامت تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی کو تلوار نہیں دی۔
پھر حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور استفسار کیا کہ’’یا رسول اللہﷺ! اس کا حق کیا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اسےاس طرح استعمال کرنا کہ اس کے ذریعے دشمن کو شکست دو اور ظلم نہ کرو۔‘‘ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے یہ تلوار لی اور فوراً اپنی سُرخ پٹّی باندھ لی، جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر لڑیں گے۔
حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ میدانِ جنگ میں بڑی بہادری سےلڑے۔ ایک موقعے پر ایک دشمن اُن کے سامنے آیا، جسے وہ آسانی سے ختم کر سکتے تھے، لیکن جب اُنہوں نے قریب جا کر دیکھا، تو وہ ایک عورت (کُفّار کی اہم جنگ جُو، ہندہ) تھی۔ اس موقعے پر آپؓ نے سوچا کہ اس تلوار کو ایسی جگہ استعمال کرنا کہ جس سے رسول اللہ ﷺ کے مقام کو ٹھیس پہنچے، مناسب نہیں۔ چناں چہ انہوں نے اپنی انا اور غُصّے پر قابو پایا اور اُسے چھوڑدیا۔
اب ہم میں سے ہر ایک فرد اُس واقعے پرغور کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کرے اور خُود سے یہ سوالات پوچھے کہ کیا میری موجودہ حیثیت اجتماعیت کی تربیت اور اعتماد کا نتیجہ نہیں ہے؟ کیا مَیں نے اُن لوگوں کا حق ادا کیا کہ جو مُجھے اس مقام تک لےکرآئے؟ کیا مَیں اپنی ذات کو مقصد سے زیادہ اہم سمجھ رہی/ رہا ہوں؟ کیا میری انا اور ذاتی پسند یا ناپسند میرے مقصد کو متاثر کررہی ہے؟
کیا مَیں ناپسندیدگی کے سبب تذبذب کا شکار تو نہیں، جس کے نتیجے میں مَیں اجتماعیت کونقصان پہنچا رہی/ رہا ہوں یا خدانخواستہ کم زور کر رہی/ رہا ہوں؟ یہ سوالات خُود احتسابی اور خُودشناسی کے لیے ہیں، جو صرف آپ کے لیے مخصوص ہیں اور ان کے جوابات بھی اپنی ذات ہی کی تلاش کا حصّہ بنیں گے، کیوں کہ یہ آپ کے دِل اور رُوح کو بےدار کریں گے۔
یاد رہے کہ اگر ہم اپنی رُوح کو بےدار نہ کرسکیں، تو انا کی جنگ ہمیں نہ صرف اپنے وجود سے دُور کردیتی ہے بلکہ ہماری زندگی اور اجتماعیت کی خُوب صُورتی بھی ماند کردیتی ہے۔ یہ ایک ایسا خسارہ ہے،جسے صرف خُود شناسی اور قربانی کے جذبے ہی سے روکا جا سکتا ہے۔
ارفع مقاصد کے لیے ذاتی اختلافات، انا کی قربانی: اللہ تعالیٰ نےہمیں بلندو ارفع مقاصد کےلیے پیدا کیا ہے اور ایک مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ معمولی معاملات، تنازعات میں الجھنے کی بجائے بڑے مقصد کو پیشِ نظر رکھتا ہے اور عظیم کام یابیاں انہی لوگوں کا مقدّر بنتی ہیں کہ جو اپنی انا، ناپسندیدگی اور ذاتی اختلافات ایک بڑے مقصد کے لیے قربان کردیتے ہیں۔
قرآنِ مجید ہمیں یہ اصول بتاتا ہے کہ ’’اور اپنے درمیان جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔‘‘ (سورۃ الانفال46:) یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے، اگر ہم اپنے اختلافات اور اپنی انا کو اہمیت دیں گے، تو ہماری اجتماعی کام یابی ناممکن ہوجائےگی۔ اجتماعی مقاصد کے لیے سوچنا، یعنی ’’Thinking Big‘‘ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ:
1۔ اپنی انا کوپسِ پُشت ڈالیں: انا کی جنگ چھوٹے لوگوں کا شیوہ ہے، جب کہ بڑے لوگ اپنی ذات سے بلند ہوکر سوچتے ہیں۔ وہ مقصد کو مقدّم رکھتے ہیں اور ذاتی احساسات نظر انداز کردیتے ہیں۔
2 ۔ ذاتی ناپسندیدگی کا حل تلاش کریں: ہر انسان ہی کوکچھ نہ کچھ چیزیں ناپسند ہوتی ہیں، لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے اُن کو پسِ پُشت ڈالنا ہی عظمت کی نشانی ہے۔ اگر کسی سے اختلاف ہو بھی، تو اُسے محبّت اور حکمت سے حل کریں۔
3۔ اجتماعیت اوراعتماد کا حق ادا کریں: اللہ تعالیٰ نےاجتماعیت اورجماعت کودِین کا ایک مضبوط ستون قرار دیا ہے۔ جب کوئی جماعت ہمیں اپنی ذمّےداریوں میں شامل کرتی، ہماری تربیت کر کے ہمیں آگے بڑھنےکےمواقع فراہم کرتی ہے، تو سمجھیں، یہ ایک عظیم نعمت ہے، لیکن اگر ہم اِس اجتماعیت کو کم زور کرنےکا سبب بن جائیں، تو یہ خیانت کےزمرے میں آئےگا، جس سے متعلق میں قرآن وحدیث میں سخت وعید آئی ہے۔
4۔ بڑے مقصد کی اہمیت سمجھیں: جب ہم کسی بلند مقصد کے لیے دوسروں سے جُڑتے ہیں، تو ہماری ذمّےداری صرف اپنے آپ تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ہم ایک اجتماعی قوّت کا حصّہ بن جاتےہیں اور ہماری کوئی چھوٹی سی کوتاہی بھی پورے مقصد کو متاثر کرسکتی ہے۔
جس اجتماعیت نےآپ پراعتماد کیا،آپ کو تربیت دی اور آپ کو منزل تک پہنچنے کا راستہ دکھایا، اُس کےساتھ خیانت، یعنی اُسے کم زور کرنا یا الگ راستہ اختیار کرنا، نہ صرف اخلاقی جُرم ہے بلکہ یہ اجتماعی نقصان کا سبب بھی بنتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نےفرمایا۔ ’’جب کوئی شخص امانت میں خیانت کرتا ہے، تو اُس کے دِل سے ایمان نکل جاتا ہے۔‘‘ (بخاری شریف) جب ایک جماعت آپ پر اعتماد کرتی ہے، توپھر اس امانت کی حفاظت آپ کی ذمّےداری ہے، سو اجتماعیت چھوڑ کر الگ گروپ بنانا، اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔
ذاتی انا، اپنی بات منوانے کی ضد میں انسان کئی بارغلط رستہ بھی اختیار کرلیتا ہے، جس سے نہ صرف تعلقات کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ مقصدِ عظیم اوراجتماعیت کو بھی کم زور ہوتی ہے۔ چند منفی پہلو درج ذیل ہوسکتے ہیں:
1 ۔ حق بات نظرانداز کرنا: اپنی بات کو دُرست ثابت کرنےکی ضدمیں دوسروں کی رائے یا دلیل کو اہمیت نہیں دی جاتی، چاہے وہ حق پرہی کیوں نہ ہوں اور یہ رویّہ انسان کو انصاف اور سچّائی سے دُور کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اور حق بات کے بعد گُم راہی کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟‘‘ (سورہ یونس 32:)
2۔ دوسروں کو نیچا دکھانا: اپنی انا کی تسکین کے لیے ہم دوسروں کی عزّتِ نفس مجروح کرتے ہیں۔ان کی رائے کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویّہ معاشرتی فساد اور دِلوں کی دُوری کا سبب بنتا ہے۔
3 ۔ جُھوٹ یامبالغہ آرائی کاسہارا لینا: اپنے مؤقف کو مضبوط کرنے کے لیے جُھوٹ بولنا یا حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنا عام غلطی ہے، جو باہمی اعتماد تباہ کردیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جُھوٹ آدمی کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ اُسے جہنّم تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 6094:)
4۔ غُصّہ کرنا، سخت لہجہ اختیار کرنا: اپنی بات منوانے کے لیے ہم غُصّے یا سخت لہجے کا استعمال کرتے ہیں، جو اختلاف کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ یہ رویّہ دِلوں کو نرم کرنے کی بجائے رنجش پیدا کرتا ہے۔ اِس ضمن میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’سب سے بہتر وہ ہے، جو اپنے بھائی کے ساتھ نرم خوئی اختیار کرے۔‘‘ (ترمذی)
5۔ مقصد کو پس پشت ڈال دینا: اپنی اناکی وجہ سےہم اصل مقصدفراموش کردیتے ہیں اور ذاتی اختلافات کو اہمیت دیتے ہیں، جس سے اجتماعیت کم زور ہوجاتی ہے۔
6 ۔ دوسروں کی نیّت پرشک کرنا: اپنی بات منوانےکے لیے ہم دوسروں کی نیّت غلط قرار دیتے ہیں یا اُن پر بلاوجہ الزام عائد کرتے ہیں، جس سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔
7۔ اختلافِ رائےکودشمنی تصوّر کرنا: ہر معاملے میں انا کوترجیح دینے والے افراد اختلافِ رائے کو دشمنی تصوّرکرلیتے ہیں اور پھر دوسرے فریق سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے اجتماعیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مسلمان وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 10:)
8۔اختلاف کو بڑھاوا دینا: اپنی بات منوانے کے لیے دوسروں کےاختلاف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سےتفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تمہارے اندر کم زوری آجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘ (سورہ انفال 46:)
اصلاح کے لیے عملی اقدامات:
1۔ دوسروں کو سُنیں: اختلاف کی صُورت پہلے دوسروں کی بات غور سے سُنیں اور ان کی نیّت پر شک نہ کریں۔
2۔ اپنی غلطی تسلیم کریں: اگر آپ غلطی پر ہیں، تو معذرت کریں اور انا کو پسِ پُشت ڈال دیں۔
3۔ مقصد کو یاد رکھیں: ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ ذاتی انا کی بجائے اجتماعیت اور مقصد اہم ہے۔
4۔ نرمی اختیار کریں: نرم لہجے میں بات کریں اور دِلوں کو جیتنے کی کوشش کریں۔
5۔ دُعا کریں: اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ وہ آپ کوانا اورخود غرضی سے محفوظ رکھے اور دِلوں کو جوڑنے والا بنائے۔ یاد رہے، جو شخص اپنی ضد پر قابو پاتا ہے، وہ نہ صرف خود کو بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی بہتربنا دیتا ہے۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔