رابعہ فاطمہ
عیدالاضحیٰ کا شمار، اسلام کے اہم ترین شعائر اور عبادات میں ہوتا ہے، جو حضرت ابراہیمؑ کی عظیم قربانی اور اطاعت کی یادگار ہے۔ گو کہ یہ دن بنیادی طور پر قربانی، ایثار اور تقویٰ کی علامت ہے، تاہم عصرِ حاضر میں اِس مذہبی فریضے کے کچھ پہلو ماحولیاتی اثرات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی جُڑ چُکے ہیں۔
ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک میں عیدالاضحیٰ کے موقعے پر لاکھوں جانوروں کی قربانی سے صفائی ستھرائی، فضلے کی تلفی اور جانوروں کی صحت کے مسائل نے ایک نیا سوال پیدا کیا ہے کہ کیا اسلامی عبادات کی ادائی کے ساتھ ماحولیاتی توازن بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے؟
قربانی کا اصل مقصد
قربانی کی غرض و غایت محض جانور ذبح کرنا نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی محبوب ترین شے کو قربان کرنا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: ’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘(سورۃ الحج،آیت 37)۔ اِس آیت میں قربانی کی اصل رُوح اجاگر کی گئی ہے، جو ظاہری عمل سے بڑھ کر ایک قلبی و روحانی وابستگی ظاہر کرتی ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کوئی رسم نہیں، بلکہ ایک عبادت ہے، جس میں نظم و ضبط، صفائی ستھرائی، حُسنِ نیّت اور خلوص کا اہتمام ضروری ہے۔اگر ہم یہ عبادت کسی نظم و ضبط اور ماحولیاتی شعور کے بغیر، محض رسم کے طور پر انجام دیں، تو نہ صرف قربانی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، بلکہ اِس طرح بعض سماجی و ماحولیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اسلام نے صفائی ستھرائی اور ہم سایوں کے حقوق پر اِس قدر زور دیا کہ اِسے ایمان کا حصّہ تک قرار دے دیا۔
حضرت محمد ﷺ نے راستے کی صفائی کو صدقہ قرار دیا ہے، تو اِس پس منظر میں جانوروں کا خون، آلائشیں اور گندگی گلی محّلوں میں پھیلانا کسی طرح اسلامی تعلیمات سے میل نہیں کھاتا۔ لہٰذا، جب قربانی کے مقصد کو روحانی تقویٰ کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں، تو پھر ہم پر لازم ہو جاتا ہے کہ اِس عمل کے دَوران اپنے ماحول، پڑوسیوں، صفائی کے عمل اور سماجی نظام کو بھی مدنظر رکھیں تاکہ عبادت، سماجی بھلائی اور ماحولیاتی حفاظت، تینوں یک جا ہو سکیں۔
قربانی اور سائنسی جائزہ
عیدالاضحیٰ کے موقعے پر لاکھوں جانوروں کا ذبح ہونا ایک مذہبی فریضہ ہے، مگر یہ عمل اگر غیر منظّم طریقے سے انجام دیا جائے، تو ماحولیاتی نظام کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ قربانی کے جانوروں کے فضلات، خون اور آلائشوں کی عدم صفائی نہ صرف بدبُو اور بیماریوں کا باعث بنتی ہے، بلکہ یہ زیرِ زمین پانی کے ذرائع کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
ماحولیاتی سائنس کی رُو سے خون اور آلائشیں اگر کُھلے مقامات پر پھینک دی جائیں، تو یہ بیکٹیریا اور وائرسز کی افزائش کا ذریعہ بنتی ہیں۔عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی رپورٹس کے مطابق غیر سائنسی طریقوں سے جانوروں کے ذبح سے آبی آلودگی، ہوا میں بدبُو اور مچھروں کی افزائش جیسے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
بہت سے شہروں میں بلدیاتی ادارے اِس موقعے پر آلائشیں تلف کرنے کے لیے فوری اقدامات تو کرتے ہیں، مگر شہری شعور کی کمی اور وسائل کی قلّت کے سبب اکثر یہ اقدامات ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ یوں اِس کوتاہی، لاپروائی یا عدم توجّہی کے سبب عید کے بعد کئی دنوں تک گلیاں سخت بدبُو اور آلودگی کی لپیٹ میں رہتی ہیں۔
یہ آلودگی نہ صرف انسانوں کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے، بلکہ جانوروں، پرندوں اور آبی مخلوق کے لیے بھی خطرہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اِس دینی فریضے کو مربوط اور ماحولیاتی اصولوں کے تحت منظّم کیا جائے تاکہ فرض کی ادائی کے ساتھ، ماحول بھی محفوظ رہے۔
ماحولیاتی چیلنجز
عیدالاضحیٰ کے موقعے پر جن بڑے شہروں میں لاکھوں جانور ذبح ہوتے ہیں، وہاں فضلہ، خون، آلائشیں، گندگی اور بدبُو جیسے مسائل کا پیدا ہونا ہر سال کا معمول ہے۔ یہ مسائل نہ صرف شہریوں کے لیے اذیّت ناک ہوتے ہیں، بلکہ ماحولیاتی و آبی ذخائر کی آلودگی اور بیماریوں کے پھیلاؤ کا بھی سبب بنتے ہیں۔
خاص طور پر جب جانوروں کے فضلات نالیوں میں بہا دیئے جائیں یا کُھلے مقامات پر پھینک دیئے جاتے ہیں، تو اِس عمل سے ماحولیاتی توازن بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اسلام ایک جامع دین ہے، جو نہ صرف عبادات بلکہ معاشرت، ماحول، صحت اور صفائی کے اصولوں پر بھی زور دیتا ہے۔ قرآنِ پاک میں زمین کو انسان کے لیے’’فرش‘‘اور’’امانت‘‘ کہا گیا ہے(سورہ الزخرف، آیت 10)، تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ماحول کو نقصان پہنچانا، شرعی لحاظ سے بھی ایک سنگین غفلت ہے۔
قربانی کے موقعے پر اکثر انتظامی کوتاہیاں، عوامی شعور کی کمی اور ماحولیاتی اصولوں سے لاعلمی ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔ ہمیں ان مسائل کو محض حکومتی ناکامی سے نہیں جوڑنا چاہیے بلکہ ہر فرد، ہر گھر اور ہر محلّے کو اپنی ذمّے داری محسوس کرنی چاہیے۔
جدید حل کی ضرورت
ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ کئی اسلامی ممالک نے قربانی کے عمل کو ٹیکنالوجی سے جوڑ کر نہ صرف اِس عبادت کو آسان بنایا، بلکہ ماحول کے تحفّظ کو بھی ممکن بنایا۔ مثلاً، قطر، عرب امارات اور تُرکیہ جیسے ممالک میں آن لائن قربانی، رجسٹرڈ سلاٹر ہاؤسز، موبائل ایپلی کیشنز، GPS ٹریکنگ اور آلائشیں تلف کرنے کے جدید نظام نے ان کے شہروں کو صاف ستھرا اور ماحول دوست بنا دیا ہے۔
پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت جیسے ممالک میں اگرچہ اِس سمت میں کوششیں تو ہو رہی ہیں، مگر عوامی شعور اور بلدیاتی نظام کی کم زوری کی وجہ سے ابھی تک کوئی خاطرخواہ کام یابی نہیں ہو سکی۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے جانوروں کی ویٹرنری جانچ، سلاٹر ہاؤس کی لائیو ویڈیو اور آن لائن قربانی کی سروسز عام کی جا سکتی ہیں، جن سے نہ صرف صحت کے مسائل کم ہوں گے بلکہ جانوروں پر ظلم، غیر شرعی ذبح اور ماحول کو نقصان پہنچانے جیسے عوامل پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
مزید برآں، جانوروں کی باقیات کو بایو گیس، فرٹیلائزر یا جانوروں کی خوراک میں تبدیل کرنے کے منصوبے اب سائنسی طور پر ممکن ہو چُکے ہیں۔ مسلمان معاشروں کو چاہیے کہ وہ ان جدید طریقوں کو اپنائیں تاکہ قربانی کا عمل سنّت کے مطابق ہو اور ماحول کے لیے رحمت بھی ثابت ہو۔
مسلم ممالک میں جانوروں کی قربانی کا عمل
کئی مسلم ممالک نے عیدالاضحیٰ جیسے بڑے مذہبی تہوار کو جدید نظم و نسق، ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے نہ صرف قربانی کے عمل کو منظّم کیا ہے بلکہ اسے ایک قابلِ تقلید ماڈل بھی بنا دیا ہے۔دراصل اِن ممالک نے اِس امر کا ادراک کرلیا کہ عبادات کو موسمیاتی مسائل، شہری صحت اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیے بغیر سماجی سطح پر بہتری ممکن نہیں۔
تُرکیہ: ترکیہ نے قربانی کے نظام کو شفّاف اور ماحول دوست بنانے کے لیے حکومتی سطح پر کئی اقدامات کیے ہیں۔ بڑے شہروں، جیسے استنبول، انقرہ اور بورصہ میں بلدیاتی ادارے مخصوص رجسٹرڈ قربان گاہیں فراہم کرتے ہیں، جہاں صفائی، حیوانی حقوق اور شرعی اصولوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔
قربانی کے لیے آن لائن بکنگ سسٹم، ویٹرنری معائنے اور گوشت کی تقسیم کے جدید طریقے اپنائے گئے ہیں، جن سے ماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی آئی ہے۔ متحدہ عرب امارات: دبئی اور ابوظبی جیسے جدید شہروں میں آن لائن قربانی سسٹم (Smart Sacrifice Apps) رائج ہو چُکا ہے۔
لوگ ایپ کے ذریعے جانور کا انتخاب کرتے ہیں، وہیں ادائی کی جاتی ہے اور سلاٹر ہاؤس میں جانور ذبح کرنے کے بعد گوشت اُن کے گھر پہنچا دیا جاتا ہے۔آلائشیں اور فضلہ مخصوص کمپنیز کے ذریعے ماحولیاتی اصولوں کے تحت تلف کیا جاتا ہے۔
اِس نظام میں نہ صرف شہری صحت کا خیال رکھا گیا ہے، بلکہ وقت، محنت اور جگہ کی بھی بچت ہوتی ہے۔ قطر: قطر نے’’ Green Hajj& Eid‘‘ کے تصوّر کو فروغ دیتے ہوئے قربانی کو ماحولیاتی تحفّظ کے دائرے میں لانے کی کام یاب کوشش کی ہے۔
یہاں کے Qatar Charity اور دیگر ادارے عالمی سطح پر قربانی کے گوشت کی تقسیم کو منظّم کرتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کے لیے ویٹرنری سرٹیفیکیٹ، سلاٹر ہاؤس کی صفائی اور گوشت کی پیکنگ، ترسیل کے لیے جدید کولڈ چین سسٹم رائج ہے، جس سے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کے ساتھ، قربانی کے عمل میں آسانی فراہم کی گئی ہے۔ سعودی عرب:ہر سال لاکھوں حاجیوں کی جانب سے قربانی کا عمل منظّم کرنے کے لیے’’اسلامی ترقیاتی بینک‘‘ کی نگرانی میں Adahi Project چلایا جاتا ہے۔
اِس منصوبے کے تحت ہر سال لاکھوں جانور شرعی اصولوں کے تحت ذبح کیے جاتے ہیں اور پھر اُن کا گوشت محفوظ انداز میں دنیا بَھر کے مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں جدید سلاٹر ہاؤسز، آٹومیٹڈ صفائی سسٹم اور بایو میتھین ٹریٹمنٹ پلانٹس کا استعمال کیا جاتا ہے، جو ماحول دوست اور شریعت کے مطابق ہیں۔
ملائیشیا:اِس مُلک میں حکومتی اور نجی ادارے شہریوں کو قربانی کا فریضہ آن لائن انجام دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اِس ضمن میں’’Go Halal‘‘ جیسی سروسز آن لائن قربانی کی سہولت فراہم کرتی ہیں، جہاں جانور کی صحت، ذبح کا عمل اور گوشت کی تقسیم سب شرعی اور طبّی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ نیز، جانوروں کی باقیات کو ری سائیکل کر کے فرٹیلائزر اور اینیمل فیڈ میں تبدیل کرنے کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔
ذمّے داری کا احساس
اسلامی تعلیمات ماحول دوست طرزِ عمل کو صرف پسند ہی نہیں کرتیں، بلکہ اِسے فرض کا درجہ دیتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ’’زمین اللہ کی ہے اور اس پر رہنے والے اس کے خلیفہ ہیں۔‘‘گویا، اگر ہم زمین کو آلودہ کرتے ہیں، قدرتی وسائل ضائع کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں یا پھر جانوروں کے ساتھ بے رحمی برتتے ہیں، تو یہ خلافتِ ارضی کے مقصد سے انحراف ہے۔ فقہائے کرام نے بھی واضح کیا ہے کہ ہر وہ فعل، جو دوسروں کو ایذا دے، جس سے گندگی پھیلے یا معاشرتی فساد کا سبب بنے، حرام کے دائرے میں داخل ہو سکتا ہے۔
اِسی اصول کے تحت قربانی کی جگہ کا انتخاب، صفائی ستھرائی، آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا درست انتظام اور جانوروں کے ساتھ حُسنِ سلوک شرعی تقاضے بن جاتے ہیں۔ اگر ہم اسلامی شعائر کو جدید دَور کی ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی اصولوں کے ساتھ جوڑنے میں کام یاب ہو جائیں، تو عیدالاضحیٰ کا پورا عمل دنیا کے لیے ایک ماڈل بھی بن سکتا ہے کہ اسلام کس طرح زندگی کے ہر پہلو میں توازن، رحمت اور عدل سِکھاتا ہے۔
شہری شعور، حکومتی پالیسی اور میڈیا
قربانی کے ماحول دوست طریقۂ کار کے فروغ میں عوامی شعور سب سے اہم عُنصر ہے۔ اگر شہری خود اِس بات کے پابند ہوں کہ وہ صفائی ستھرائی رکھیں، آلائشیں مقرّرہ جگہ پر رکھی جائیں اور غیر ضروری گوشت یا فضلات ضائع نہ کریں، تو ماحول میں بہتری ممکن ہے۔اِس ضمن میں حکومتی اداروں کا کردار بھی اہم ہے۔اُنہیں چاہیے کہ وہ عید سے قبل آگاہی مہمّات، مخصوص سلاٹر زونز اور جدید آلائش تلفی مراکز قائم کریں۔
پاکستان کے چند شہروں لاہور، اسلام آباد اور کراچی وغیرہ میں ایسی پالیسیز تو موجود ہیں، مگر ان کا نفاذ اور تسلسل اہم مسئلہ ہے۔ پھر یہ کہ میڈیا ایک مؤثر ذریعہ ہے، جس کے ذریعے عوام کو مذہبی و ماحولیاتی شعور دیا جا سکتا ہے۔
عیدالاضحیٰ کے موقعے پر میڈیا کا بیانیہ عمومی طور پر جذباتی یا روایتی ہوتا ہے، جب کہ اس میں سائنسی اور اصلاحی زاویے کم شامل ہوتے ہیں، حالاں کہ ہمیں ایک نئے بیانیے کی اشد ضرورت ہے، جو مذہب اور سائنس کے درمیان تعلق کو مؤثر انداز میں عوام تک پہنچائے۔
عبادت، شعور اور ٹیکنالوجی کا امتزاج
عیدالاضحیٰ کا پیغام صرف قربانی نہیں، بلکہ شعور، نظم و ضبط اور خیرِ عامّہ بھی ہے۔ آج کے دَور میں جب ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی بحران بن چُکی ہے، مسلمانوں پر یہ دہری ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنی عبادات کو شعور، صفائی ستھرائی اور ماحول دوستی سے ہم آہنگ کریں۔
اسلامی تعلیمات ہمیں سِکھاتی ہیں کہ ہم صرف عبادت گزار نہ ہوں، بلکہ باشعور، ماحول دوست اور ذمّے دار شہری بھی بنیں۔ اسلام کا پیغام صرف نماز، روزے یا قربانی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو زمین پر عدل، صفائی، توازن اور حُسنِ سلوک کا داعی ہے۔