• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

دنیا بے شمار نیک اور خدا ترس انسانوں سے بھری پڑی ہے۔ کچھ لوگ انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر کبھی حوصلہ اور ہمّت نہیں ہارتے۔ انسانی وجود کے اعلیٰ ترین مقاصد میں سے ایک اہم اخلاقی فریضہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ اس حوالے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ؎ اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں.....ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔ میرے پیارے چچا، رائے سن بھی ان ہی خصوصیات کے حامل ایک بہترین انسان تھے، جنھیں ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے، ان کی جدائی آج بھی ہمیں تڑپاتی ہے۔ 

وہ اگرچہ ایک غریب کاشت کار تھے، مگر باوقارشخصیت کے حامل، خوش لباس، انتہائی نفیس، خوش مزاج اور خوب وضع دار تھے۔ ان کا حلقۂ احباب کافی وسیع تھاکہ اپنی شرافت اور ملن ساری کے باعث لوگوں کے دِلوں میں بستے تھے۔ ہمارا تعلق ہندو ’’کولہی‘‘ قبیلے سے ہے اور ہمارے یہاں چھوٹے، بڑے مسائل کے حل لیے جس شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے، اسے ’’پٹیل‘‘ کہتے ہیں۔ پٹیل کو برادری میں بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے فیصلوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ میرے چچا رائے سن بھی کئی بار برادری کے پٹیل منتخب ہوئے۔

یکم مارچ2019ء کی وہ شام میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا،جب سورج کی آخری کرنیں،دن کو الوداع کہہ رہی تھیں۔ اُس روز ہم ایک تقریب میں مدعو تھے۔ خاندان کے سب افراد خوش گوار مُوڈ میں تھے۔ دعوت سے فراغت کے بعد ہنسی خوشی گھر پہنچے۔ تھوڑی دیر بعد سب حسبِ معمول اوطاق میں جمع ہوکر باتیں کرنے لگے۔ ’’کولہی‘‘ قبیلے کا یہ رواج ہے کہ کام کاج سے فراغت کے بعد رات کو سب اوطاق میں جمع ہوجاتے ہیں، جہاں ایک دوسرے کو دن بھر کا حال احوال سنانے کے ساتھ مختلف موضوعات پر گپ شپ کا سلسلہ بھی چلتا ہے اور پھر رات ڈھلنے سے قبل سب اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوجاتے ہیں۔

اس روز تقریب سے آئے، تو اوطاق میں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مَیں اپنے چچا کے ساتھ ہی گھر چلاگیا اور ان کے ساتھ ہی سوگیا۔ رات کے تقریباً3بجے اچانک چچا کے سینے میں شدید درد ہوا۔ ان کے کراہنے کے سبب آنکھ کھلی تو، مَیں نے دیکھا کہ اُن کا چہرہ پسینے میں شرابور ہے۔ ان کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر مَیں نے فوراً گھر کے دیگر افراد کو فوراً بلایا۔ 

ہم جس علاقے میں مقیم ہیں، وہ شہر سے کافی دُور ہے۔ جہاں ڈاکٹر اور اسپتال کی سہولت عام طور پر دست یاب نہیں ہوتی۔ خیر، بڑی تگ و دو کے بعد ایک ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ جس نے چیک اَپ کے بعد کہا۔ ’’افسوس، انہیں دل کا شدید دورہ پڑا تھا، جس کے باعث وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ ان کی رُوح اپنے مالکِ حقیقی کے پاس جاپہنچی ہے۔‘‘ ڈاکٹر کے یہ الفاظ مَیں زندگی بھر نہیں بُھلا سکتا۔ بہرکیف، صبح اُنھیں سناتھن دھرم کی رسومات کے تحت اگنی سنسکار کیا گیا۔

آج بھی مَیں اکثر اپنے چچا کو یاد کرتا ہوں کہ اگر وہ مجھ پر خصوصی توجّہ نہ دیتے، مجھے تعلیم نہ دلواتے، تو شاید مَیں آج ان سے اظہارِ عقیدت کی یہ سطور لکھنے کے قابل نہ ہوتا۔ میرے چچا نے انسانی فلاح و بہبود کے جو کام کیے اور اپنی زندگی میں جو کردار ادا کیا، وہ مدّتوں یاد رکھا جائے گا۔ 

موت کی صورت میں ان کی جدائی میرے لیے بہت بڑا صدمہ ہے، جوکہ میں کبھی نہ بھلا سکوں گا۔ دُعا ہے کہ وہ ہمیشہ پرمیشوَر کے ٹھنڈی سائے میں رہیں۔ (اشوک کمار کولہی، گوٹھ جھکراڑی، کوٹ غلام محمد)

سنڈے میگزین سے مزید