اب سالانہ بجٹ کی وہ اہمیت نہیں رہی جو آج سے ایک دو دہائیاں پہلے ہوتی تھی ان برسوں میں سال میں صرف ایک ہی بجٹ آتا تھا اب تو ہر مہینے بجٹ آتا رہتا ہے ہر 15دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ردوبدل ہوتا ہے۔
جمہوری تہذیبوں میں بجٹ جب اسمبلی میں پیش ہوتا تھا بہت زیادہ اس کی تیاریاں کی جاتی تھیں اگر حکومت بجٹ منظور نہ کروا سکتے تو حکومت بدل جاتی تھی۔ اب قومی اسمبلی میں اپوزیشن صرف بجٹ دستاویزات کو ہوا میں اڑاتی ہے ۔ پہلے سے نہ تو متبادل بجٹ لے کر آتی ہے اور نہ ہی بجٹ کا بغور مطالعہ کر کے اس پر منطقی تنقید کرتی ہے۔
حکومتیں بجٹ سے پہلے عوام کو اعتماد میں لیا کرتی تھیں۔ میڈیا ہاؤسز بجٹ سے کئی ہفتے پہلے سے سیمینار منعقد کروانا شروع کرتے تھے۔ ماہرین معیشت اگلے سال کیلئے معاشی مشکلات پر بات کرتے ان کو آسان کرنے کیلئے تجاویز دیتے۔ وفاق کے ایوان ہائے صنعت و تجارت اور ذیلی ٹریڈ تنظیمیں وزیر خزانہ سے، وزیر اعظم سے ملاقاتیں کرتیں، اپنے اپنے شعبوں سے متعلق حالات کا جائزہ لے کر عالمی مارکیٹوں کا اتار چڑھاؤ دیکھ کر اپنے اعداد و شمار پر مبنی مشورے دیتیں۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے مہذب جمہوری ملکوں میں ہمارے ہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ لاٹھی زیادہ مضبوط ہو تو بھینس والے خود بھینس لے کر پیش ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف ہم پاکستانی سخت پابندیوں، مشکل قوانین اور مزید ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے پڑوس میں امریکی گماشتے اسرائیل نے ایران پر تابڑ توڑ حملے کر دیئے۔ یہ صورتحال مزید اقتصادی مشکلات کا سبب بنے گی۔ تنخواہ دار چونکہ ٹیکس کے جال میں پہلے سے اسیر ہیں اس لیے ان سے مزید ٹیکس وصول کرنا آسان ہے۔ وزیر خزانہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ بڑے کاروباری وڈیرے جاگیردار ٹیکس نہیں دیتے۔ ایک ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب سرمایہ دار جاگیردار پیچھے رہ گئے ہیں دولت میں بھی اور اثر و رسوخ میں بھی۔ اب ٹھیکے دار ان سب پر سبقت لے گئے ہیں بڑے ٹھیکے دار طے کرتے ہیں کہ ملک کو کس سمت میں جانا ہے کس کو وزیر خزانہ ہونا چاہیے، سیکرٹری خزانہ کون ہو۔
ہمارے ہاں جمہوری نظام چل رہا ہے اسمبلیاں سرگرم ہیں لیکن جمہوری نظام کی جو مضبوط بنیاد ہوتی ہے قومی سیاسی جماعتیں۔ وہ نہ تو جمہوری ہیں اور نہ ہی سیاسی، پرائیویٹ خاندانی کمپنیاں ہیں۔ کتنے بحران آ جائیں ملک میں یا دنیا میں جو ملک پر اثر انداز بھی ہوتے ہوں۔ کوئی پارٹی کیا اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کرتی ہے، اپنے کارکنوں سے مشاورت کرتی ہے۔دانشور برسوں سے توقع کر رہے ہیں کہ 1985 سے باریاں لینے والی دونوں پارٹیاں طویل سیاسی تجربہ رکھتی ہیں پاکستان پیپلز پارٹی تو 1967سے سیاسی میدان میں ہے۔ اسے زیادہ احساس ہونا چاہیے کہ 78سال سے بدحالی کا سامنا کرتے عوام کی رائے ضرور لی جائے ان کا تو اساسی نعرہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ پارٹی کے بانی چیئرمین پھر ان کی بیگم، ان کی صاحبزادی بھی پارٹی کنونشن منعقد کر کے ہر علاقے کے لوگوں کی رائے لیتی تھیں۔ اصل مسلم لیگ کی کمیٹیاں بھی 1985سے پہلے علاقائی کنونشن کرتی رہی ہیں۔ اب یہ دونوں پارٹیاں عوام سے رائے لینا کیوں ضروری نہیں سمجھتیں کیونکہ اپنی پالیسیوں پر تنقید برداشت نہیں کر سکتیں۔ کارکن مشکلات کا براہ راست سامنا کر رہے ہیں بہت مشکل سے زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ اس لیے وہ سچی بات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
آپ بتائیے کہ ان پارٹیوں نے اگر اس بجٹ سے پہلے اپنے کارکنوں سے مشورے کرنے کیلئے ضلعی صوبائی اور قومی سطح پر اجلاس بلائے ہوتے تو کیا اسی قسم کا بجٹ پیش ہوتا؟
بنیادی طور پر ہم اپنی معیشت قرضوں سے چلانے کے عادی ہو گئے ہیں کیونکہ حکمرانوں کو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور کوئی حکمران بھی محنت نہیں کرنا چاہتا ملک کو خود مختاری کی طرف لے جانا نہیں چاہتا۔ عوام تو پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کر رہے ہیں غریب اکثریت میں ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 30ہزار روپے سے نیچے ہے غربت کی لکیر سے نیچے کتنے کروڑ ہیں، کیا بجٹ میں ایسی کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ہم اس سال کتنے کروڑ کو غربت کی لکیر سے اوپر لائیں گے حقیقت تو یہ ہے کہ غربت کی لکیر سے اوپر بھی غربت ہی ہے۔ مڈل کلاس بھی عملاً غریب ہو چکی ہے۔
کوووڈ کے بعد دنیا کا معاشی ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ ہمارے ہاں والدین اب بھی سرکاری نوکری ہی کو زیادہ قابل اعتبار خیال کرتے ہیں کہ انکے سامنے سرکاری افسروں کی مراعات اور اوپر کی آمدنی ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر سارے ملکوں میں اب زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کر رہا ہے اپنے کاروبار کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ قومی سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ملک کو جن شعبوں میں تربیت یافتہ کارکنوں کی ضرورت ہے اپنے طور پر ایسی تربیت کا اہتمام کریں۔ فیس بک پر جرمنی کے ایک نوجوان کی تصویر چل رہی ہے جسے اس کی سیاسی پارٹی نے اسکالر شپ دے کر آگے پڑھنے کیلئے بھیجا ہے۔ کیا ہماری پارٹیوں کو اپنے ذہین کارکنوں کو یورپ، امریکہ، چین میں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کیلئے نہیں بھیجنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ایجیٹیٹرز کی نہیں منیجرز کی ضرورت ہے۔ نعروں سے، ریلیوں سے ملک 1985سے نہیں چل پایا بلکہ بحران بڑھتے گئے ہیں پاکستانی روپیہ ڈالر اور دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں عجز کا شکار ہے۔ کیا یہ تشویش کی بات نہیں ہے کہ 1985میں ڈالر صرف 15روپے کا تھا اب 300روپے کی حدوں کو چھو رہا ہے اس تفاوت سے پوری معیشت متاثر ہوتی ہے۔ مینو فیکچرنگ کم ہوتی جا رہی ہے۔ زرعی اراضی میں ہاؤسنگ اسکیمیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ اس سے بڑا سیاسی دیوالیہ پن کیا ہوگا کہ دونوں پارٹیوں کو وزیر خزانہ اپنی صفوں میں نہیں ملتا واشنگٹن، لندن، آئر لینڈ سے لانا پڑتا ہے۔ حالانکہ معیشت آج کل سیاست کی بنیاد ہے اور ہماری قومی سیاسی پارٹیاں معیشت کو ہی نظر انداز کرتی ہیں انکے نزدیک معیشت صرف یہ رہ گئی ہے کہ ہر الیکشن کے بعد ان کے مرکزی لیڈروں کے بنگلے زیادہ بڑے ہو جائیں ان کے کاروبار دوسرے ملکوں تک پھیل جائیں اور ان کی اولادیں باہر منتقل ہو جائیں۔
اب بتائیے کہ امریکہ کی پشت پناہی پر اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا ہے جو ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور مسلم ملک بھی۔ کیا کسی سیاسی پارٹی نے اپنا مرکزی اجلاس بلا کر اس صورتحال پر مشاورت کی زحمت کی ہے؟ آج اتوار ہے اس صورتحال پر اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر ضرور تبادلہ خیال کریں اور وقت ملے تو اپنے محلے داروں سے بھی ان حالات پر مشاورت کریں۔