مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(اظہر حسین)
اظہر حسین افسانہ نگار، مترجّم، شاعر، مدیر، انگریزی ادبیات میں ایم فِل، اُردو ادب کی جانب رُخ، جدید اُردو ادب کی ایک نمایندہ آواز بن کر اُبھر رہے ہیں۔ اپنی کہانیوں کا عرق روزمرّہ زندگی سے کشید کرتے ہیں، عمیق نگاہی اور رفعتِ خیال جواہرِ خاص ہیں۔
سادہ انداز میں کہانی تحریر کرنے والے اظہر حسین کو یہ خُوبی ودیعت کی گئی ہے کہ وہ غیر جذباتی الفاظ سے جذبات میں تلاطم برپا کردیتے ہیں، سامنے کی بات میں پوشیدہ گہرے مفاہیم آشکار کرتے ہیں اور قاری کو کہانی سے باندھ کر رکھتے ہیں۔
دو بچّوں، بہن بھائی کی کہانی، بہن کو کم عُمری ہی میں دو راہوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ایک ایسا انتخاب، جسے اُس کی آیندہ زندگی کا رُخ متعین کرنا تھا۔ ’’فیصلہ‘‘ فقط ایک بہن اور ایک بھائی کی کہانی نہیں، یہ جدید پاکستانی معاشرے کی اکائی یعنی ایک ٹوٹتے گھرانے کی بھی داستان ہے۔ دیکھیے، کس خُوبی سے ایک بدلتے متغیّر سماج کا ماجرا دو بچّوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
’’سب سے پہلے منہ لال کرنے والی سپاری کھاؤں گی۔‘‘ ’’پھر؟‘‘ ’’پھر، کھٹے میٹھےآلو چنے۔‘‘ ’’اُس کے بعد؟‘‘ ’’اُس کے بعد، اُس کے بعد… ہاں، برف والا گولا۔‘‘ ’’رمضان بابا کے ٹھیلے سے ناں؟‘‘ ’’نہیں، کہیں اور سے۔‘‘ ’’لیکن ننّھی! تمہیں تو بس رمضان بابا کے ٹھیلے کا گولا پسند آتا ہے۔‘‘ ’’پسند ہے مگر… مجھے اُس طرف نہیں جانا۔ مجھے رام گڑھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ ’’رام گڑھ اچھا نہیں لگتا؟ اُدھر تو نانی ماں رہتی ہےاوراب مَیں بھی تو وہیں رہتا ہوں۔
پھر تمہیں کیوں اچھا نہیں لگتا؟‘‘’’کیوں کہ وہاں مما رہتی ہے۔‘‘ ’’تو؟‘‘ ’’مجھے مما اچھی نہیں لگتی۔‘‘ ’’مما اچھی نہیں لگ… اچھا… چھوڑو۔ یہ بتاؤ اور کیا کیا کھاؤ گی؟‘‘ ’’کچھ نہیں۔‘‘ ’’لگتا ہے، میری ننّھی کا مُوڈ خراب ہوگیا۔‘‘ ’’ہاں۔‘‘ ’’اوہ! تو یہ بات۔ ابھی مُوڈ ٹھیک کرتا ہوں۔ نون سے نلکا، نون سے ننّھی، نون سے چڑیا۔‘‘’’رانگ! نون سے نہیں، چے سے چڑیا ہوتی ہے۔ آپ بُدھو ہو۔‘‘ ’’ننّھی ہنس پڑی! بھئی، بُدھو ہوں، تو ہوں۔ ننّھی کو ناراض ہوکر چُپ نہیں ہونا چاہیے۔ اوکے؟‘‘’’اوکے۔‘‘
وہ دونوں سائیکل پرسوار تھے۔ لڑکا، جو سائیکل چلا رہا تھا، قد کاٹھ سے تیرہ، چودہ برس کا، جب کہ لڑکی عُمر میں اُس سے آدھی معلوم دیتی تھی۔ دونوں اسکول کی وردیوں میں تھے اور بہت خوش تھے۔ اِس وقت وہ ریلوے کیرج شاپ والی اندرونی سڑک پر تھے اور اُن کا رُخ مغل پورہ چوک کی جانب تھا۔ جہاں سے دائیں ہاتھ دو کلومیٹر کی دُوری پر صدر بازار میں اُن کے باپ کا، جب کہ بائیں ہاتھ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رام گڑھ کے امرتسری محلے میں اُن کی ماں کا گھر تھا۔ دوپہر کے ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔
اپریل کی دھوپ میں چُبھن آچکی تھی۔ سائیکل چلاتےچلاتے لڑکے کا تروتازہ سفید چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس کے ماتھے اور آنکھوں تلے جمی پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ سائیکل کی رفتاراگرچہ سُست تھی، مگر پیڈل مارنے میں قوّت لگانے سے لڑکے کی سانسیں پُھولی جاتی تھیں۔
ایک اور الجھن بھی تھی، سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر لگی چھوٹی سی تکونی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کی کھجورکے پیڑ سی چٹیا! وقفے وقفے سےتیل اور دھوپ سے چمکتی کالے بالوں والی چٹیا، لڑکے کی تھوڑی سے مس ہوتی اور ہلکی گدگدی کے ساتھ کھجلی کا احساس پیدا کرتی۔ وہ ایک لمحے کو جھنجھلا جاتا، مگر ساتھ ہی اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی۔ میٹھی اور دھیمی مسکراہٹ۔ وہ بہن سے بہت پیار کرتا تھا۔
پیار! ورنہ اسکول سے چُھٹی کے بعد سیدھے ماں کے گھر جاکر آزادی سے کچھ بھی کرنے کی بجائے وہ بہن کو اُس کے اسکول سے باپ کے یہاں چھوڑنے کی تکلیف کیوں گوارا کرتا۔ ننّھی کو اسکول چھوڑنا اور اسکول سے لانا اُس کے ذمّے تھا بھی نہیں۔ باپ نے ننّھی کے لیے رکشے کا انتظام کر رکھا تھا۔ رکشے والا آج بھی آیا تھا، مگر لڑکے نے اُسے پچاس روپے رشوت دےکر چلتا کیا۔ اُس نے سوچا تھا کہ بہن کو باپ کے گھر چھوڑنے کے بہانے اس سے وہ ضروری بات کرلے گا، جو کئی دن سے رہے جاتی تھی۔
’’بھائی!روکو، یہاں روکو، روکو!‘‘ لڑکے نے دونوں ہاتھوں سے بریک لگائے اور ایک پیر زمین پر ٹکاکر، سائیکل کو مضبوطی سے تھامے کھڑا ہوگیا۔ ’’وہ دیکھو، بھائی۔‘‘ دائیں جانب، گریفن گرائونڈ کو مڑتی سڑک کے کنارے دس بارہ بچّوں اور بڑوں کے ہجوم میں رنگ برنگی جھالروں، گھنگھروؤں اور اُونی پھولوں سے سجا اونٹ زمین پر بیٹھا تھا۔ ایک ادھیڑ شخص، جو یقیناً اونٹ کا مالک تھا، بچّوں کو ایک ایک کر کےاونٹ کےکوہان کے آگے، پیچھے بٹھاتا جاتا۔ سوار ہوتے بچّےجوش اور خوف سے بَھری چیخیں بلند کرتے۔
پاس کھڑے والدین احتیاط اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بچّوں کو سوار ہوتا دیکھتے جاتے اور تسلی بھری نصیحتیں دہراتے جاتے۔ کچھ ہی دیر میں پورے چار سوار اپنی اپنی جگہ درست طریقے پر جم چُکے تو اونٹ والے نے جانور کی نکیل تھام کر منہ سے کچھ مخصوص آوازیں نکالیں، جنھیں جانور نے فوری سمجھ کر پہلے اگلی، پھر پچھلی ٹانگیں زمین سے اوپر اُٹھائیں اور سواروں کو بھاری ہچکولا دے کرکھڑا ہوگیا۔ پاس کھڑے بچّوں نے ’’اِی… اُوو…آآ‘‘ کاشور بلند کیا۔
اونٹ مٹک مٹک کرچلنے لگا۔ اب اونٹ آگے آگے تھا اور بچّوں، بڑوں کا پُرجوش ہجوم پیچھے پیچھے۔ سائیکل پر بیٹھی ننّھی بھی تصوّر میں خُود کو اونٹ پر سوارکیے ہوئے تھی۔ جبھی وہ ہنستی ہنستی جھوم رہی تھی۔ اُس نے دونوں ہاتھوں کو سائیکل کے ہینڈل سے ہٹا لیا تھا اور دایاں ہاتھ بھائی کے کندھے پر رکھ کر بائیں ہاتھ کو زور زور سے ہوا میں لہرارہی تھی۔ اونٹ چھوٹے چھوٹے تین پھیرے پورے کرکے واپس اپنی جگہ پر آن بیٹھا تو والدین اپنے اپنے بچّے اُٹھانے کو جانور کی اور لپکے۔
ایک بچّی نے دوسری باری لینے کی ضد کی تو ماں نے اُسے ڈپٹتے ہوئے اُتار لیا۔ بچّی رونے لگی۔ بچّی کو روتا دیکھ کر ننّھی کو اپنی مما کی سختی یاد آگئی۔ پار سال اُن کے اسکول میں لگے سالانہ میلے میں والدین اور بچّے اسکول کے میدان میں جمع تھے۔ مختلف کھانوں، کھیلوں اور جھولوں کے ساتھ ساتھ اسکول انتظامیہ نے باہر سے ایک اونٹ والے کو بھی بلوا رکھا تھا۔ سیکڑوں بچّوں کے لیے صرف ایک اونٹ دست یاب ہونےکے سبب سب کو لمبے انتظار کے بعد اونٹ کا جھولا نصیب ہو رہا تھا۔
ننّھی کی خواہش پر مما کو گھنٹہ بھر انتظار کرنا پڑا۔ مگر جب باری آئی تو مما کو اسپتال سے فون آگیا۔ پاپا نے لاکھ کہا کہ مما رکشہ لے کر اپنے کام پر چلی جائیں اور وہ ننّھی کو جھولا دلوا کر مما کی گاڑی پر واپس گھر لیتے آئیں گے، مگر مما نہ مانیں۔ عین اُس وقت جب اونٹ والا ننّھی کو اونٹ پر سوار کر رہا تھا، مما نے ننّھی کو کھینچ کھانچ کر اُتارلیا اور میلے سے نکل آئیں۔ اُس روز سارا دن ننّھی روتی رہی۔
رات دیر تک مما، پاپا ایک دوسرے پر چنگھاڑتے، لڑتے رہے۔ تب ننّھی نے پہلی بار مما کے منہ پر کہا کہ ’’مما! تم بہت بری ہو۔‘‘ ’’ننّھی، اے ننّھی! کہاں کھو گئی چڑیا۔ بیٹھو گی اونٹ پر؟‘‘بھائی کی پیش کش پر ننّھی کھلکھلا اُٹھی۔ اُس نے دو بار اونٹ پر سواری کی۔ دونوں بار ہاتھ ہلاہلاکر، شور مچامچا کر جوشیلی خوشی اورآزادی کا اظہار کیا۔ بھائی بہن کو اُچھلتے کودتے دیکھتا رہا، خوش ہوتا رہا۔پھر وہ سائیکل پر سوارہوکر چلنے لگے۔
لڑکا بہت ہولے ہولے، وقفے وقفے سے پیڈل مار رہا تھا۔ جیسے اُسے کوئی جلدی نہ ہو۔ یا تو اُس نے بھانپ لیا تھا کہ بہن کو ابھی کچھ اور تفریح کی ضرورت ہے یا پھر اُس کی پیروں کی غیرشعور ی حرکت تھی، جو سائیکل کے پہیوں کو کسی غیرمتعین سمت کی جانب رواں رکھ رہی تھی۔ سائیکل چل رہا تھا اور دونوں کی آنکھیں سامنے حرکت کرتی زندگی کے منظر پر تھیں۔
ریلوے پارک کے قریب سے گزرتے ہوے ننّھی کی نظر گیٹ کے اندر ایک جانب کھڑی آلو چنے والی ریڑھی پر پڑی۔ ننّھی کو بھوک محسوس ہوئی۔ سائیکل کو پارک کے جنگلے کے ساتھ ٹکا کر دونوں پیڑ کی چھاؤں میں بچھی پتھر کی بینچ پر بیٹھ گئے۔ ننّھی پلیٹ پکڑتے ہی آلو، چنوں پر پِل پڑی۔ وہ تندی سے پُرشوق ہوکر کھاتی رہی اور بھائی، جسےاملی اور ٹاٹری ملے پانی میں ڈوبے کالے چنے اور آلو کبھی پسند نہ آئے تھے، بہن کا دل رکھنے کے لیے پلاسٹک کے چمچے سے دانہ دانہ چگتا رہا۔
کھانے سے فارغ ہوکر اُٹھتے ہی ننّھی پارک کے فوارے کے گرد جمع ہوئے کوّوں کو گننے لگی۔’’ایک، دو، تین… اُنیس، بیس، اکیس… اکتیس۔ پورے اکتیس، نہیں بتیس۔ ایک اور آگیا، تینتیس۔ بھائی؟‘‘ ’’ہاں، ننّھی۔‘‘ ’’کیا تم نے پہلے کبھی اتنے سارے کوّے ایک جگہ اکٹھے دیکھے ہیں؟‘‘’’آآ…یاد نہیں۔ شاید دیکھے ہوں۔‘‘ ’’نہیں دیکھے ہوں گے۔‘‘ ’’اتنےکوّے نہ ہمارے اسکول کے گراؤنڈ میں آتے ہیں اور نہ ہمارے گھر کی چھت پر۔ اور مما والا گھر تو بند بند سا ہے۔ بند گھروں میں کوّے نہیں آتے۔‘‘ ’’ایسا نہیں ہے، ننّھی۔
مما کےگھر کی چھت پر بہت سارے کوّے آتے ہیں۔ اور ایک دن تو تین توتے بھی آگئے تھے۔‘‘ ’’گانی والے؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ ’’باتیں کرنے والے نہیں ہوں گے!‘‘ ’’دِکھتے تو وہ باتیں کرنے والے ہی تھے۔‘‘ لڑکے نے بات کرتے ہوئے آنکھیں لڑکی کی آنکھوں سے ہٹالیں۔ مبادا اُس کا جھوٹ پکڑا جائے۔ ’’تو بھائی! تم نے اُنھیں پکڑ کر پنجرے میں کیوں نہ ڈالا؟ پتا تھا ناں کہ مجھے گانی والے توتے بہت پسند ہیں۔‘‘’’توتا پکڑنا ایک جنے کا کام تھوڑی ہے۔
تم ساتھ ہوتیں تو پکڑ ہی لیتا۔‘‘ ’’مَیں ہوتی تو یوں بھاگ کر اُسے زور سے پکڑ کے پنجرے میں قید کرلیتی!‘‘ننّھی نے ہاتھوں کے پنجوں کو کس کر بھائی پر جھپٹتے ہوئے بتایا۔ بھائی کو ننّھی کی معصومیت پر بہت پیار آیا۔ اُس نے سوچا کہ بہن سے ضروری بات کرنے کا یہی وقت ہے۔ بولا ’’ننّھی! تمہیں واقعی گانی والا توتا پکڑنا ہے؟‘‘’’ہاں، باتیں کرنے والا بھی۔‘‘’’فاختہ بھی؟‘‘’’ہاں، سفید رنگ کی۔‘‘ ’’ایسا ہے تو پھر میری بات غور سے سُنو…‘‘اُس نے پارک کی سبز گھاس پرگھٹنے ٹیک کر دونوں ہاتھوں سے بہن کے بازو تھام لیے۔
’’اس جمعے مما، پاپا اور نانی لوگ فیصلہ کرنے والے ہیں کہ ہم دونوں نےمما، پاپا میں سےکس کے پاس رہنا ہے۔ یعنی ہمیں، دونوں میں سے کسی ایک کو چُننا ہے، کسی ایک کو۔ مما کو یا پاپا کو۔ اور تمہیں معلوم ہے ناں کہ پاپا نوکری کی وجہ سے دوسرے شہر جارہے ہیں؟ اگر مَیں نے تمہاری خاطر پاپا کو چُنا تو ہمیں بہت دور جا کر رہنا ہوگا۔ وہاں ہمارا دل نہیں لگے گا، ننّھی! پھر پاپا کے پاس گاڑی چھوڑ، موٹرسائیکل بھی نہیں۔ جب ہی تو تمہیں رکشے پہ اسکول آنا جانا پڑتا ہے اور چھوٹی پھوپھو بھی تو اچھی نہیں ہیں۔
وہ تو بات بھی نہیں کرتیں تم سے۔ تمہی نے بتایا تھا۔ تو یہ سب ہے۔ اب تم بتاؤ، ہم دونوں کو کس کے ساتھ رہنا چاہیے؟ مما کے ساتھ ہی ناں؟‘‘ ’’مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘لڑکے کو یوں محسوس ہوا، جیسے اُس کی ساری تفصیل، ساری وضاحت سرے سے بےکار گئی ہو۔ وہ اداس اداس نظروں سے بہن کو دیکھتا ہوا گھاس پر سے اُٹھا اور اُس کا ہاتھ تھامے گیٹ کی جانب چلنے لگا۔
اُس نے آلو، چنے والے سے پانی مانگا مگر جب اس نے گندے مندے کولر سے پلاسٹک کے میلے چکٹ گلاس میں پانی ڈال کر آگے بڑھایا تو لڑکے نے ایک نظر بہن کو دیکھا اور ’’چلیں رہنے دیں، شکریہ‘‘ کہہ کر سائیکل لی اور بڑھ گیا۔
مغل پورہ چوک پر پہنچ کر اُس نے سائیکل روکا اور پوچھا۔ ’’مرنڈا پیئں؟‘‘ ’’ہاں، جلدی۔ بہت پیاس لگی ہے۔‘‘ وہ سڑک پار کرکے نہر سے بائیں ہاتھ مُڑے اور سوئیکارنو بازار میں داخل ہوگئے۔ یہ لاہور کا پرانا بازار تھا، جوصُبح سے رات گئے تک کھچا کھچ بھرا رہتا۔ آس پاس بڑے بڑے شاپنگ پلازے بن جانے کے باعث یہاں دن کے کسی بھی پہر رش کم نہ ہوتا۔
اُسی بازار کے آخری سرے پر موجود چھوٹے سے سرکاری اسپتال میں اُن کی ماں بطور ہیڈ نرس کام کرتی تھی۔ وہ دونوں مما کے ساتھ کئی بار اس بازار میں آچُکے تھے، البتہ جب سے اُن کے والدین میں علیحدگی ہوئی، ننّھی کا بازار کا پھیرا نہیں لگا تھا۔ آج کئی مہینوں بعد بازار کی رونق کا حصّہ بننے پر وہ خوشی سے سرشار ہوگئی۔ اس بات سے قطعی بےخبر ہوکر کہ وہ مما نہیں بھائی کے ساتھ ہے، وہ سائیکل کے آگے آگے چلتی سُپرمارٹ میں داخل ہوگئی۔
جس وقت وہ بازار کے چوڑے فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر مرنڈا پی رہے تھے، اُن کے دماغ پوری طرح ہلکے اور تازہ تھے۔ ننّھی نے آدھی بوتل پی کر دو ڈکاریں لیں اور آنکھیں اپنے سامنے دریا کی طرح پھیلے مجمعے پر گاڑ دیں۔ پاس کھڑا بھائی ننّھی کے دیکھنے کو دیکھنے لگ گیا۔ مرد اور عورت اپنے دو بچّوں کے ساتھ ٹہل رہے تھے۔ بچّے ان کے آگے آگے چھلانگیں لگاتے، چہلیں کرتے بھاگتے جاتے۔ بھاگتے بھاگتے وہ ماں باپ سے دس دس بارہ قدم آگے نکل جاتے، پھر مڑ کر پیچھےدیکھتے، لوٹ آتے۔
جہاں جی کرتا، کھڑے ہوکر دکانوں کے اندر جھانکنے لگتے۔ کھڑکیوں کو چُھوتے، کھڑکیوں کے اندر پڑی چیزوں کی جانب اشارے کرتے۔ کِھلکھلا کر ہنس دیتے۔ ماں باپ، روکے ٹوکے بنا بس انھیں دیکھتے جاتے۔ ’’مما مجھے یوں مرضی کرنے نہیں دیتی۔ کبھی نہیں۔‘‘ ننّھی اپنی ٹکٹکی توڑے بنا بولی، تو اُس کے یوں اچانک بولنے پر لڑکاچونک گیا۔ وہ چُپ رہا۔ پھر کچھ دیر ننّھی کے دیکھے ہوئے منظر کا جائزہ لے کر بولا۔’’پاپا مرضی کرنے دیتے ہیں؟‘‘وہ پَل بھر سوچتی رہی پھر بولی۔ ’’نہیں، مرضی تو وہ بھی نہیں کرنے دیتے۔‘‘ ’’تو؟‘‘ ’’کچھ نہیں۔‘‘ ننّھی اداس ہوکر بوتل پینے لگی۔
اب وہ کوئی اور منظر دیکھ رہی تھی۔’’مما بہت بدل گئی ہیں، ننّھی۔ وہ پہلے کی طرح سخت اور غصّے والی نہیں رہیں۔ اب وہ بس دن کی شفٹ میں کام کرنے جاتی ہیں۔‘‘ وہ نہ بولی۔’’اب تو وہ ہر بات چُپ چاپ مان لیتی ہیں۔ مَیں نے کہا کہ اس بار نویں کلاس میں جاتے ہی سائیکل لوں گا۔ اِدھر آٹھویں کا رزلٹ آیا، اُدھر سائیکل میرے ہاتھ میں۔‘‘ ننّھی بولے بنا سامنے دیکھتی رہی۔ ’’اور پتا ہے مما نے گھر میں باغیچہ بھی بنوایا ہے۔
اُس میں تمہارے قد کے برابر نیبوؤں کے پودے ہیں، جن پر کتنے سارے نیبو لگے ہیں۔‘‘، اب کے اُس نے بہن کی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ جانتا تھا کہ ننّھی کو پھلوں سے لدے پیڑ پودے بہت بھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ تصویروں میں بھی۔ ’’مجھے نہیں آنا وہاں۔‘‘ وہ دوٹوک بولی۔’’تم نہ آؤ، مگر مما کا گھر ہے بہت خاص۔ پاپا کا گھر، مما کے گھر جیسا ہوہی نہیں سکتا۔ وہاں تم زیادہ مزہ کرہی نہیں سکتیں۔‘‘لڑکے کے لہجے میں اب گہری اداسی آگئی۔’’کیوں نہیں کرسکتی؟‘‘ ’’کیوں کہ وہاں مَیں جونہیں ہوں۔‘‘یہ کہتے لڑکے کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔
اُس نے دُکھ بَھرا تھوک نگلا اور سائیکل پکڑ کر بازار کے باہر کے رُخ چلنے لگا۔ لڑکی پیچھے پییچھے تھی۔ چوک پر پہنچ کر دونوں نے سوڈا ایک ساتھ ختم کیا، خالی بوتلیں کُوڑے دان میں گرائیں اور سائیکل پر سوار ہوگئے۔ لڑکا دُکھی دل کے ساتھ زور زور سے پیڈل مارنے لگا۔ اُس نے بائیں ہینڈل سے ہاتھ اوپر اُٹھا کر کلائی گھڑی سے وقت دیکھا۔ اسکول سے چُھٹی کو پچیس منٹ گزر چُکے تھے۔ ننّھی کوگھر چھوڑنے میں اتنا ہی وقت رکشےکو لگتا۔ اُس نے سائیکل کو صدر کینٹ کے رُخ موڑ دیا۔
ٹھیک سات منٹ میں وہ پاپا کے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ خاموش اور اُداس۔ لڑکے نے ہینڈل سے بستہ اُتارا، بستے کی باہری جیب میں اُڑسا پانی کا خالی فلاس درست کیا اور بستہ ننّھی کے بازوؤں پرجیکٹ کی طرح چڑھا دیا۔ ننّھی’’خداحافظ‘‘ کہہ کر آگے بڑھنے کے بجائے چُپ چاپ کھڑی بھائی کو دیکھا کی۔ پھر بولی۔ ’’ایک چیز تو ہم بھول ہی گئے۔‘‘’’وہ کیا؟‘‘’’برف کا گولا۔‘‘’’اوہ گولا۔ چلو، کسی اوردن سہی۔
اب تم جاؤ۔‘‘ ننّھی ہاتھ کے اشارے سے ’’بائے‘‘ بول کر گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ بھائی بہن کو جاتے دیکھتا رہا۔ وہ دروازے کے پاس پہنچی، مُڑ کر دیکھا اور واپس لوٹ آئی۔’’بھائی! مَیں نے فیصلہ کرلیا!‘‘بھائی کی آنکھوں میں خوشی کی چمک آگئی۔ اُس نے سائیکل پر بیٹھے بیٹھے جسم کو ننّھی کی جانب حرکت دی۔’’کیا فیصلہ، ننھی؟‘‘ ’’مجھے مما کے ساتھ رہنا ہے، نہ پاپا کے ساتھ۔
مجھے تمہارے ساتھ رہنا ہے۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلو اور مجھے آج ہی کھانا ہے، برف کا گولا۔ رمضان بابا کے ٹھیلے سے۔‘‘ یہ کہہ کر ننّھی بھائی کی جانب پشت کرکے کھڑی ہوگئی اور اپنے بازوؤں کو پیچھے کی طرف موڑ دیا۔ بھائی نے کچھ دیر توقف کیا، مُسکرایا اور بستہ اتار کر ہینڈل میں پرودیا۔ پھر اُس نے بہن کو اُٹھا کر سیٹ پر بٹھایا اور سائیکل چلا دیا۔