بات چیت: رؤف ظفر، لاہور
سیّد اظہر عابدی، معروف ماہرِ تعلیم، کیریئر کاؤنسلر اور پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ برطانیہ اورامریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1989ء میں پاکستان واپس آئے اور وقت کی اہم ترین ضرورت کے تحت 1992ء میں نوجوان نسل کے لیے کیریئر کاؤنسلنگ کا آغاز کیا، جو آج بھی جاری ہے۔ اپنے 32سالہ کیرئیر کے دَوران لاتعداد طلباء و طالبات کی بیرونِ مُلک اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں رہنمائی کر چُکے ہیں۔
عالمی جامعات اور پاکستانی طلبہ کے درمیان رابطے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اعلیٰ خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے اُنھیں 2006ء میں تمغۂ امتیاز اور بعدازاں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ گزشتہ دنوں سیّد اظہر عابدی سے ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُنھوں نے طلبہ کو درپیش مسائل اور مواقع پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
س: ہمارے خطّے سے بیرونِ مُلک تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ کب سے جاری ہے؟
ج: بیرونِ مُلک تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔لوگ پاک وہند سے برطانیہ اور دوسرے ممالک جاتے تھے۔ خود میرے والد 1936ء میں حصولِ تعلیم کے لیے فرانس گئے تھے۔ اِسی طرح قائدِ اعظم محمّد علی جناح اور علّامہ اقبال کو دیکھ لیجیے، جنہوں نے برطانیہ اور جرمنی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ اُس وقت سائنس اور انجینئرنگ کی طرف رجحان کم ہوتا تھا اور فلسفے، زبان، اکنامکس اور سوشل سائنسز پر زیادہ توجّہ دی جاتی تھی۔ لوگ بیرسٹری کے لیے لندن جایا کرتے تھے۔
اُن دنوں انڈسٹری میں ڈپلوما ہی کافی سمجھا جاتا تھا اور بیرسٹری تو بہت اعلیٰ ڈگری تصوّر کی جاتی تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد ایک برطانوی کالونی ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے لیے ہمارا زیادہ رُخ برطانیہ کی طرف رہا، لیکن پھر رفتہ رفتہ طلبہ نے امریکا بھی جانا شروع کردیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ ہمارے صوفیاء اور علمائے کرام علم کی تلاش میں دیس بدیس گھوما کرتے تھے۔
س: آج کل اِس رجحان میں خاصی تیزی نہیں آگئی؟
ج: جی بالکل۔ طلبہ کے اِس طرح ایک سے دوسرے مُلک جانے کو ماہرین نے ’’Student Mobility ‘‘کا نام دیا ہے۔ اگر کوئی طالبِ علم اپنا مُلک چھوڑ کر کسی دوسرے مُلک جاتا ہے، تو اسے’’کراس بارڈر ایجوکیشن‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ تاہم، بیرونِ ممالک جانے کا یہ سلسلہ بدلتا رہتا ہے، جس کی کئی وجوہ ہیں۔
ترقّی یافتہ ممالک حالات کے مطابق اپنی پالیسیز طے کرتے ہیں۔جب وہاں جدید ترین یونی ورسٹیز اور ریسرچ لیبارٹریز بنیں، تو ترقّی پذیر ممالک کے طلبہ نے ان ممالک کا رُخ کرلیا، جن کے لیے اِن یونی ورسٹیز نے اپنے دروازے کھول دئیے تھے۔ اب ساری ذمّے داری طلبہ پر آن پڑی کہ اُنہیں کس مُلک جانا چاہیے۔ یعنی کوئی طالبِ علم کِن کِن عوامل کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ اُسے کس مُلک جانا چاہیے اور یہ فیصلہ اُس کی آنے والی زندگی پر اہم اثرات مرتب کرتا ہے۔
اگر وہ بغیر سوچے سمجھے کسی مُلک چل پڑے کہ جس کا اُسے ویزا آسانی سے مل جائے گا، تو بسا اوقات آگے چل کر یہ فیصلہ اُس کے لیے نقصان دہ، بلکہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ وہ جن عوامل کی بنیاد پر کسی مُلک جانے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ فیکٹرز تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً اُس کے اپنے ذاتی مالی حالات، اپنے مُلک کی مالی صُورتِ حال اور وہ جس مُلک جا رہا ہے، وہاں کے بھی مالی معاملات اُس کے پیشِ نظر ہوتے ہیں (اور ہونے بھی چاہئیں)۔
اِس سلسلے میں سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ یونی ورسٹی کی فیس کتنی ہے، کیا اسکالر شپ مل سکتی ہے، پڑھائی کے دَوران جُز وقتی کام کے مواقع کتنے ہیں اور یہ کہ اس ملک کا ویزا ملنا کتنا دشوار ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ جو ڈگری حاصل کرے گا، اُس کی دنیا میں کتنی وقعت، اہمیت اور افادیت ہے؟
اسے یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ دنیا بَھر میں اس کی تعلیم سے متعلق جاب کے کیا مواقع ہیں۔ کیا وہ اپنے بیوی بچّوں کو بھی بُلواسکتا ہے۔ اِن تمام عوامل کی بنیاد پر طلبہ کی’’ Study Destination‘‘ یعنی منزلِ مقصود بدلتی رہتی ہے۔
جیسے برطانیہ کسی وقت جزوقتی جاب، منگیتر یا بیوی بچّوں( Spouse) کو بلوانے اور تعلیم کی تکمیل پر مستقل رہائش کے حوالے سے مشہور تھا، مگر اب حالات بدل چُکے ہیں اور برطانیہ کی جگہ ملائیشیا، چین، تُرکیہ اور عرب امارات جیسے ممالک نے لے لی ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ طلبہ کو ایسے درجنوں عوامل سامنے رکھ کر ہی بیرونِ مُلک جانے کا سوچنا چاہیے، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسی باتوں پر کم ہی توجّہ دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر طلبہ کا مقصد صرف اپنے مُلک سے کسی نہ کسی طرح نکل کر دوسرے ممالک میں قسمت آزمائی کرنا ہوتا ہے۔
اگر کسی گم نام یونی ورسٹی میں ویزے کی آسانی کی وجہ سے داخلہ لے بھی لیتے ہیں، تو اُن کی آخری منزل بہرحال یورپ کا کوئی مُلک ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض طلبہ ایجینٹس کے ہتھے چڑھ کر غیرقانونی طریقے سے بھی باہر چلے جاتے ہیں، جس کا خمیازہ پھر خود اُنہیں مختلف پریشانیوں اور پاکستان کو بدنامی کی صُورت بُھگتنا پڑتا ہے۔
س: اب تو غیر مُلکی یونی ورسٹیز میں داخلہ لینا خاصا مشکل ہوگیا ہے اور طرح طرح کی سختیاں شروع ہو گئی ہیں؟
ج: کسی زمانے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ممالک جانا زیادہ دشوار نہیں تھا، لیکن جب سے تعلیم کے نام پر باہر جانے والوں نے(جس میں پاکستان ہی نہیں، دیگر ممالک کے افراد بھی شامل ہیں) غیر قانونی طریقے اختیار کرنا شروع کیے یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں غیر قانونی طور پر ٹھہرنے یا غائب ہونے لگے، تو ایسے حالات میں ترقّی یافتہ ممالک نے انٹرنیشنل ایجوکیشن پراسیس بہت سخت کردیا، جیسا کہ ہم امریکا میں دیکھ رہے ہیں۔
اب امریکا اور دیگر ممالک نے ہر سال طلبہ کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رکھنا شروع کر دیا ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کتنے بچّے پڑھنے آئے اور پھر واپس اپنے مُلک نہیں گئے، بلکہ غیر قانونی طور پر ملازمتیں کرنے لگے یا جعلی شادیاں رچالیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کا شمار ایسے معاملات میں ہائی رِسک، یعنی خطرناک ممالک میں ہوتا ہے۔ متموّل گھرانوں کے طلبہ، جو غیر ممالک میں تعلیم افورڈ کر لیتے ہیں، اُنہیں پارٹ ٹائم کام نہیں کرنا پڑتا۔ پڑھنے کے بعد اُن کی مرضی ہے کہ وہ قانونی طور پر وہاں رُک جائیں یا واپس آجائیں۔
دوسری قسم متوسّط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔اکثر بچّے اپنی محنت کے بل بُوتے پر اپنا مقام بنا لیتے ہیں اور قانون کے منافی کوئی کام نہیں کرتے، لیکن طلبہ کی ایک اور ورائٹی ایسی بھی ہے، جن کی نیّت پڑھنے کی ہوتی ہی نہیں۔وہ کسی ایسے ایجنٹ کی تلاش میں رہتے ہیں، جو اُن کے کاغذات قانونی، غیر قانونی طور پر پورے کر کے، اسٹوڈنٹس کے دروازے سے اُنہیں بیرونِ مُلک بھیج دے۔
ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہاں اُنہیں سیاسی پناہ مل جائے یا غیر قانونی طریقے سے شادی کرلیں۔ ان کی زندگی کا مقصد اپنے مُلک سے کسی نہ کسی طرح نکلنا ہوتا ہے۔ کئی طلبہ صرف یہی معلومات کرتے پِھرتے ہیں کہ اُنہیں کوئی جاب یا مستقل سکونت کس طرح مل سکتی ہے۔
س: کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ بھی ہو رہی ہے؟
ج: انسانی اسمگلنگ میں نسبتاً گم نام ممالک کی غیر معروف یونی ورسٹیز ملوّث ہیں، جو داخلے کے نام پر ویزے دیتی ہیں۔ پھر یہ طلبہ آگے کسی یورپی مُلک یا امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ چند سال قبل کینیڈا میں ہونے والے انسانی اسمگلنگ کے ایک دل خراش واقعے کی گونج پوری دنیا میں سُنی گئی تھی، جس میں کینیڈا کے 260کالج ملوّث پائے گئے تھے۔
اُن میں سے ایک کالج نے بھارت کی ایک فیملی کے تین مرد و خواتین کو 60لاکھ روپے فی کس کے عوض داخلے کا ویزا جاری کیا، لیکن اُن کی اصل منزل امریکا تھی اور سرحد پار کرتے ہوئے برف کے طوفان میں اُن کی موت واقع ہوگئی۔
گزشتہ سال آسٹریلیا کی وزارتِ داخلہ نے 30یونی ورسٹیز کو خلافِ ضابطہ داخلوں پر وارننگ لیٹرز جاری کیے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بھی بیش تر انسانی اسمگلر یہی سمجھتے ہیں کہ’’ڈنکی رُوٹ‘‘ کے تحت دشوار گزار علاقوں اور کشتیوں کا سہارا لینے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ کسی گم نام یونی ورسٹی میں داخلہ دِلوا کر نوجوانوں کو ترقّی یافتہ ممالک پہنچا دیا جائے۔ ماہرین نے انسانی اسمگلرز کی اِن وارداتوں کو ’’انسانی اسمگلنگ بذریعہ یونی ورسٹیز‘‘ کا نام دیا ہے۔
برطانیہ میں 2022ء میں تعلیمی ویزوں پر آنے والے کئی طلبہ یونی ورسٹیز سے غائب پائے گئے۔ بعد ازاں، ویلز سے ایسے 12نوجوان گرفتار کیے گئے،جو انتہائی بُرے حالات میں ہفتے میں 80گھنٹے کام کر رہے تھے۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوّث ایسے ممالک کیYellow, Orange اور Red میں درجہ بندی کرکے اُن پر سختیاں بڑھا دی جاتی ہیں۔ آسٹریلیا میں انہیں گروپ کیٹگیریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
س: اِس صُورتِ حال میں سنجیدہ طلبہ کیا کریں؟
ج: اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند طلبہ کو چاہیے کہ وہ نہایت احتیاط سے اپنی منزل کا تعیّن کریں۔ اِس ضمن میں جو عوامل مدّ ِنظر رہنے چاہئیں، اُن کا پہلے ذکر کر چُکا ہوں۔ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دُور رہنا کوئی آسان بات نہیں، پھر یہ کہ غیر ممالک کی زندگی بڑی مشکل ہوتی ہے۔
اِس لیے جذبات اور ویزے کے آسان حصول کی بجائے تمام حالات سامنے رکھنے چاہئیں کہ یہ اُن کی زندگی کا ایک بڑا فیصلہ ہوتا ہے۔ نیز، طلبہ میزبان ممالک میں اپنے مُلک کے سفیر ہوتے ہیں، اِس لیے بھی اُنھیں ہر لمحے محتاط رہنا چاہیے۔
س: تعلیم کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ کا سدّ ِباب کیسے ممکن ہے؟
ج: بہت سے ایجنٹس نے مجبور، بے روزگار نوجوانوں کو لُوٹنے کے لیے کئی چور دروازے تلاش کر لیے ہیں، جن میں سے ایک بیرونِ مُلک تعلیم کا دروازہ بھی ہے۔ یہ ایجنٹ، جعلی کاغذات اور بینک اسٹیٹمینٹس بنا دیتے ہیں۔ اِس طرح ایک، دو فی صد نوجوان بیرونِ مُلک پہنچنے میں کام یاب بھی ہو جاتے ہیں، جسے دیگر کے لیے مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ غیر قانونی طور پر جانے والے ایسے نوجوانوں کی دیارِ غیر میں بہت بُری حالت ہوتی ہے۔
اِس سلسلے میں حکومت کو قانون سازی اور ایک واضح پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔ دنیا میں افرادی قوّت بیرونِ مُلک بھجوانے والوں کے لیے ایک لائسنس کا حصول لازمی ہے، لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہیں۔ جو شخص چاہے، ایک کمرا کرائے پر لے اور کوئی بورڈ لگا کر لوگوں کو بیرونِ مُلک بھجوانے کا کام شروع کردے۔ مَیں اِس سلسلے میں قانون سازی کے لیے ہر فورم پر آواز اُٹھاتا چلا آ رہا ہوں، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، لیکن گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے۔ غیر قانونی سرگرمیوں سے حقیقی طلبہ کا نقصان ہوتا ہے۔حکومت کا فرض ہے کہ ترقّی یافتہ ممالک کی یونی ورسٹیز سے پاکستانی طلبہ کی تعلیم و تحقیق کے لیے سرکاری سطح پر بات چیت کرے۔ حقیقی طلبہ کو جرمنی، امریکا اور دیگر ممالک کے سفارت خانوں سے اپوائنٹ منٹس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی سرکاری سطح پر حل ہونا چاہیے۔
لائق بچّوں کو جب باہر جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو اُن میں سے بھی بعض غیر قانونی طریقے اختیار کرلیتے ہیں، جس کا اُنہیں اور اُن کی فیملیز کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس وقت دنیا بَھر میں افرادی قوّت، خاص طور پر Skilled Labour کی اشد ضرورت ہے، اگر حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے، تو پاکستانی ہنر مندوں کو سرکاری طور پر بیرونِ ممالک بھیجا جاسکتا ہے، جب کہ لائق اور ذہین طلبہ کی غیر مُلکی یونی ورسٹیز تک رسائی میں معاونت کی جا سکتی ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ پاکستانی نوجوان خواہ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک جائیں یا جاب کے لیے، باعزّت طریقے ہی سے جائیں اور کسی غیر قانونی امیگریشن کا حصّہ نہ بنیں۔
س: غیر مُلکی یونی ورسٹیز کے وہ کون سے کلیدی شعبے ہیں، جن میں اعلیٰ تعلیم مفید ثابت ہو سکتی ہے؟
ج: مینجمنٹ سائنسز کے جدید کورسز نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ پھر آرٹی فیشل انٹیلی جینس کا شعبہ بھی اہم ہے۔ اس کے علاوہ فنانشل ٹیکنالوجی، فرانزک اکاؤنٹنگ، فنانشل رِسک مینجمنٹ، ایم بی اے، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور میڈیا کے شعبے میں بھی بے شمار کورسز ہیں۔
ڈرون انجینئرنگ بھی ایک نیا سبجیکٹ ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ہیلتھ سائنسز میں لاتعداد نئے پروگرام متعارف ہوئے ہیں۔ اِسی طرح مالیکیولر انجینئرنگ اور بائیو انفارمیٹکس کے کورسز ہیں۔ غرض، جدید کورسز کا ایک طویل سلسلہ ہے، جو ذہین نوجوانوں کو بے شمار مواقع فراہم کرتا ہے۔
غیر مُلکی یونی ورسٹیز میں ہر سال نئے کورسز متعارف ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں سوشل انجینئرنگ کا شعبہ متعارف کروایا گیا ہے۔ وہاں طریقۂ تدریس بھی یک سَر بدل چُکا ہے کہ اب کلاس روم میں استاد کی بجائے طالبِ علم ہی توجّہ کا مرکز ہوتا ہے۔ اساتذہ، طلبہ کو نصابی کیڑا بنانے کی بجائے Critical Thinking کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ چیز پہلے بھی موجود تھی، لیکن اب اس پر زیادہ توجّہ دی جاتی ہے کہ طلبہ عملی طور پر مسائل سے کس طرح عُہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔
اب تدریس کے ایسے ٹُولز استعمال ہو رہے ہیں، جن کا چند برس قبل تصوّر تک نہیں تھا۔ یونی ورسٹیز کا اسیسمنٹ اور امتحانی طریقۂ کار بھی بدل گیا ہے۔ اب صرف امتحان نہیں ہوتا، بلکہ سارا سال طلبہ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ طلبہ کے گروپس اور انفرادی اسائنمنٹس ہوتے ہیں۔ کلاس رومز کے بحث مباحثوں کو امتحانات میں تبدیل کر کے بھی طلبہ کو پرکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غیر مُلکی یونی ورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم نئی دنیا کے دروازے کھول دیتی ہے، تو شخصیت میں بھی توازن اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اِنہی غیر معمولی خصوصیات کی بنیاد پر یہ یونی ورسٹیز اربوں، کھربوں ڈالرز کے عالمی کاروبار اور زرِمبادلہ کمانے والی ایکسپورٹ انڈسٹری کا حصّہ بن گئی ہیں۔