بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ
جاوید جمال کا شمار مُلک کے نام وَر اداکاروں میں ہوتا ہے۔ ایک سو سے زاید ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کے جوہر دِکھا چُکے ہیں۔ اُنھیں درجن بَھر زبانوں پر عبور حاصل ہے، جب کہ آٹھ زبانوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرچُکے ہیں۔ وہ اِس شعبے کو ذریعۂ معاش کے علاوہ ایک قومی فریضہ بھی سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُن کی زندگی کے کئی پہلو سامنے آئے۔
س: اپنی ابتدائی زندگی، خاندان اور تعلیمی پس منظر سے متعلق کچھ بتائیے؟
ج: مَیں1969ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ میرے نانا ریلوے میں ملازم تھے، تو ہم ریلوے کالونی، کوئٹہ میں رہتے تھے۔ والد، عبدالقادر ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ تھے اور گاڑیوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ ہمارے اڑوس پڑوس میں اردو اور پنجابی بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، اِس لیے یہ دونوں زبانیں سیکھ لیں۔ ویسے ہمارا آبائی علاقہ مستونگ ہے۔
ہمارا قبیلہ علیزئی ہے اور والد بگٹی ہیں۔ ہم دو بھائی ہیں اور ہماری دو ہی بہنیں ہیں۔ چھوٹا بھائی، اعجاز ایک نجی ٹی وی چینل میں آڈیو انجینئر ہے، اُس نے کچھ عرصہ اداکاری بھی کی۔ میری شادی 1977ء میں ہوئی۔ میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑے بیٹے عبدالقادر نے، جس کا نام اپنے والد کے نام پر رکھا،خضدار انجینئرنگ یونی ورسٹی سے ڈگری لی ہے۔
دوسرے بیٹے، عبدالرحمٰن نے صحافت میں ماسٹرز کیا ہے، بیٹی ربیعہ بی ایس کر رہی ہے اور چھوٹا رافع میٹرک کر چُکا ہے۔ مَیں نے سنڈیمن ہائی اسکول سے میٹرک کیا، جہاں میرے کلاس فیلوز میں نام وَر لکھاری ہاشم ندیم اور اداکار اصل دین بھی شامل تھے۔ اسکول کے زمانے میں خُوب کرکٹ کھیلی، لیکن پھر دل برداشتہ ہوکر چھوڑ دی کہ بلوچستان سے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو کبھی پذیرائی نہیں ملی، جب کہ میرے بھائی، اعجاز بھی انڈر19کھیل چُکے تھے۔
س: اداکاری کی جانب کیسے آئے؟
ج: ہمارے گھر کے قریب’’ امداد سینما‘‘ تھا، جہاں کبھی کبھار فلمیں دیکھنے چلا جاتا تھا۔ کچھ اداکاروں سے بے حد متاثر ہوا، خاص طور پر آصف خان سے ملنے تو لاہور بھی گیا۔ البتہ یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک روز مَیں اُن کے ساتھ کام کروں گا یا اُن کے بیٹے، ارباز خان کے ساتھ کسی ڈرامے کی کاسٹ میں شامل ہوں گا۔ اب یقین ہوگیا کہ شوق اور اچھی نیّت کے ساتھ کوئی بھی کام کیا جائے، تو منزل خود بخود قریب آ جاتی ہے۔ بہرکیف، اداکاری کا شوق فلمیں دیکھ کر پیدا ہوا۔
پہلے پہل اسٹیج اداکاروں سے قریب ہونے کے لیے اُن کی تنظیموں تک رسائی حاصل کی۔ پہلا اسٹیج ڈراما’’ پیر فراڈی‘‘ کیا اور اُس کے بعد براہوی زبان میں ایک اسٹیج ڈراما کیا۔ بعدازاں، کسی سہارے کے بغیر، پوری خود اعتمادی کے ساتھ ٹی وی اسٹیشن جا پہنچا اور پروڈیوسر بیدل مسرور سے ملا۔ اتفاق سے اُس وقت وہاں ایک ڈرامے کی شوٹنگ ہو رہی تھی، جس کا نام’’پیدا گیر‘‘ تھا، اِس میں مجھے ڈاکیے کا کردار دے دیا گیا۔
ریہرسل کے بعد اگلے روز نوبجے ریکارڈنگ کا وقت طے ہوا۔ مَیں نے مقرّرہ وقت پر ڈاک خانے پہنچنے کا پوچھا، تو بیدل مسرور مسکرائے اور کہنے لگے۔’’ بھائی! ڈاک خانے جانے کی ضرورت نہیں، ٹی وی اسٹیشن آجانا، یہیں سیٹ لگا ہوگا۔‘‘ اِس سے میری سادگی کا اندازہ لگالیں۔ اُس وقت ایک ہی ٹی وی چینل، یعنی پی ٹی وی تھا، تو کام ملنا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔
پھر یہ کہ تمام اسٹیشنز میں مقابلے کا رجحان بھی تھا۔ پروڈیوسر اکثر آسان کام سمجھ کر آتے، مگر جلد ہی محنت طلب کام دیکھ کر بھاگ جاتے، نیز، لکھنے والے بھی کم تھے اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔
س: آپ نے سرکاری ملازمت بھی تو کی ہے؟
ج: مَیں میٹرک میں تھا، جب والد کا انتقال ہوا، یوں گھریلو ذمّے داریوں میں اضافہ ہوگیا۔ نام وَر شاعر، عطاء شاد کے پاس گیا اور اُنھیں اپنی مجبوری بتائی، جس پر اُنہوں نے فوری طور پر ٹیسٹ، انٹرویو کے احکامات جاری کیے اور مَیں انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی ہوگیا۔ اکثر سرکاری ڈیوٹی اور ٹی وی کی مصروفیات آڑے آتی تھیں، اِس لیے وقت سے پہلے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا۔
س: اب تک کتنے سیریلز میں کام کر چُکے ہیں؟
ج: اندازاً100سے زاید سیریلز ہوں گے، جن میں اردو اور انگریزی کے علاوہ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی، براہوی اور ہندکو زبانوں کے ڈرامے بھی شامل ہیں۔ بتاتا چلوں کہ مَیں ایک درجن سے زاید زبانیں جانتا اور بولتا ہوں، جس میں رشین زبان بھی شامل ہے۔
ہمارے ایک دوست جمالی مری سوویت یونین سے پڑھ کر آئے تھے، تو مَیں نے اور اداکار ظاہر لہڑی نے پی ٹی وی، کوئٹہ مرکز میں اُن سے یہ زبان سیکھی، جب کہ انگریزی زبان سیکھنے کے لیے ایک لرننگ سینٹر جاتا تھا۔
س: فلموں میں بھی اداکاری کی، وہ تجربہ کیسا رہا؟
ج: جی ہاں! پنجابی فلم’’شاہ جی‘‘میں اداکار شاہد، شفقت چیمہ، صائمہ اور میرا کے ساتھ کام کیا۔ اِس کے علاوہ فلم’’گھرانہ‘‘ اور ’’کان نگر‘‘ میں بھی کام کیا، البتہ فلم انڈسٹری کا باقاعدہ حصّہ اِس لیے نہیں بن سکا کہ وہاں کا مزاج اور ٹی وی کا مزاج بالکل مختلف ہوتا ہے۔
ٹی وی میں کام کرتے ہوئے خاموش فضا سے سامنا ہوتا ہے، جب کہ فلم میں شور شرابا زیادہ ہے۔ وہاں شور شرابے کا تاثر مِٹانے کے لیے ڈبنگ سے کام لیا جاتا ہے، اس کی خواری زیادہ ہے۔ تاہم، اب کراچی میں جو فلمیں بن رہی ہیں، اُن کا ماحول اور مزاج ٹی وی سے قریب تر ہے۔
میٹرک میں تھا کہ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمّے داری کاندھوں پر آن پڑی
س: اپنی آواز کا جادو کہاں کہاں جگایا؟
ج: بنیادی طور پر میری آواز سُن کر اکثر لوگ مجھے ریڈیو کا صدا کار سمجھتے ہیں، حالاں کہ مَیں نے ریڈیو میں بہت کم کام کیا ہے۔ تُرکی زبان کے ڈرامے’’ میرا سلطان‘‘ کے ٹائٹل کردار کی آواز کی ڈبنگ کے لیے مجھے چُنا گیا تھا۔ ایک روز اچانک نور الہدیٰ شاہ صاحبہ کا فون آیا اور مجھے ایک نجی ٹی وی میں وائس اوور کے لیے کہا گیا۔
’’میرا سلطان‘‘ میں کام کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن مجھے نور آپا کے تین سالہ کانٹریکٹ نے زیادہ متاثر کیا کہ مَیں اُن دنوں کراچی میں کرائے کے فلیٹ میں رہتا تھا اور ذاتی چھت کی خواہش تھی، اِس لیے مَیں نے اِسے ایک بہترین موقع جانا۔ نیز، اس کے ساتھ بے شمار کمرشل بھی کیے۔ جب کہ اداکاری تو کرتا ہی رہا اور ڈرامے بھی لکھتا رہا۔
س: ڈراما لکھنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟
ج: اکثر ڈراموں میں کام کرتے ہوئے پروڈیوسر اور رائٹر کی معاونت کیا کرتا تھا، جب کہ تعمیری تنقید بھی میری سرشت میں شامل ہے۔ پروڈیوسر، دوست محمّد گشکوری میری کہانی سمجھنے کی صلاحیت کو بھانپ چُکے تھے اور اُنہوں ہی نے مجھے ڈراما لکھنے کا مشورہ دیا اور مسلسل اصرار بھی کرتے رہے۔
پہلاسیریل’’تپتی چھاؤں‘‘لکھا، جسے دوست محمّد گشکوری نے پروڈیوس کیا۔ مَیں دس سال کی مسلسل محنت کے بعد فردوس جمال، سہیل اصغر کے ساتھ بہترین اداکار کے طور پر نام زَد ہوا۔ اس کے بعد سیریل’’موڑ‘‘ اور’’ پری‘‘ لکھے، جب کہ ٹیلی فلمز بھی کیں۔
س: آپ کا اصل نام تو سلطان جاوید ہے، نام میں تبدیلی کی وجہ کیا بنی؟
ج: مَیں اداکار فردوس جمال سے بے حد متاثر ہوا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اُن کے ساتھ کام کا بھی موقع ملا۔ یوں اُن کا نام مَیں نے اپنے نام کے ساتھ شامل کرلیا۔ ایک موقعے پر اُنھیں اپنا نام بدلنے کی وجہ بتائی، تو وہ حیرت زدہ ہونے کے ساتھ بہت خوش بھی ہوئے۔ اب اکثر دوست مجھے’’ جے جے‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
آٹھ زبانوں میں ایک سو سے زاید ڈرامے، فلمیں کر چُکا ہوں
س: کبھی گلوکار بننے کا خیال نہیں آیا؟
ج: اداکار نہ ہوتا، تو شاید گلوکار ہی ہوتا۔شروع سے میں ناشناس کے انگ میں گاتا ہوں اور دوست نجی محفلوں میں کچھ سُنانے کی فرمائش بھی کرتے ہیں۔’’ بابا کے دیس میں‘‘کا آخری سین تھا، قائدِ اعظم کے مزار پر مَیں نے اور عبداللہ بادینی نے فیصلہ کیا کہ فیوزہ نور کے گیت’’ اے جذبۂ دل گر مَیں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے‘‘ پر اختتام ہو، چوں کہ کردار مَرد کا تھا، تو مردانہ آواز میں گانا چاہیے تھا۔ سو، طے ہوا کہ ناشناس کے انگ اور انداز میں میری آواز میں گانا ریکارڈ ہو اور پھر ایسا ہی ہوا، یوں مَیں نے گلوکاری بھی کی۔
س: آپ اِتنا کچھ لکھتے ہیں، مگر لکھنے کے لیے پڑھنا بھی تو پڑتا ہے؟
ج: یہ درست بات ہے اور اِسی لیے مجھے شروع ہی سے مطالعے کا شوق رہا ہے۔ مشکل حالات میں تعلیم مکمل کی۔ میرے خالو رازق بگٹی ادیب، دانش وَر اور سیاست دان تھے، مَیں اُن کی لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتا تھا۔
پہلا ناول’’ماں‘‘ پڑھا اور پھر ایسا چسکا لگا کہ کرشن چندر، عصمت چغتائی سب ہی کو پڑھ ڈالا۔ شاعری بھی پڑھی اور حال ہی میں واصف علی واصف کو پڑھا ہے۔
س: اپنے کن ڈراموں کو یادگار سمجھتے ہیں؟
ج: جیو ٹی وی کا ڈراما’’خئی‘‘ گزشتہ دنوں کافی مقبول ہوا۔’’نقاب‘‘ آن ایئر ہے۔ مٹی، ہم جانثار، سزا، تپتی چھاؤں اور بھی بہت سے ڈرامے ہیں۔ ویسے تو دل جمعی سے کام کرنے والے سارے ہی ڈرامے یادگار ہیں۔ البتہ’’خئی‘‘ڈراما ایک بڑا پراجیکٹ تھا اور اُسی کے شوٹ کا ایک واقعہ سُناتا ہوں۔ گلگت میں اس کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی اور جس گھوڑے پر مَیں سوار تھا، اُس پر ایک کتّے نے حملہ کردیا، جس پر گھوڑے کے بدکنے سے مَیں زمین پر گر پڑا۔
مگر اللہ کے فضل سے کسی بڑے حادثے سے محفوظ رہا۔ دوستوں اور گھر والوں نے صدقہ اُتارنے کا کہا، تو اگلے روز شہر کی مختلف گلیوں اور سڑکوں پر ڈرائیور کے ساتھ گھومتا رہا۔ اُس نے میری پریشانی کی وجہ پوچھی، تو مَیں نے کہا کہ مجھے کسی بھکاری کی تلاش ہے، اِس پر ڈرائیور نے بتایا کہ گلگت میں آپ کو کوئی بھکاری نہیں ملے گا، یہاں لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں اور جو کام کے قابل نہیں ہوتے، اُن کی ضرورتوں کا خیال باقی لوگ رکھتے ہیں۔
س: کِن کِن کے ساتھ کام کے مواقع حاصل ہوئے؟
ج: آصف خان، قوی خان، افضال احمد، شفقت چیمہ، ریشم، میرا، صائمہ، شاہد، فردوس جمال، شفیع محمّد، طلعت حسین کے ساتھ کام کیا اور اِس ضمن میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے چوٹی کے اداکار، اداکاراؤں کے ساتھ، بڑے ڈائریکٹرز، ڈراما نگاروں کے ڈراموں میں کام کا موقع ملا۔
نیز، ریکارڈنگ کے سلسلے میں دبئی، تھائی لینڈ کے علاوہ پاکستان کے بہت سے شہروں میں جاچُکا ہوں۔ ویسے سیروتفریح کا موقع کم ہی ملتا ہے، حالاں کہ امریکا اور لندن میں موجود رشتے دار بھی اکثر آنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔
س: بچّوں کو بھی اِس شعبے میں آنے کا شوق ہے؟
ج: بڑے بیٹے نے نجی ٹی وی چینل کے ایک مقابلے کے لیے میری لکھی اور پروڈیوس کی ہوئی شارٹ فلم میں اداکاری کی ہے، جس کا نتیجہ ابھی آنا ہے۔ اِس مقابلے کے لیے سیکڑوں شارٹ فلمز آئیں، جب کہ54 فلمز پر مشتمل حتمی فہرست میں ہماری فلم سرِفہرست ہے۔
س: زمانوں کا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج: کسی زمانے میں کوئٹہ ٹی وی سینٹر میں داخل ہوتے، تو ناموں کی تختی پر قاسم جلالی، امیر امام، دوست محمّد گشکوری، سجّاد احمد، نصرت ٹھاکر جیسے بڑے بڑے نام لکھے ملتے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ہم سایہ ممالک میں ہمارے ڈراموں کی گونج تھی۔
اب نئے اداکاروں سے مراکز کی شکل میں یہ بڑی اکیڈمیز چِھن چُکی ہیں۔ اب کوئٹہ کے جو نوجوان ناپا وغیرہ سے اداکاری سیکھ کر آئے ہیں، اُن کے لیے مواقع پیدا نہیں ہو رہے۔ پی ٹی وی مالی طور پر بحران کا شکار ہے، اسٹیج ڈراموں کی روایت دَم توڑ چُکی اور ریڈیو بھی عدم توجّہی کا شکار ہے۔
حالاں کہ فلم اور ڈراما انڈسٹری کو فروغ دے کر نہ صرف روزگار کے وسائل پیدا ہوسکتے ہیں، بلکہ اِنہیں نئی نسل کی تفریح اور اچھی تربیت کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ پی ٹی وی شاید دنیا کا واحد ادارہ ہے، جو ایک تو معاوضہ بہت کم دیتا ہے اور پھر ٹیکس کٹوتی بھی کرتا ہے اور رائلٹی بھی نہیں ملتی۔
س: سیر و تفریح اور شکار وغیرہ سے بھی کوئی دل چسپی ہے؟
ج: اسکول کے زمانے میں سائیکلز پر پہاڑی علاقوں میں جاکر پکنک مناتے تھے۔ ہاشم ندیم جب سیکرٹری ثقافت تھے، تو دوستوں کے ساتھ اُن سے ملنے گیا، ہم نے ٹاٹ اسکول کی پرانی یادیں تازہ کیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہم آدھی چُھٹی میں آپ کی سائیکل کا دیدار ضرور کرتے تھے، کیوں کہ اُس وقت کی اہم سواری سائیکل ہی ہوا کرتی تھی اور کسی کسی کو نصیب ہوتی تھی۔
اور جہاں تک شکار کی بات ہے، تو میں انتہائی حسّاس طبیعت کا مالک ہوں، یہاں تک کہ کبھی کبھار اسکرپٹ پڑھتے ہوئے بھی آنکھیں نَم ہو جاتی ہیں۔ مجھے اپنے دوستوں، رشتے داروں کو الوداع کہنے کی ہمّت نہیں ہوتی، تو آپ ہی بتائیے، بھلا مجھ جیسا شخص شکار کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔
س: اب تک کتنے ایوارڈز اپنے نام کرچُکے ہیں؟
ج: بے شمار۔ پی ٹی وی ایوارڈ، ایکسی لینس ایوارڈ اور بولان ایوارڈ بھی حاصل کرچُکا ہوں، لیکن عوام کا محبّت سے ملنا، سیلفیز بنانا، کسی تقریب میں پذیرائی کرنا، میرے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔
س: کھانے میں کیا پسند ہے؟
ج: کراچی میں ایک عرصے تک اکیلا رہا ہوں، تو اِس شہر نے مجھے ایک اچھا کُک بھی بنا دیا۔ دال چاول، پاپڑ اور مٹن قیمہ بناتا ہوں اور اِنہیں شوق سے کھاتا ہوں۔
س: خوش بُو اور پوشاک میں کیا پسند ہے؟
ج: خوش بُو میں سیواگ اور بقراط پسند ہیں۔ عام دنوں میں قمیص شلوار پہننے کو ترجیح دیتا ہوں کہ اس میں آزادی کا احساس ہوتا ہے۔
س: بلوچستان کے نوجوانوں کا شعبۂ اداکاری میں کیا مستقبل ہے؟
ج: بلوچستان کا نوجوان جس شعبے کو اپناتا ہے، کمال تک پہنچاتا ہے۔ اب ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانا حکومت کی ذمّے داری ہے۔ مثبت سرگرمیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع ضروری ہیں، جب کہ ان کے لیے تعلیم اور روزگار کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں کہ کسی قوم کی صلاحیتوں کو دَبانے سے بے گانگی، لاتعلقی اور دُوریاں جنم لیتی ہیں۔