آئی اے ای اے امریکہ کے لیے جاسوسی کرتا ہے! جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے بنائے گئے ادارے کا دفتر آسٹریا میں ہے جو امریکی صدر آئزن ہاور کی اقوامِ متحدہ میں تقریر" امن کے لیے جوہری صلاحیت" کے نتیجے میں 1957 میں وجود میں آیا۔ یہ کمال ہنر بھی امریکہ کا ہے کہ ایک طرف ہارے ہوئے جاپان پر محض تجربے کے لیے ایٹم بم گرایا جبکہ باقی ممالک کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے یہ ادارہ بنا یا گیا۔ اگر امریکہ جاپان پر ایٹم بم گرانے سے شرمندہ تھا تو امن کے نام پر تقریر کرنے سے پہلے اپنے جوہری ہتھیار اور ایٹم بم تلف کرنے کا اعادہ کرتا۔ اقوامِ متحدہ کو رپورٹ کرنے والا یہ ادارہ اس کے تابع نہیں بلکہ اس کا اپنا 35 رکنی بورڈ آف گورنر ہے جن میں سے11 عملاًمستقل امریکہ اور اسکے حواری ہوتے ہیں جبکہ باقی اراکین ادارے کی جنرل کانفرنس منتخب کرتی ہے۔ 1998 میں جوہری ملک بننے کے باوجود بورڈ آف گورنر کے لیے پاکستان کو چنا نہیں گیا جبکہ ہندوستان 1957 سے بورڈ کا رکن بنایا گیا حالانکہ ہندوستان نے اپنا جوہری پروگرام 1967 سےشروع کیا تھا جبکہ ہندوستان کی جوہری غیر ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ آئے روز وہاں جوہری مواد چوری ہوتا ہے۔ دراصل اقوامِ متحدہ ہو یا آئی اے ای اے، سارے ادارے مغرب نے اپنے مفاد اور ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے بنائے ہیں۔ 10 جون کو ایران نے الزام لگایا تھا کہ آئی اے ای اے نے ایرانی جوہری پروگرام کی ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ اسرائیل کو دی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آئی اے ای اے کا کیا کردار ہے اور کیسے امریکہ کا بغل بچہ اسرائیل اس سے براہ ِراست مستفید ہوا۔اسرائیل کے حوالے سے لا تعداد شکایات کہ اس کے پاس 200 سے زائد ایٹمی بم ہیں، آئی اے ای اے نے ان پر عمل کیا نہ اسرائیل کو تنبیہ کی، نہ جانچ پڑتال اور تلاشی کی کوشش کی جبکہ عراق، لیبیا اور ایران کے جوہری پروگراموں کے لیے وہ تڑپ جاتا ہے۔ لیبیا نے 2004 میں اپنی جوہری تنصیبات اور اسلحہ سازی پروگرام ختم کر دیا تھا جس کے پرزہ جات آئی اے ای کے ہیڈ کوارٹر آسٹریا کے بجائے امریکہ کے حوالے کیے۔چونکہ لیبیا کے صدر معمر قذافی ایک مطلق العنان حکمران تھے لٰہذا 2011 تک امریکہ اپنی تمام کوششوں کے بعد ا سےختم کرنے کے لائق ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے ذریعے امریکہ نے انسانیت کے خلاف جرائم کے نام پر لیبیا کو دہشت گرد قرار دلوایا، نیٹو کے ساتھ مل کر 26,500 ہوائی حملوں سے ملک کا تیا پانچا کر دیا۔ اسی طرح جب عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ ہونے کی آئی اے ای اے سے تصدیق ہو گئی تو امریکہ اس پر چڑھ دوڑا، پورا ملک ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اب ایران بھی آئی اے ای اے کا شکار ہوا ہے کہ جیسے ہی آئی اے ای اے نے تصدیق کی کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں تو امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے حملہ کروا دیا۔ ایران بار بار اعلان کرتا رہا کہ وہ پرامن جوہری صلاحیت حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہےلیکن کسی نے اس کی نہ سنی۔ اگر ایران اپنے تحفظ کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کرنا چاہے تو اسے روکنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ ہر ملک اپنی بقاء و سلامتی کے لیے ایسی دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے جو اسکے تحفظ کی ضامن ہو۔ البتہ جوہری صلاحیت کے تحفظ اور سیکیورٹی کے لیے مناسب انتظامات پر عمل درآمد کسی ادارے سے کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دفاعی جوہری صلاحیت ایک بہت بڑا ڈیٹرنٹ ہے جو کسی ملک پر دوسرے ملک کو حملہ آور ہونے سے روکنے کی ضمانت ہے۔ لیکن اسرائیل اور امریکہ کو منظور نہیں کہ ایران کسی صورت جوہری صلاحیت حاصل کرے۔
صدر ٹرمپ جی سیون اجلاس چھوڑ کر ایمرجنسی میں امریکہ واپس پہنچے۔ آتے ہی انہوں نے ایران کو تابڑ توڑ دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ کبھی وہ ایران پر براہِ راست حملہ کرنے کا کہتے ہیں تو کبھی آیت اللہ خامنائی کو قتل کرنے کی دھمکیاں لگادیتے ہیں۔ ایسے سخت الفاظ استعمال کر رہے ہیں جسے کوئی باغیرت و باحمیت قوم برداشت نہیں کر سکتی۔ ان کا مقصد ہے کہ ایران بھڑک کر کسی امریکی اڈے یا اثاثے پر حملہ کر دے اور یوں امریکہ کے پاس ایران پر حملہ کرنے کا جواز آ جائے۔ امریکہ ایران پر کب سے حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے لیکن چونکہ ایران کو باضابطہ طور پر امریکی قانون کے مطابق دشمن ملک قرار دیا جا چکا ہے لٰہذا ایران پر حملہ کرنے کے لیے کانگریس سے اجازت لینا ہوگی جس کے لیے ایران کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد پیش کرنا ہوں گے۔ چونکہ ایران نے تا حال ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا ہے لٰہذا امریکہ نے بذریعہ "شیطن یاہو"، ایران پر جوہری بم بنانے کے الزام تراشیاں جاری رکھیں اور اسی بہانے سالہا سال اس پر پابندیاں لگائی رکھی ہیں۔ کبھی جےسی پی او عدم جوہری پھیلاؤ معاہدہ کر کے عارضی طور پر نرمی کا عندیہ دیا گیا اور کبھی بِلا جواز یکطرفہ امریکہ خود معاہدے سے دستبردار ہوگیا لیکن باقی مغربی ممالک نے جان بوجھ کر معاہدہ جاری رکھا تاکہ ایران جوہری صلاحیت حاصل نہ کر سکے۔ ایران کی بار بار یقین دہانیوں اور آئی اے ای اے کی سالانہ تصدیقی اسناد کہ ایران جوہری صلاحیت دفاعی مقصد کے لیے نہیں بنا رہا، امریکہ جے سی پی او معاہدے میں دوبارہ شامل نہیں ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگیں بند کروانے کے جھوٹے وعدے پر منتخب ہو کر دوبارہ برسر ِاقتدار آ گئے اور نئی جنگیں چھیڑ دیں ۔اسرائیل کو ایران کی پرامن جوہری صلاحیت سے کوئی خوف نہیں نہ ہی دفاعی صلاحیت سے ڈر۔ کیونکہ وہ خود دفاعی جوہری صلاحیت اور دنیا کی ظالم و سفاک ترین فوج کا حامل ہے۔ دراصل امریکہ ایران میں ولایتِ فقہی کو ختم کر کے رجیم چینج کرنا چاہتا ہے اور وہی پرانا شاہِ ایران کے "سفید انقلاب" کا داعی ہے۔ اسی خواہش کی تکمیل اور بدلے کی آگ بجھانے کے واسطے اس نے ایران پر جنگ مسلط کی ۔
ایران کی طرف سے اسرائیلی حملوں کےترکی بہ ترکی جواب کے لیے امریکہ تیار نہ تھا۔ اسی طرح اسرائیل کا نقصان اسکی توقع کے برخلاف نکلا جس کے باعث اپنے ایئر کرافٹ کیریئر اور ڈسٹرائر جہاز لیے صدر ٹرمپ چیں بہ چیں ہو رہے ہیں۔ ادھر "شیطن یاہو" کے پاس بیماری کے باعث وقت کم ہے جبکہ جنگ کے طویل ہونے کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان پر ہندوستان کے ذریعے حملوں کا مقصد ایران پر حملے سے پہلے پاکستانی صلاحیت کو غیر فعال اور نیوٹرل کرنا تھا، "موذی" سے صدر ٹرمپ کی خفگی اسی وجہ سے ہے کہ وہ دیے گئے مشن پر ناکام ہو گیا ۔ صدر ٹرمپ ہر جانب سے ناکام ہونے پرآپے سے باہر ہو رہے ہیں،ایسی دھمکیاں دے رہے ہیں جن کا ایران پر رتی برابر اثر نہیں ہوگا۔ البتہ مسلم اُمہ کو اس وقت ایران کی کم از کم اخلاقی مدد کرنا ضروری ہے وگرنہ گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہوگا اور اُمّت اپنی بے حسی کے باعث ذلیل و رسوا۔ خدانخواستہ!(جاری ہے)