فرانسیسی فلم ’ 100 ایئر: دی مووی یو وِل نیور سی‘ کو موجودہ دور میں موجود دنیا کا کوئی شخص اسے نہیں دیکھ سکے گا۔
جی ہاں، یہ فلم بن تو گئی ہے لیکن اس وقت دنیا میں موجود کوئی بھی شخص اسے کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔ ایسا کیوں ہے، آیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
سائنس فکشن پر مبنی اس فلم کو اداکار و مصنف جان مالکووِچ نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے ناصرف اس فلم کو لکھا بلکہ اس فلم میں مرکزی کردار بھی ادا کیا ہے۔
ہدایت کار رابرٹ روڈریگِز کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ مختصر فلم درحقیقت ایک تجرباتی فلم ہے۔ جسے ایک دہائی قبل 2015 میں مکمل کرلیا گیا تھا۔ تاہم آج موجود کوئی شخص اسے نہیں دیکھ سکے گا کیونکہ اس فلم کو ایک صدی بعد یعنی 18 نومبر 2115 کو ریلیز کیا جائے گا۔
یہ تجرباتی فلم ایک اشتہار بھی ہے، جو فرانسیسی کمپنی ریمی مارٹن کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے تاکہ وہ اپنی مشہور پروڈکٹ ’کونیاک لوئس 13‘ (Cognac Louis XIII) کی تشہیر کرسکیں۔
کونیاک دنیا کا انتہائی نایاب اور شاہانہ مشروب ہے، جسے تیار ہونے میں 100 سال لگتے ہیں، اسی تصور پر مبنی اس فلم کو ایک ہائی ٹیک والٹ میں بند کرکے اس پر ایک خود کار ٹائمر نصب کیا گیا ہے، جو ٹھیک سو برس بعد خود بخود کھل جائے گا۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں اس فلم کی کہانی کیا ہے، مستقبل میں اس فلم کو کون دیکھے گا، اس کی تشہیر کیسے ہوگی اور ٹکٹس کب اور کیسے ملیں گے؟ تو آپ کو یہ جان کر بھی حیرانی ہوگی کہ اس فلم کے 1 ہزار ٹکٹ پہلے ہی فروخت ہوچکے ہیں۔
اس فلم کے لیے میٹل سے تیار کردہ خاص ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں، جنہیں خریدار خاندان نسل در نسل منتقل کریں گے تاکہ 2115 میں جب یہ فلم ریلیز ہوتو ان ٹکٹوں کے حامل افراد کے وارثین اس فلم کے پریمیئر میں شرکت کرسکیں۔
جہاں تک بات اس فلم کی کہانی کی ہے وہ آج تک معمہ بنی ہوئی ہے جسے فلم کے مصنف اور ہدایت کار کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔