• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دھرماراجیکا‘‘ وقت کے رخسار پہ ٹھہرا، ایک قیمتی آنسو

جس طرح مکان، مکینوں سے آباد ہوتے ہیں ویسے ہی معبد، عبادت کرنے والوں سے اور درس گاہیں، طلبہ سے۔ مکین، مکان چھوڑجائیں، عبادت کرنے والے، معبد یا طلبہ، جامعات، تو یہ سب عمارات سنسان ویران، کھنڈر بیابان ہوجاتی ہیں۔ اِن میں وحشت ناک خاموشیاں ڈیرے جما لیتی ہیں، بے رونقی، بے نُوری چھا جاتی ہے۔

وہ ایک بہت خُوب صُورت صُبح تھی۔ موسم بےحد خوش گوار تھا اور ہم ٹیکسلا کی جانب محوِ سفر۔ ہماری پہلی منزل ٹیکسلا میوزیم ٹھہری، جہاں ٹیکسلا سے مختلف اوقات میں کھدائیوں کے نتیجے میں برآمد ہونے والے، عظیم الشان انسانی تاریخ کے کئی حوالے یعنی قیمتی نوادرات محفوظ کی گئی ہیں۔ میوزیم سے نکلنے کے بعد ہم اپنی اصل منزل یعنی ’’دھرما راجیکا‘‘ کی جانب روانہ ہوئے۔ واضح رہے، دھرماراجیکا، ٹیکسلا کی پہلی بدھ خانقاہ ہے، جو اشوک نےبنوائی۔ 

اشوکا نے اپنی سلطنت میں آٹھ مقامات پر ایسے اسٹوپا بنوائے تھے، جن میں گوتم بدھ کے کچھ تبرّکات محفوظ کیے گئے تھے، اور ٹیکسلا کا یہ اسٹوپا اُن ہی میں سے ایک ہے۔ معروف مورخ، تاریخ دان سبطِ حسن لکھتے ہیں۔ ’’اشوکِ اعظم سے کنشک تک وادیٔ سندھ کی تہذیب نے بدھ مَت کےسائے میں فروغ پایا تھا، چناں چہ اُس دَور کی فنی تخلیقات کی محرّک بھی وہ گہری عقیدت تھی، جو ہر طبقے کے لوگوں کو گوتم بدھ کی ذات اور تعلیمات سے تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ’’بھکشو‘‘عوام کی طرح سادہ زندگی گزارتے۔

گاؤں گاؤں تبلیغ کرتے پِھرتے، بھیک سے پیٹ بھرتے اور رات ہوتی تو کسی باغ میں درخت کے نیچے سو رہتے۔‘‘ اِسی ضمن میں ایک اورحوالہ اِس طرح ہے۔ ’’بدھ بھکشو اور طالبِ علم شہر کے شور و غل سے دُور رہنے کے عادی تھے، اسی وجہ سے سرکپ کے جنوب مشرق میں، پہاڑیوں میں گِھری ایک عظیم جامعہ ’’دھرماراجیکا‘‘ تعمیر کی گئی، جس میں دنیا بھر سے سیکڑوں تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ بدھ بھکشوؤں کی اِس یونی ورسٹی، یعنی دھرماراجیکا اسٹوپا کا شمار برصغیر کے قدیم ترین اسٹوپائوں میں ہوتا ہے۔‘‘ یوں کہیے، یہ وقت کے رخسار پہ ٹھہرا ایک قیمتی آنسو ہے۔

ٹیکسلا میوزیم سے تقریباً8.2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’’دھرماراجیکا‘‘ کے یہ سنسان، ویران کھنڈرات، صدیوں پہلے ایک باقاعدہ آباد شہر، ایک وسیع وعریض جامعہ کی صُورت زندہ وتابندہ تھے۔ راجا پشکرشکتی (565 ق۔ م) کے زمانے میں طلبہ یہاں کی جامعات میں تینوں ویدوں اور اٹھارہ ودیاؤں میں ہدایت حاصل کرتے تھے۔ 

پھر شاہی اسٹوپاؤں کی دیکھ بھال کے لیے بھکشو مقرر ہوئے، اُن کی رہائش کے لیے وہار بنائے گئے اور آس پاس کی زمین اِن مصارف کے لیے وقف کر دی گئی۔ یاتریوں کی آمدورفت شروع ہوئی، بدھ اور اُس کے چیلوں کی مُورتیاں بننے لگیں، مَنّت کے چڑھاووں، نذرانوں کے انبار لگنے لگے۔ 

ارد گرد متعلقہ افراد مثلاً صنم تراشوں، زرگروں، کمہاروں، ساہو کاروں، تعویذ مالا اور پھول بیچنے والوں کی دُکانیں کُھل گئیں۔ حُجروں میں دروازے، وہاروں کےاطراف دیواریں کِھنچ گئیں۔ بدھ بھکشو یہاں ویساکھ مناتے، پھول سجاتے، اسٹوپا کے گرد عقیدت واحترام سے چکر کاٹتے، تو یہاں خُوب رونق، بہت چہل پہل ہوتی۔ مگراب کبھی کبھار ہی کوئی بھولا بھٹکا سیّاح اِدھر آنکلتا ہے، وگرنہ تو چہارسُومہیب خاموشی ہے۔ ایسی خاموشی کہ دل کی دھڑکن بھی صاف سنائی د یتی ہے۔ 

خیر، ہم دھرماراجیکا کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے، توہمارے ساتھ ساتھ ہی پانچ افراد (مرد و خواتین) پرمشتمل غیرمُلکی سیاحوں کا ایک گروپ بھی داخل ہوا۔ اُن سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ اُن کا تعلق اٹلی سے ہے اور وہ پاکستان میں سیاحت کی غرض سےآئے ہیں۔ ہم جب بھی پاکستان میں مختلف سیاحتی مقامات پر اِن غیرمُلکی سیاحوں کو دیکھتے ہیں تو بہت ہی خوش گوار احساس، ایک اَن جانی سی مسرت دل میں جاگتی ہے، کیوں کہ ہم پاکستان میں غیر مُلکی سیاحت کے امکانات سے بخوبی واقف ہیں، اِس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ غیر مُلکی سیاحت ہماری قومی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔

بہرکیف، سرسبزوشاداب درختوں کےسائے میں، جن کی ٹہنیاں جُھک جُھک کر سیاحوں کا استقبال کر رہی تھیں، ہم سیڑھیاں چڑھ کراوپر پہنچے۔ سیڑھیاں بہت خستہ سہی، لیکن صدیاں گزرنے کے باوجود تاحال اپنا کام ضرور انجام دے رہی ہیں۔ اوپر پہنچے، تو عظیم الشان دھرما راجیکا اسٹوپا آنکھوں کے سامنے تھا۔ ’’دھرما راجیکا‘‘ کا مطلب ہے، راجا کا دھرم۔ دراصل جب چندر گپت موریا کے پوتے، اشوکا نے بُدھ مت قبول کیا تو اُس نے یہ اسٹوپا تعمیر کروایا۔ اور پھر یہاں گوتم بدھ کی راکھ اور دانت لا کر رکھے گئے۔

مَیں اسٹوپا کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا اور ڈھائی ہزار برس پہلے کا منظر جیسے میری آنکھوں کے سامنے مجسّم تھا کہ جب اشوکا اِنہی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر تقریر کررہا تھا۔ اُس کے وہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ’’میرے ننانوے بھائی تھے۔ میرے بھائی نے تکشاشلا کا بادشاہ بننا تھا، لیکن وہ مرگیا اور مَیں نے بزورِبازو یہاں قبضہ کر لیا۔ میں ایک بدہیئت انسان تھا۔ مَیں نے کلنگ کی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔

اتنے ہی بھوک اور بیماری سے مرگئے، پھر مَیں نے ایک روز لوگوں سے پوچھا۔ کیا مَیں خُوب صُورت ہوں؟ تو اُن کاجواب ڈر،خوف کے عالم میں تھرتھرانے کی صُورت مِلا۔ مجھےایک بدھ بھکشو ملا، تو اُس نے بتایا کہ خُوب صورتی تو دراصل محبّت میں پنہاں ہے، ڈر و خوف میں نہیں۔‘‘ بعد ازاں، اِسی اسٹوپا پر اشوکا نے انسانوں، جانوروں، درختوں سے محبّت کا درس دیا۔ انسانوں، جانوروں اور درختوں کی حفاظت کے اصول و ضوابط طے کیے۔

اسٹوپا کے پاس کچھ دیر ٹھہر کے، ہم دھیرے دھیرے چلتے چلتے آگے بڑھتے گئے۔ پانی محفوظ کرنے کے لیےایک تالاب، ایک اوراسٹوپا، جس کے گرد بدھا کے چھوٹے چھوٹے مجسمے بنے تھے، پانچویں صدی عیسوی میں وائٹ ہنز کے ہاتھوں تباہ ہونے والے چھوٹے، بڑے مجسموں کی باقیات، خانقاہ، بدھ بھکشوؤں کے رہائشی کمروں کے آثار، عبادت کے کمرے، آٹا پیسنے کی جگہ…ایک کے بعد ایک، یہ سب کچھ ہم نے دھرماراجیکا ہی میں دیکھا۔ 

آخر میں، ایک عُمر رسیدہ پیڑ کے سائے میں لگے بینچ پر کچھ دیر بیٹھے، تو ہلکی ہلکی خنک ہوا کے جھونکے، پتھروں کو چُھو کر، وجود سے ٹکرانے لگے، اور تب ہم نے خُود کو صدیوں پرانی ایک پُرشکوہ، عظیم الشان تہذیب میں گویا مدغم ہوتا محسوس کیا۔