• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(اصغر ندیم سیّد)

اصغر ندیم سیّد کو ابتدائی شہرت ٹی وی ڈراموں سے ملی۔ جنوری 1950ء میں، ملتان میں ولادت پانے والے اس ہمہ جہت تخلیق کار نے بعد ازاں شاعری، افسانہ کاری، خاکہ اور ناول نگاری میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ وہ بلاشبہ ادب وفن کے حوالے سے عوام و خواص میں معروف ومقبول ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں کہ پون صدی کی عُمر کو پہنچنے والے اس نابغۂ روزگار ادیب کا تخلیقی جوہر آج بھی پورے جوبن پر ہے۔

فِکشن کے میدان میں ذرا دیر سے طبع آزمائی، خامہ فرسائی کرنے والے اِس ممتاز تخلیق کار نے اِس تصوّر کو بھی باطل کر دیا ہے کہ بڑھتی عُمر کےساتھ لکھاری کے قلم کی جولانی متاثر ہوتی ہے۔ واضح رہے، شاہ صاحب نے اپنے تیکھے قلم سے کاٹ دارجملے تحریر کر کے حقائق اور فِکشن کے ملاپ کی تیکنیک ’’فیکشن‘‘ کو جس عمدگی اور بھرپور کام یابی سے اُردو ادب میں استعمال کیا ہے، کم ہی افراد کر پائے ہیں۔

’’بٹوارا‘‘ سردار سرجیت سنگھ برنالا کی رُوداد، ایک خاندان کا قصّہ، ایک ایسا افسانہ ہے، جس میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ہجرت کر جانے والے خاندان کا ایک فرد اپنا آبائی گھر دیکھنے آتا ہے، تو ایک عجب ہی نظارہ اُس کا منتظر ہوتا ہے۔

چندی گڑھ کے بلاک نمبر32کی ایک سادہ سی کوٹھی میں سردارسرجیت سنگھ برنالہ، اپنی بیوی امرت کور اور بیٹی ریتو کور کے ساتھ رہتا ہے۔ کوٹھی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گھر والوں کو فنِ باغ بانی سےکوئی دل چسپی نہیں۔ کوٹھی کی ظاہری شکل سے بھی لگتا ہے کہ اِس پر کوئی توجّہ نہیں دی گئی۔ 

وجہ یہ ہے کہ یہ کوٹھی سردار سرجیت سنگھ برنالہ کے باپو، سردار ہرمیت سنگھ برنالہ نے اُس مکان کو بیچ کے بنائی تھی، جو اُسے بٹالہ میں الاٹ ہوا تھا۔ جب وہ 1947ء میں پاکستان سے ہجرت کرکے بھارت آیا اور جب اُس نے یہ کوٹھی بنائی، تب اُس کی پتنی سروپ کور زندہ تھی۔ 

اُس کا بیٹا سردار سرجیت سنگھ برنالہ پنجاب سروس میں انجینئر کےعہدے پرنیا نیا فائز ہوا تھا۔ اِسی کوٹھی میں اُس کی شادی امرت کورسے ہوئی۔ کچھ وقت تو اُسے نئی کوٹھی میں گزارنے کا موقع ملا اوریہ اُس وقت کی بات ہے، جب چندی گڑھ نیا نیا آباد ہو رہا تھا۔ اِکّادُکّا کوٹھیاں دُوردُور سے دکھائی دیتی تھیں۔ سردار ہرمیت سنگھ برنالہ اس کوٹھی میں آکر بےحد بے چین رہنے لگا تھا۔ وہ شروع سے بےچین تھا یاچندی گڑھ آکر بےچین رہنے لگا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ 

جب بٹالہ میں الاٹ شدہ گھر میں قیام تھا، تو اُن دنوں کی یادیں سرجیت سنگھ برنالہ نے محفوظ رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ کچھ تو وہ پڑھائی کے لیے بٹالہ سے باہر رہتا تھا اور کچھ وہ اپنے باپو سے جذباتی طور پر زیادہ قریب نہ ہوسکا۔ اُسے بس اتنا یاد تھا کہ جب اُس نے ہوش سنبھالا، باپو کو ہر وقت آہیں بھرتےدیکھا۔ وہ لاہور کی طرف منہ کر کر کے آہیں بھرتے اور پنجاب کی تقسیم پر، اپنی پتنی سروپ کور سے ٹھیٹھ پنجابی میں خُوب رونے روتے۔

 بٹالہ کے گھر کے ساتھ سرکار نے کچھ زمین بھی الاٹ کی تھی، جو ہرمیت سنگھ نے ٹھیکے پہ چڑھا دی، اور اُس سے گزر بسر ہو جاتی تھی۔ سردار ہرمیت سنگھ برنالہ کے آہیں بھرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ 1947ء سے پہلے اُن کا خاندان لاہور میں آباد تھا۔ باپو کی اکبری منڈی میں میوے کی دکان تھی۔ کشمیر سے لےکرکابل تک سے میوے آتے تھے۔ 

پورے پنجاب بلکہ سندھ تک کو وہاں سے میوہ سپلائی ہونے لگا۔ کاروبار ایسا پھیلا کہ سردار ہرمیت سنگھ نے باپو کے مرنے کے فوراً بعد ہی لاہور کے شیرانوالہ گیٹ میں ایک شان دار حویلی کھڑی کرلی۔ سنگِ مرمر کے فرش تو تھے ہی، لکڑی کا کام چنیوٹی، کشمیری اور لکھنؤ کے کاری گروں سےکروایا۔ اپنے زمانے کے مشہور ہندو آرکیٹیکٹ مہتا صاحب سے وہ حویلی ڈیزائن کروائی گئی، تو تیار ہونے سے پہلے ہی لوگ دُوردراز سے دیکھنے آنےلگے۔ 

ہرمیت کو جوانی ہی میں ایسی حویلی نصیب ہوگئی کہ اُس کا دماغ زمین پہ نہیں آتا تھا۔ ابھی کچھ ماہ ہی رہنا نصیب ہوا کہ مسلم لیگ کے جلسوں نے اُس کی نیندیں حرام کردیں۔ دیکھتے دیکھتے لاہور کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ دن رات جلسے جلوس، لاؤڈ اسپیکر دھاڑنے لگے۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ اور بھی بہت سے نعرے سردار ہرمیت سنگھ برنالہ کا پیچھا کرنے لگے۔ 

دن تو دن، اب تو راتوں کو بھی جلوس نکلنے لگے۔ ٹولیاں گاہے گاہے نعرے لگاتی گزرنے لگیں۔ شہر لاہور کے بازار اکثر بند رہنے لگے اور پھر وہ دن آگیا، جب وہ اور اُس کی پتنی سروپ کور اپنے پانچ سالہ بیٹے سرجیت سنگھ برنالہ کو لے کر لاہور سے بٹالہ منتقل ہوگئے۔

اُس حویلی کی کچھ یادیں اور ایک تصویر سینے سے لگائےکچھ دن تو وہ بہت گُم صُم رہے، پھر زندگی نے اپنے موسموں کے ساتھ بدلنا شروع کردیا۔ سرجیت اسکول سے کالج، کالج سے یونی ورسٹی اور پھر ملازمت تک پہنچ گیا۔ اور بٹالے سے چندی گڑھ تک کا سفر اُسے تو اتنا محسوس نہ ہوا، کیوں کہ وہ ایک سے دوسرے ضلعے ملازمت کےسلسلے میں خانہ بدوش ہی رہا، البتہ اُس کے باپو کا دل پھر زندگی میں نہ لگ سکا۔ 

شاید لاہور کی حویلی کا صدمہ اتنی جڑیں پکڑ چُکا تھا کہ ہرمیت سنگھ کا دل بٹالے کے اس گھر میں لگتاہی نہ تھا، جو کسی مسلمان تاجر کا بنایا ہوا تھا۔ وہ بٹالہ کے گھر میں ایسے رہتا، جیسے اُس کی رُوح کسی پنجرے میں قید ہو۔ یہی وجہ تھی کہ جونہی اُسے موقع ملا، اُس نے چندی گڑھ میں کوٹھی ڈال لی۔

کوٹھی تو بن گئی، مگر کوٹھی کوڈھنگ کے مکین نہ مل سکے۔ جب کوٹھی بنانے والے کی رُوح اداس ہو، تو درودیوار سے خوشی کیسے ٹپک سکتی ہے۔ سرجیت سنگھ تو کوٹھی میں مہمان بن کے آتا تھا۔ بس، ہرمیت سنگھ اوراُس کی پتنی سروپ کور ہی ایک دوسرے کی لاٹھی بنے پڑے رہتے۔ 

سرجیت سنگھ اپنی بیٹی اور پتنی کے ساتھ کبھی چُھٹی پہ آیا، کبھی نہ آیا۔ اِسی دوران ہرمیت سنگھ کی پتنی سروپ کور بھی اُسے چھوڑ کر چلی گئی۔ اب تو اُس کی آہیں سُننے والا کوئی بھی نہیں رہا تھا۔ وہ کچھ دن چندی گڑھ رہتا، تو کچھ دن بیٹے کے پاس چلا جاتا، جہاں بھی اُس کی پوسٹنگ ہوتی۔ وہ ایک ہی بات بار بار کرتا تھا۔ ’’آپاں نوں شیرانوالہ گیٹ لےچلو۔ اِک واری حویلی تے متھا ٹیکنا ہے۔‘‘ کئی دفعہ بیٹے نے باپو کو پاکستان جانے کا مشورہ بھی دیا بلکہ ایک بار تو ننکانہ صاحب یاترا کا ویزا بھی لگ گیا، مگر عین وقت پر ہرمیت سنگھ کنی کترا گیا۔ 

شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ حویلی کی جو تصویر، وہ سینے سے لگا کے آیاہے، اُسے بدلا ہوا دیکھے۔ سرجیت سنگھ باپو کے جذبات نہ تو سمجھ سکتا تھا، نہ ہی اُن جذبوں میں شریک ہونا چاہتا تھا۔ وہ سیدھا سادہ انجینئر تھا۔ دو جمع دو، چار کرنے والا۔ 

جذبات سےعاری ایک سرکاری مشینری کا پرزہ۔ اُس کے لیے باپ بس کریا کرم کے فرض سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا اور جو کوٹھی اُس نے چندی گڑھ میں بنائی تھی، اُس سے بھی اُسے کوئی جذباتی وابستگی نہ ہوسکی، کیوں کہ وہ سرکاری کوٹھیوں میں رہنے کاعادی ہو چُکا تھا۔ 

سرکاری نوکر، ڈرائیور اُس کی زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے، مگر ہرمیت سنگھ اُٹھتے بیٹھتے بیٹے کو لاہور والی حویلی کا حدود اربع بتاتے نہیں تھکتا تھا۔ ’’حویلی کی گلی میں حافظ، تافتان، باقر خانیاں، کُلچے اور کھنڈ کُلچے لگاتا تھا۔‘‘ ہرمیت سنگھ اُس کے ذائقے تالو سے لگائے مزے لے لےکرحافظ کا ذکر کرتا۔ ’’اُس کے ساتھ پہلوان کی دکان تھی، جس کے ہاں دہی چوبیس گھنٹے تیار ملتی تھی۔

دہی کے ساتھ پیڑے، فالودہ، ربڑی ملائی اور فیرنی کے لیے صبح شام بھیڑ بھڑکا لگا رہتا۔ پہلوان چھوٹے قد کا گول مٹول گونگا تھا، جس کے اُس جیسے تین گول مٹول بیٹے تھے۔ پہلوان اشاروں سے کام چلا لیتا تھا۔‘‘ بقول ہرمیت سنگھ، گونگے پہلوان سے اُس کی بہت دوستی تھی۔ وہ ہر روز شام کو، ہرمیت سنگھ کو ملائی کی پلیٹ پہ چینی ڈال کے زبردستی کھلاتا تھا۔ کبھی کبھی ہرمیت حافظ سے کھنڈکلچہ پکڑ کے بھی، ملائی کی پلیٹ سے کھا لیتا تھا۔ 

سرجیت سنگھ کو باپ کی اِن باتوں میں کوئی دل چسپی نہیں تھی، عموماً لگتا، باپ بیٹے سے نہیں، اپنے آپ سے باتیں کررہا ہے۔ کبھی کبھی سرجیت شام کو فائلیں لےکر بیٹھ جاتا اور باپو لاہور کی حویلی کو یاد کرتا رہتا۔ سرجیت کو کچھ پتا نہیں چلتا کہ جالندھر کی کون سی گلی بنانے کا پروپوزل آیا ہے اور وہ گلی ایک دَم شیرانوالہ گیٹ سے جا کر مل گئی۔ اُسے یہ بھی پتا نہیں چلتاکہ کب جالندھر کی اناج منڈی، اکبری منڈی میں تبدیل ہوگئی۔ فائل کےصفحے خُود بخود بدل جاتےتھے۔ باپو اپنے آپ سے بس اِسی طرح باتیں کرتا رہتا۔

اب ریتو کالج سے یونی ورسٹی پہنچ گئی تھی۔ چندی گڑھ یونی ورسٹی میں داخلہ کیا ہوا، سرجیت کا پریوارچندی گڑھ والی کوٹھی میں اُٹھ آیا، جب کہ جالندھرکی آخری پوسٹنگ میں ٹھیک ٹھاک سرکاری بنگلا اُس کے پاس تھا۔ اب وہ اکیلا جالندھر رہنے لگا اور ریتو اپنی ماں امرت کور کے ساتھ چندی گڑھ، باپو کے پاس آگئی۔ 

کچھ دن تو باپو کو بہت اچھا لگا، لیکن اچانک اُسے محسوس ہوا کہ اُس کی حویلی اُس سے جدا کی جارہی ہے کہ وہ اپنی بہو امرت کور کے سامنےحویلی کی یادوں کی پوٹلی نہیں کھول سکتا تھا۔ سوجلد ہی بستر سے لگ گیا اور پھر غشی ہی میں بڑبڑاتا رہتا۔’’سرجیت سیّاں! چھیتی آ۔ مینوں لہور لے جا، مَیں شیرانوالہ گیٹ دی حویلی متھا ٹیکنا ہے۔‘‘ 

باپو کی اِسی غشی کی کیفیت میں سرجیت سنگھ جالندھر سے چُھٹی پر آیا، تو باپو نے اُس کا ہاتھ زور سے بھینچ لیا اور وعدہ لیا کہ وہ سورگ باشی ہوگیا، تو سرجیت ہرحال میں لاہور جاکر وہ حویلی دیکھے گا۔ اُس کے نزدیک ننکانہ صاحب یا حسن ابدال سے زیادہ شیرانوالہ گیٹ کی حویلی پہ متھا ٹیکنا ضروری تھا اور پھر جیسے داستان گو داستان کہتے کہتے سوجاتا ہے، ہرمیت سنگھ برنالہ بھی سوگیا۔ اپنی حویلی کے خواب وخیال میں کہیں دفن ہوگیا۔

سرجیت سنگھ برنالہ کو پنجاب حکومت نے ملازمت کے پینتیس سال پورے کرکے ریٹائر ہونے پرگلے میں ایک ہار ڈالا، ایک محکمے کی شیلڈ پکڑائی اور کھانا کِھلا کے عزت سے گاڑی میں بٹھایا۔ وہ چندی گڑھ، اُس کوٹھی میں آگیا، جس کے مکینوں کو فنِ باغ بانی نہیں آتا تھا۔ اُس اُداس کوٹھی میں اب وہ اپنی پتنی اور بیٹی ریتوکور کے ساتھ رہنے لگا۔

ریتو تو اپنا زیادہ وقت یونی ورسٹی میں گزارتی تھی۔ سرجیت اپنی پتنی کے ساتھ اِس نئی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ چندی گڑھ عجیب شہر ہے۔ یہ اسلام آباد کی طرح ریٹائرڈ لوگوں کا شہر نہیں، یہ سروس کرنے والوں کا شہر ہے اوراس کا اندازہ سرجیت سنگھ برنالہ کو نہیں تھا۔ وہ تو جالندھر، پٹیالہ، بٹالہ، ہوشیارپور، امرت سر، فیروزپور وغیرہ میں ملازمت کرتا رہا، جو سب ایک ہی جیسے شہر تھے۔

وہ توساری زندگی میں بس دو ایک بار دلّی تک گیا، وہ بھی کسی سرکاری کام سے۔ ایک آدھ بار ممبئی بھی گیا اور دو ایک بار لکھنؤ۔ بس یہی اس کی کُل کائنات تھی۔ اُسے کچھ پتا نہیں تھا کہ لاہور کی زندگی کیسی ہوتی ہے اور اُس کا باپو ساری زندگی کس عذاب کو سہہ کے گزر گیا۔ وہ ایک سرکاری افسر کی طرح صُبح آٹھ بجے سے چار بجے تک دفتر کا ایک پرزہ بن کر رہتا آرہا تھا اور اب اچانک وہ گھر بیٹھ گیا۔ نہ نوکر، نہ ڈرائیور، نہ دفتر۔

اُس کی بیوی بھی اُسی کی طرح اس معمول کی عادی تھی۔ کہتے ہیں ناں کہ جیسی رُوح ویسے فرشتے، جس ڈھنگ سے شوہر، بیوی کو رکھتا ہے، بیوی اُس کا سایہ بن جاتی ہے، تو امرت کورکو بھی، جیسا شوہر نے بنایا، بن گئی۔ نہ کوئی ویمن کلب جوائن کیا، نہ کوئی رغبت باغ بانی سے ہوئی کہ سرکاری مالی ہوتے تھے۔ نہ باورچی خانے میں کوئی دل لگایا کہ کھانا بنانے والے ملتے تھے۔ اب وہ تین وقت کا کھانا بنانے کی پابند تھی اور دھوبی سے کپڑے دھلوانے ہی کو زندگی کا مصرف سمجھنے لگی تھی۔ 

ایسے میں سرجیت سنگھ آدھا دن اخبار پڑھتا رہتا اورآدھا دن سونے کی کوشش میں لگا رہتا۔ سونے سے یاد آیا کہ اُسے خواب میں کئی دفعہ باپو نے ڈانٹ پلائی کہ اُس نے اُس کی وصیّت کیوں پوری نہیں کی۔ وہ لاہور کیوں نہیں گیا اور شیرانوالہ گیٹ کے اندر اُس کی بنائی حویلی پہ متھا کیوں نہیں ٹیکا۔ مگر اُسے کچھ پتا نہیں تھا کہ پاکستان جانے کے لیے ویزا کیسے لیتے ہیں۔

ایک دن ریتو یونی ورسٹی سے واپس آئی تو اُس نے خبر سُنائی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے ویزے میں نرمی کی جارہی ہے۔ دونوں مُلکوں کے سفارت خانے پھر سے کام شروع کر رہے ہیں اور پھر مسلسل خبروں سے پتا چلا کہ دونوں مُلکوں کی فوجیں سرحدوں سے پیچھے ہٹا دی گئی ہیں اور دونوں مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلیےتیار ہیں، لیکن اس بات کا شیرانوالہ کی حویلی سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ 

سرجیت سنگھ برنالہ اِن سب باتوں سے بےخبر تھا، کیوں کہ وہ عجیب قسم کا سکھ تھا۔ نہ اُس نےکبھی دارو پیا، نہ کبھی سِکھوں کے لطیفے سُنے، نہ وہ کبھی کسی ایسی محفل میں گیا، جہاں ناچ گانا ہوتا ہے۔ اس لیے جب اُس کی بیٹی ریتونے باپ کو خبر سُنائی کہ پاکستان میں بسنت ہورہی ہے اور اُس کے فوراً بعد انڈیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان جانے والی ہے۔ 

بھارت کے الیکشن بھی قریب ہیں، تو بھارت اور پاکستان میں برابری اور بھائی چارے کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ سرجیت خاموشی سے ریٹائرمنٹ کی عُمر گزارنا چاہتا تھا کہ یک دم خاموش جھیل میں جوار بھاٹا آگیا۔ ریتو سنگھ اور امرت کور کو لاہور نے لبھانا شروع کیا۔ باقی کی کسر ٹی وی چینلز نے پوری کردی، جو دن رات پاک، بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے رطب اللسان ہوگئے۔ 

ایسے میں خبر پڑھی کہ چندی گڑھ سےکئی طرح کے گروپ، جتھوں کی صُورت میں جارہے ہیں۔ کوئی اولڈ راوینز کاجتھا تھا، کوئی وکیلوں کا، کوئی نوٹنکی والوں کا،کوئی مذہبی یاتریوں کاتوکوئی بسنت پریمیوں کا۔ ایسے میں ریتونے اپنے پریوار کا ٹانکا فٹ کیا اور ایک جتھے میں اُنھیں جگہ مل گئی۔ ویزے لگے اور اٹاری کے رستے ٹرین سے واہگہ پہنچ گئے۔ سرجیت سنگھ برنالہ ایک گم صم ریٹائرڈ انجینئر اِس ساری صورتِ حال اور اس سارے کلچر سے بیگانہ، بس باپو کی صُورت دھیان میں رکھےلاہور اُتر گیا۔

معلوم نہیں شیرانوالہ گیٹ کہاں ہے۔ لاہور کس اور ہے اور کس چھور تک پھیلا ہے۔ ریتو سنگھ اوراس کی ماں جب لاہور گھومنے نکلیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انھوں نے تو ایسے شہر کا کبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا۔ وہ تو ساری زندگی چھوٹے شہروں میں سرکاری گھر بدلتی رہیں اور رہ گیا چندی گڑھ، تو اُس کا تواپنا کوئی کلچر اور کیریکٹر تھا ہی نہیں۔ تو اب انہیں پتا چلا کہ سردار ہرمیت سنگھ برنالہ کیوں آہیں بھرتا تھا۔

اُسے اتنے بڑے ثقافتی شہر سے نکال کر بٹالے میں دھکیل دیا گیا۔ سرجیت بھی سوچنے لگا، اِس بٹوارے میں ان کے ساتھ واقعی ہاتھ ہوگیا۔ ساری ملازمت چھوٹے شہروں میں نکل گئی۔ اب جو بسنت کی رات لاہور کو دیکھا، تو اپنی حکومت پر بےحد غصّہ آیا، جس نے سرحد پرفوجیں کھڑی کرکے اُنھیں اب تک لاہور سے محروم رکھا۔ ریتو اورامرت کور لاہور کے کھانوں میں ایسی الجھیں کہ کوئی ہوش نہ رہا۔

کہاں کا شیرانوالہ گیٹ اور کہاں کی اکبری منڈی۔ ایک دو بار کہیں فوڈ اسٹریٹ جاتے ہوئے اُنھوں نے سرسری سا ذکر ضرور کیا، مگر اندر سے سب اپنے بزرگوں کی یادوں کو تالے لگائے گھومتے رہے۔ روزانہ دن رات دعوت پہ دعوت، لاہوریوں نے ایسے پروگرام ترتیب دیے کہ وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ اب جتّھے متھے وتھے ٹیک ٹکا کے واپس جانے لگے۔ 

سرجیت سنگھ کو کسی شے کا شوق شغف تھا نہیں۔ اس لیے وہ حیران حیران پھرتا رہا کہ اچانک اُنھیں خیال آیا کہ واپسی کا دن قریب آچُکا ہے اور باپو کی وصیت اُسی طرح جیب میں پڑی ہے، جیسے کسی ضروری کام کی چِٹ جیب میں رکھی جاتی ہے۔ آخر ریتو سنگھ نے باپو کی ہمت بڑھائی کہ اندرون لاہور تو دیکھنا ہی ہے، تو کیوں نہ شیرانوالہ گیٹ جاکر اُس حویلی ہی کو دیکھ لیں۔ 

چناں چہ جانے سے دو دن پہلے سرجیت سنگھ اپنے پریوار کے ساتھ شیرانوالہ گیٹ میں داخل ہوہی گیا۔ پوچھنے پاچھنے کا کچھ خیال نہیں تھا، بس چلتے رہے۔ گونگے پہلوان کی دکان راستے میں آئی تو سمجھ گئے، منزل قریب ہے۔ گونگے پہلوان کا پوتا وغیرہ ہوگا، جو خُود کوئی کام نہیں کر رہا تھا، گلّے پہ بیٹھا تھا۔ بےشمار کارکن مصروف تھے۔ اب اُس نے جلیبیاں بھی بنانی شروع کردی تھیں۔

اندر بیٹھنے کی جگہ بھی صاف ستھری بنالی تھی۔ ساتھ کی دکان یا گھر خریدنے کے بعد اس نے کاروبار پھیلا لیا تھا۔ صُبح حلوہ پوری بھی لگتی تھی۔ گونگے پہلوان کی بڑی بڑی تصویریں اندرآویزاں تھیں۔ ایک میں وہ پہلوانوں والی رنگین پگڑی باندھے گلے میں تصویر اور منکے ڈالے مسکرارہا ہے۔ دوسری میں کسی مقامی لیڈر کے گلے میں بازو ڈالے کھڑا ہے۔

سرجیت سنگھ نظریں چُرا کر یہ سب دیکھتا رہا کہ لوگ جمع ہوگئے۔ اندر سے پہلوان کے پوتے نے آواز لگائی۔ ’’سردارجی، اندرآجاؤ۔ کوئی لسی شسّی، کوئی پیڑہ پوڑی، کوئی جلیبی شلیبی۔‘‘ ریتو سنگھ اس سارے ماحول سے گھبرا رہی تھی۔ سرجیت سنگھ وہاں سے آگے بڑھا تو گلی ایک مِنی فوڈ مارکیٹ کا نقشہ دے رہی تھی۔ دونوں طرف لوگوں نے گھروں کو دکانوں میں تبدیل کردیا تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک یہ گلی مسلسل اپنا ناک نقشہ بدلتی رہی تھی۔ اب ایسے میں حویلی کو کیسے پہچانیں گے۔ لوگوں نے اپنے گھروں کے اگلے حصّے میں دکانیں بنالی تھیں اور پچھلے حصّوں میں خُود رہ رہے تھے۔ خُود کیا، ایک ہی گھر میں دس دس خاندان آباد ہوگئے تھے۔ سرجیت سوچ رہا تھا، باپو نے کہاں حویلی بنوائی اور ہوسکتا ہے کہ اُس حویلی میں بھی دکانیں بن چُکی ہوں۔ ریتو بھی گھبرا رہی تھی، جس حویلی کا خواب لے کروہ آئے ہیں، وہ تو اُنھیں نہیں ملے گی۔ اب اُنھیں تلاش تھی توحافظ کی دکان کی، جو تافتان، باقر خانیاں، کلچےاور کھنڈ کلچے لگاتا تھا۔ 

وہ دیکھتے جارہے تھے۔ایک طرف نہاری کی دکان تو دوسری طرف برگر بنانے والا سڑک کے بیچوں بیچ چولھا رکھے کھڑا ہے۔ سرجیت سنگھ کو اپنے باپو کی رُوح کا دم گھٹتے ہوئے محسوس ہوا۔ البتہ ریتوسنگھ کے لیے یہ انوکھا تجربہ تھا۔ سرجیت تافتان اور کلچے دیکھنے کے لیے بے تاب ہورہا تھا۔ ایک یخنی بیچنے والے کے پاس سے گزرتے ہوئے اُس نے سوچا، کیوں نہ کسی سے پوچھ لیا جائے کہ اچانک گرم گرم نام اور کلچے تندورسے نکلتے ہوئے دکھائی دیے۔ بورڈ دیکھا تو اُس پر اُردو میں ’’حافظ کلچہ ہاؤس‘‘ لکھا نظر آیا۔ 

سرجیت اُردو رسم خط سے واقف تھا، فوراً سمجھ گیا کہ منزل قریب ہے۔ ایسے ہی اس نے اندر نظر ڈالی تو چارتندور لگے ہوئے تھے، جن پر بہت سے نان بائی مصروف تھے۔ اور نان ڈھیروں کی تعداد میں نکلے آتے تھے۔ سرجیت نے بےتابی سے دو قدم آگے لیے تو مِنی فوڈ مارکیٹ اچانک ختم ہوگئی اور ایک حویلی کا گیٹ نظر آیا،جس پر میاں محمّد صدیق کا نام سنگِ مرمر پر کُھدا ہوا تھا۔

حویلی کا ناک نقشہ تو وہی تھا، مگروقت نے اُسے چمک دمک سے محروم کردیا تھا۔ دو درخت بہت اونچے اور پھیلے ہوئے باہر سے کسی حد تک حویلی کی عمارت چُھپارہے تھے۔ تینوں گم صُم دروازے کے سامنےکھڑے رہے۔ سرجیت کو لگا، جیسے اس کے باپو کی رُوح کہیں آس پاس بسیرا کیے ہوئے ہے۔ اُس نے کانپتے ہاتھ سے بیل کا بٹن دبایا۔ اندر سے ایک بھاری جسم والا ادھیڑ شخص شلوار قمیص میں ملبوس باہر آیا۔ 

شکل سے رنگ محل کا تاجریا اکبری منڈی یا برانڈرتھ روڈ کا دکان دار لگتا تھا۔ وہ چند لمحے ٹھٹکا، جیسے سمجھنے کی کوشش کررہا ہو۔ ’’آپاں چندی گڑھ توں آئے ہاں‘‘ سرجیت نے ہاتھ ملایا۔ ’’تسی کِنوں ملن آئے ہو۔‘‘ یہ جملہ کافی دیر ہوا میں تیرتا رہا۔ واقعی وہ کس سے ملنے آیا ہے۔ باپو سے یا اُس کی رُوح سے۔ چند لمحے بعد اُس نے اپنا تعارف کروایا تو اس آدمی کا ماتھا ٹھنکا۔اُس نے کہا۔ ’’بہت اچھے موقعے پر آئے ہیں۔

بس آپ کی ہی کمی تھی۔‘‘ اس بات کی سرجیت کو سمجھ نہ آئی۔ جب وہ اندر گئے تو حویلی کے بیچ ایک سنگِ مرمر کا فوارہ نظر آیا، جسے سب نے فوراً پہچان لیا۔ لکڑی کا کام اگرچہ اب وہ نہیں رہا تھا۔ تاہم کثرتِ استعمال اور بدذوقی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اندر پانچ سات مختلف عُمروں کے لوگ صحن میں کھڑے تھے۔ جب یہ لوگ اندر پہنچے، سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگے۔ 

بچے، عورتیں اندر سے جھانکنے لگیں۔ ایک آدمی نے ہاتھ میں فیتہ تھام رکھا تھا، دوسرے کے ہاتھ میں چُونے کا برتن تھا۔ جو آدمی انھیں اندر لے گیا، وہ میاں محمّد صدیق کا بیٹا میاں رفیق تھا اور جو لوگ صحن میں کھڑے تھے، اُن میں میاں محمّد صدیق کا دوسرا بیٹا میاں محمّد شفیق بھی تھا اور دو تین نوجوان تھے، جو ان دونوں کے بیٹے ہوسکتے تھے۔ 

میاں رفیق نے اطلاع دی کہ یہ حویلی پاکستان بننے سے پہلے اس کے والد سردار ہرمیت سنگھ برنالہ نے بنائی تھی، جس کے نام کا سنگِ مرمر اکھاڑ کے میاں محمّد صدیق کا پتھر لگایا گیا تھا۔ ’’آؤجی آؤ، دیکھ لو، اپنے بزرگوں کی حویلی۔‘‘ سرجیت تو پتّھر کی سل ہوچکا تھا۔ اُسے محسوس ہوا، اُس کے باپو کی رُوح کو ان لوگوں نے گھیر لیا ہے۔ اتنے میں وہ آدمی بولا، جس نے فیتا اُٹھا رکھا تھا۔ ’’لوجی، ذرا چھیتی کرو۔ ٹیم لنگھ ریا اے۔‘‘ 

میاں شفیق نےکہا۔ ’’اِس وقت ہم ذرا مصروف ہیں، آپ کو چائے، پانی نہیں پوچھ سکتے۔‘‘ مگر اُن لوگوں کو تو اور کچھ نہیں کرنا تھا، رسم پوری کرنی تھی۔ باپو کی وصیت پر عمل کرنا تھا، سووہ ہوچکا تھا، مگر یہ فیتا؟ آخر فیتے والے نے فیتے کا ایک سرا شفیق کو پکڑایا اور دوسرا سرا لےکر حویلی کے وسط میں دیوار تک چلا گیا۔ ’’آ بالے! چل حد بندی کے لیے چُونا ڈالتا جا۔‘‘ وہ چُونا ڈالتا گیا۔ 

حویلی دوحصّوں میں تقسیم ہوگئی۔ فوراً آدھا ایک حصّے میں آیا، تو آدھا دوسرے حصّے میں۔ یہ سب کیا ہورہا تھا، سرجیت حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ آخر محمّد رفیق نے اسے چونکایا۔ ’’سردار جی! گل اے وے، جو اے حویلی ساڈے اباجی توں بعد میرے، تے میرے بھرادے حصّے وچ آئی۔ اَسی دوئیں فیملی کٹھے رہے آں، مگر ہُن بھا شفیق نے ڈیفینس کوٹھی پا لِتّی اے۔ او اپناں حصّہ وکھ کرنا چاہندا اے۔ تے اونے ایتھے دکاناں پانیاں نے۔ 

اَسی فی الحال ادھے حصّے وچ رہواں گے۔ ایس لئی حویلی دی ونڈ ہورئی ہے۔‘‘ حویلی کا بٹوارا ہورہا تھا۔ سرجیت سنگھ نے دیکھا، اُس کے باپ کی رُوح اس سفید لکیر پہ دو حصّوں میں تقسیم ہوچُکی ہے۔ ایک بٹوارا اس کے باپو نے دیکھا اور ساری زندگی آہیں بھرتا رہا، اب دوسرا بٹوارا وہ دیکھ رہا تھا۔ اُسے لگا، جیسے پنجاب ایک بار پھر دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ معلوم نہیں کب وہ اس حویلی سے نکلے، کب وہ بازار سے گزرے اور کب اپنے باپو کی رُوح کی لاش سینے سے لگائے واہگہ کے رستے اٹاری پہنچ گئے۔

مگر…اُس کے بعد اُس کے باپو کی رُوح کبھی اُس کے خواب میں نہیں آئی۔