• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رائٹ سائزنگ کمیٹی، وزیرِ اعظم اور ان کی کابینہ کے لیے مشاورت کا فریضہ انجام دیتی ہے، اس کی توجّہ سب سے زیادہ اس امَر پر ہوتی ہے کہ حکومت کا مالی وزن کم کرنے کی تجاویز پیش کرے۔ باضابطہ اطلاع کے مطابق، اس کمیٹی نے تجویز بھیجی ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان، جس کے اسلام آباد میں مرکزی دفتر کے علاوہ صوبائی سطح پر پانچ دفاتر ہیں، فوری طور پر ادارئہ فروغِ قومی زبان میں ضم کر دیا جائے۔ 

مزید برآں، یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ادارئہ فروغِ قومی زبان کو پاکستان کی کسی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں ضم کردیا جائے۔ اسی طرح کی تجاویز اردو سائنس بورڈ (لاہور) اور اردو لغت بورڈ (کراچی) کے حوالے سے بھی دی گئی ہے۔

اس ضمن میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں، مثلاً یہ ادارے کس قسم کے ہیں، ملک و قوم کے لیے ماضی میں ان کا کردار کیارہا ہے، اس وقت کیا ہے اور آئندہ کیا ہوسکتا ہے؟ اگر ہم تفصیل میں جائیں گے، تو بات بہت طویل ہوجائے گی اور اس کی گنجائش ہے اور نہ ہی یہ محل۔ سو، صرف ایک جملے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے قومی، تہذیبی، ادبی اور ثقافتی ادارے ہیں، جو وطنِ عزیز میں قومی و تہذیبی شعور زندہ رکھنے اور فروغ دینے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

ایسے ہی اداروں کے ذریعے نئی نسلوں کو تہذیبی، ثقافتی اور ادبی وَرثہ منتقل ہوتا ہے۔ اب اگر ہم اپنی تہذیب و ثقافت، ادب اور آئندہ نسل سے متعلق سنجیدہ رویّہ رکھتے ہیں، ان کی بقا اور استحکام کے حوالے سے سوچتے ہیں، تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کمیٹی کی اس تجویز پر خاموشی یا مصلحت کا رویّہ اختیار کریں۔ ذہن میں رہے کہ ہم اس وقت کسی دقیق فلسفیانہ مسئلے پر بات نہیں کررہے کہ جس کے لیے ہمیں طولِ کلام یا بحث و تمحیص کی ضرورت ہو۔

یہ بالکل سیدھی اور صاف سی بات ہے کہ قوموں اور ملکوں کی شناخت میں سب سے اہم اور نمایاں حصّہ اس کے تہذیبی افراد اور ادارے ہی ادا کیا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ تہذیبی و ادبی ادارے قائم تو بے شک افراد ہی کرتے ہیں، لیکن آگے چل کر عوامی سطح پر قوم کے تہذیبی و ثقافتی شعور کی تشکیل ان ہی اداروں کے ذریعے فروغ پاتی ہے اور اس کے استحکام اور تحفّظ کا کام بھی ان ہی کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ اس لیے ایسے اداروں کا کسی ملک میں قائم ہونا اور رُوبہ کار رہنا، کیا معنی رکھتا ہے؟ اسے جاننے، سمجھنے اور ماننے کے لیے کسی گول میز کانفرنس کی قطعی ضرورت نہیں۔ 

یہ بات تو ہر مہذب اور باشعور انسان کے لیے قابلِ فہم ہے کہ کسی بھی قوم کی انفرادی شناخت کے حوالے، بنیادی طور پر اس کی تہذیب، ادب اور کلچر ہی سے فراہم ہوتے ہیں۔ تاہم، بدقسمتی سے ہم آج ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں، جس کے اکثر و بیش تر شعبوں میں مادیت غلبہ حاصل کرچکی ہے۔ اب کسی بھی کام یا اقدام کی ضرورت کا انحصار اس کی مادی افادیت پر ہوتا ہے۔

ایسی صورتِ حال میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ اقتدار کے معاشی، مالی اور انتظامی شعبوں سے وابستہ افراد سے لے کر عوام تک یہ تأثر عام ہو کہ جو چیز مادی لحاظ سے کارآمد نہیں، اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس عہدِ جدید کے انسان کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کا ذہن مادّی ضرورتوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ ٹھیک ہے، زندگی کے مادّی تقاضے بھی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن انسان محض ایک مادّی کل پُرزہ نہیں۔ اس کی کچھ ضرورتیں، غیر مادّی بھی ہیں۔

وہ محض ایک گوشت پوست کا پُتلا نہیں، اس کے اندر ایک رُوح بھی کارفرما ہے، جو نہ صرف اس کی زندگی کی علامت ہے، بلکہ اس رُوح کے مطالبات ہی اسے کائنات کی دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہی مطالبات انسان کی دانش و بصیرت کی بنیاد ہوتے ہیں اور اگر یہ مطالبات پورے نہ ہوں یا انسان کا دھیان اُن کی طرف سے ہٹ جائے، تو جانور، روبوٹ اور انسان میں کوئی فرق نہیں رہ پائے گا، بلکہ اوّل الذکر دونوں اپنی وجودی نوعیت میں انسان سے سوا کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اپنے روحانی کردار سے بے بہرہ انسان کسی وحشی درندے سے بڑھ کر سفّاک اور خطرناک ہوتا ہے۔

آج کی جدید دنیا، مادّی طوفان میں بہے جاتی ہے۔ قوموں اور تہذیبوں کی زندگی میں جب ایسے طوفان آتے ہیں، تو اُن کے آگے بند نہیں باندھے جاتے۔ مغرب کی اس صُورتِ حال کو دیکھ کر اسوالڈ اشپنگلر نے اس کی زوال آمادگی کو نشان زد کیا تھا اور رینے گینوں نے کہا تھا کہ جب ایسے طوفان گزرتے ہوں، تو قوم اور تہذیب کے اہلِ دانش کو چاہیے کہ وہ اپنی تہذیب کے بیج کو بچا کر رکھنے کی کوشش کریں، تاکہ طوفان کے گزرنے کے بعد یہ بیج پھر سے برگ و بار لاسکیں۔

گزشتہ برسوں میں یورپ اور امریکا کے اہلِ دانش نے اس ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا، بلکہ اس پر اصرار بھی کیا کہ نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم کی سطح پر راکٹ سائنس، ٹیکنالوجی، آرٹی فیشل انٹیلی جینس، معاشیات حتیٰ کہ سیاسیات پڑھا دینا کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اُنھیں ان مضامین کے ساتھ سوشل سائنسز، ادب اور آرٹ کی تعلیم بھی دی جائے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ اس زمانے کے لوگ جذباتی، قلبی اور اعصابی سطح پر اطمینان بخش زندگی گزار سکیں۔ 

اس حقیقت کو نہ صرف محسوس اور تسلیم کیا گیا، بلکہ یورپ اور امریکا میں اختیار بھی کیا جارہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس، ہمارے یہاں اوّل تو خود تعلیم کے شعبے کو مثالی نہیں کہا جاسکتا، مثالی تو چھوڑیے، اپنے عہد کی ضرورت اور مطالبے ہی سے بھلا کتنی موافقت رکھتا ہے۔ 

اس پر سو دُرّے یہ کہ اکادمی ادبیات، ادارئہ فروغِ قومی زبان، اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ جیسے ادارے، جنھوں نے گزشتہ نصف صدی میں نہ صرف اپنی خدمات سے اپنے وجود کا اثبات و اظہار کیا ہے، بلکہ قومی، تہذیبی، ادبی اور عملی سطح پر بھی نہایت مؤثر کردار ادا کیا ہے، حالاں کہ ان اداروں میں بعض ادَوار میں سیاسی بھرتیاں بھی کی گئیں، اس کے باوجود مجموعی طور پر ان کی کارکردگی ایک اعتبار و معیار سے کم تر نہیں رہی۔ 

اہلِ بصیرت اس سچّائی سے بخوبی آگاہ ہیں کہ گلوبل ویلیج کے اس دَور میں تہذیبیں اپنی جداگانہ شناخت اور بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وقت کا دھارا جس سمت بہہ رہا ہے اور جس طرح سے انسان کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کے مناظر بدل رہے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ آنے والے برسوں میں انسانی معاشرت کا نقشہ کیا ہوگا۔ 

ایسے میں تہذیبوں کو زندہ رکھنے کے لیے پوری کمک فراہم کی جانی چاہیے۔ اِدھر یہ حال ہے کہ ہماری بیورو کریسی، سیاسی مقتدرہ کو خود اپنے تہذیبی مظاہر اور اداروں کو اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ ایسے اداروں کے انضمام یا انہدام کا فیصلہ تہذیبی خودکشی کے مترادف ہے۔ ہماری بیورو کریسی کو اگر اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے یا ایسے لوگ بہت کم ہیں، تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، اہلِ اقتدار اور ان کی مشاورت میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے اور ہونے چاہئیں، جو اس مسئلے کا شعور رکھتے ہوں۔

جیسا کہ سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں کھڑے ہوکر اس اطلاع پر نہ صرف اپنے ردِعمل کا اظہار کیا، بلکہ اصرار بھی کیا کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے، جو دنیا میں پاکستان کی شناخت کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ یہ بلاشبہ قابلِ قدر بات ہے کہ انھوں نے دانش مندی اور سچّائی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے یہاں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں اور اس سے متعلق حق گوئی سے کام لیتے ہیں۔

ہم عرفان صدیقی کی رائے سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں اور اُن کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ اقتدار میں ہوش مند لوگ اپنی قومی و تہذیبی ذمّے داری کا احساس کرتے ہوئے سامنے آئیں اور ایسے منفی اقدامات سے حکومت کو باز رکھنے میں ہر ممکن کردار ادا کریں، جو قومی زندگی کے لیے سخت مضر اور تہذیبی خودکشی کے مترادف ہیں۔