• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10 مئی کو صدر ٹرمپ کی جس جنگ بندی پر پاکستان آمادہ ہوا وہ دراصل ٹرمپ کی ایماء پر ہندوستان کی جانب سے چھیڑی گئی تھی۔ اس کے اغراض و مقاصد اس وقت واضح نہ تھے لیکن"موذی" کا رویہ، تکبر اور بڑھکیں بتا رہی تھی کہ وہ کس برتے اچھل اچھل کر پاکستان پر الزام دھر رہا تھا۔ جیسے ہی پاکستان نے جوابی تیور دکھائے "موذی"نے امریکہ سے سیز فائر کروانے کی درخواست کر دی۔ بارہا اعلان کرنے کے باوجود کہ وہ تنازعے کا حصہ نہیں بنیں گے ٹرمپ ہندوستان بچانے کو میدان میں کود پڑے بعینی جیسے اسرائیل کے لیے ایران پر حملہ آور ہوئے۔" موذی" سیز فائر کروانے پر نہیں بلکہ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پربی جے پی اور حزبِ اختلاف کے نشانے پر ہے۔ 5 اگست 2019 کو شق 370 متروک کر کے کشمیر اور لداخ کو یونین ٹیریٹری میں شامل کر کے وہ عوام کے آگے سرخرو ہو چکا تھا۔ اب یوں مسئلہ کشمیر کے عالمی سطح پر واپس نمودار ہونے سے "موذی" کی سیاسی بقاء داؤ پر ہے۔ ادھر ٹرمپ ناراض ہیں کہ "موذی" وعدے کے مطابق پاکستان کو کمزور کر کے ایران پر حملے کی صورت میں غیر جانبدار رکھنے میں ناکام ہوا۔ اس پر طرۂ یہ کہ افواجِ پاکستان کی حکمتِ عملی، صلاحیت و قابلیت کی پوری دنیا معترف ہو گئی۔ایسے میں امریکی فوج کے 250 سالہ جشن پر پاکستانی فیلڈ مارشل کو شرکت کی دعوت نے جلتی پر تیل کا کام کیا جبکہ صدر ٹرمپ کا فیلڈ مارشل کو پروٹوکال کے برعکس ظہرانہ دینے پر’’موذی‘‘کی پوری ہندوستان میں ہرزہ سرائی اور بھد اڑائی گئی۔’’چمکدار انڈیا‘‘ کے نعرے لگانے والے حیران و پریشان ہندوستان اور’’موذی‘‘ کے مستقبل پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ شاید معاشی ترقی کا بلبلہ پھٹ گیا ہے۔ ادھر ’’موذی‘‘ اور بی جے پی نے روٹھے بچے کی مانند ٹرمپ کے خلاف شکایات اور الزامات کی پٹاری کھول دی یوں کل تک شیر و شکر فریقین آج ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔ حکومتِ وقت سارے معاملے کے پسِ منظر سے آگاہ ہے، اسی لئے حالات اب متقاضی ہیں کہ اعلیٰ سفارتکاری سے ہم ہندوستان کو مزید تنہا کریں کیونکہ دونوں کا گٹھ جوڑ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ ادھر ایران میں ہندوستان کا اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنا، اسرائیلی ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کرنا اور قطر میں اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کبھی پاکستان کے ساتھ معاملات درست نہیں کرے گا۔ تجارت یا باہمی تعلقات بہتر بنانے کی آڑ میں ہمیشہ پاکستان کی بقاء و سلامتی کو نقصان پہنچائے گا۔

امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا۔ ایران کے اعلان پر کہ ان پر حملے میں کسی ملک نے اسرائیل یا امریکہ سے تعاون کیا تو وہ ان کے ٹارگٹ پر ہوگا، امریکہ نے گوام اور ڈیگو گارسیا جزیرے بطور اڈے استعمال کئے جبکہ فضا سے فضا میں ایندھن فراہم کرنے کیلئے ہندوستان کے آڈے استعمال کئے گئے ۔حملے سے پہلے صدر ٹرمپ نے ایران سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اوراعلانیہ حملے دو ہفتوں کے لیے مؤخر کیے۔ لیکن محض دو روز بعد فتح کی تقریر کرتے ہوئے دنیا کو اطلاع دی کہ ایرانی جوہری پلانٹ نیتنز، فردو اور اصفہان پر B-2 بمبار طیاروں سے 30 ہزار پونڈ وزنی بم گرا کر انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔حملوں کی ویڈیوز سے ظاہراً زمینی سطح پر بڑی تباہی نظر آتی ہے لیکن زیرِ زمین تباہی واضح نہیں ۔ بعد ازاں آئی اے ای اے نے رپورٹ جاری کی کہ تینوں مقامات پر تابکاری یا لیکج نہیں پائی گئی جو اس بات کی غماز ہے کہ ایران کے جوہری پلانٹ ٹرمپ کے دعوے کے مطابق تباہ نہ ہوئے وگرنہ تابکاری ضرور ہوتی۔ علاوہ ازیں وہاں جوہری مواد، افزودہ یورینیم ، بھاری پانی اور سینکڑوں سینٹری فیوجیز، وغیرہ موجود ہی نہ تھے۔ اس پر ایران کا بیان آیاکہ وہ اپناپر امن جوہری پروگرام جاری رکھے گا۔ ہندوستانی جاسوسوں کی غلط خبروں پر اور اپنی نیشنل سکیورٹی کی انچارج تُلسی گیبرٹ سے اختلاف کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے غیر قانونی، غیر اخلاقی طور پر ایران کے خلاف یہ قدم اٹھایا جس کے لیے امریکی کانگرس ان کا مواخذہ کرنے کا اعادہ کر رہی ہے۔ تین جوہری پلانٹ تباہ کرنے کے باوجود اسرائیل کا مسئلہ تو جوں کا توں ہی رہے گااوراب ایران کے جوابی حملوں کا مزید شکار ہو گا۔ اُدھر "شیطن یاہو" کی بیٹی پر زیرِ زمین بنکر میں پناہ لینے کے دوران صہیونیوں نے حملہ کر دیا جس سے وہ بے ہوش ہو گئی جبکہ صیہونی شہری اپنے فوجیوں سے جھگڑ رہے ہیں کہ ہم نے کب تمہیں ایران پر حملہ آور ہونے کو کہاتھا۔ ایران میں رجیم چینج کی سازش ناکام ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ شہنشاہ ایران کے بیٹے رضا پہلوی پر مغرب میں اتفاق نہیں ہو رہا نہ ہی وہ ایرانی قوم کو قابلِ قبول ہے۔کسی طرح بھی امریکہ اور اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کے قیمتی وسائل پر قابض ہونا چاہتے ہیں تاکہ چین اور روس کو روکا جا سکے ۔ اسی لیے پاکستان چین سی پیک منصوبہ بھی انہیں قابلِ قبول نہیں۔ علاوہ ازیں ایران پر مغرب نواز حکومت سے پاکستان کی مغربی سرحدوں پر انتہائی دشوار حالات ہو جائیں گے، علیحدگی پسند تحریکوں کو بھرپور طریقے سے فعال کر دیا جائے گا۔ بلوچستان کے نایاب معدنی وسائل نکالنے کی آڑ میں امریکی کمپنیاں ہمارے مفادات و وسائل پر قابض ہو جائیں گی۔

آج پاکستانی حکمران کو مشیتِ ایزدی سمجھنا انتہائی اہم ہے، معاشی حالات سے مایوس اور نا امید قوم کے لیے صرف چار روز میں امید کی ایسی کرن پھوٹی جس سے اقوامِ عالم میں پاکستان کا مقام غیر یقینی حد تک بلند ہوا۔ قوم کے لیے اس میں واضح اشارے ہیں کہ پاکستان کو یہ مقام بزدلی، مصلحت آمیز خاموشی اور دشمن کے آگے سرنگوں ہونے سے نہیں بلکہ حق کے لیے ببانگِ دہل کھڑے ہونے،باطل کی نفی کرنے،اپنی بقاء و سلامتی کے لیے لڑنے مرنےپر تیار ہونے، قومی یکجہتی، ہم آہنگی اور اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد پر یقینِ محکم سے حاصل ہوا۔ پاکستان علاقائی سپر پاور اور عالمِ اسلام کی قیادت کا اہل ہو سکتا ہے بشرطیکہ حق سچ،عالمی انصاف،قانون کی پاسداری کا ساتھ دینے کے لئےمعاشی کسمپرسی کے خوف سے نکل کر، فرقہ واریت، مسلکی و گروہی سیاست سے اوپر اٹھ کر، ایران کی اخلاقی سیاسی و عسکری مدد کرے۔امریکی نوازشوں سے مرعوب ہونے کے بجائے اپنی توجہ منزلِ مقصود پر مرکوز رکھے یقیناً ہم کامیاب ہونگے۔انشاء اللّٰہ! میرے والد جنرل حمید گل فرماتے تھے “Fear is no policy and surrender is no option” یعنی خوف کوئی حکمتِ عملی نہیں اورہتھیار ڈالنا کوئی چارہ نہیں ۔

تازہ ترین