• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مصنوعی نہیں عالمی انسانی ذہانت سے کام لیجئے‘‘

...نظریات کے ملبوں، اخلاقیات کے کھنڈرات ،بچوں اور عورتوں اور بزرگوں کی بے گور و کفن لاشوں پر کھڑی دنیا کو وائٹ ہاؤس سے فائر بندی کی اطلاع مبارک۔ آسمان کی آنکھ نے دیکھا کہ کس طرح اسرائیل کا غرور خاک میں ملایا گیا امریکہ کی برتری کا تصور کس طرح ریزہ ریزہ ہوا۔ منظر عام پر اس وقت کوئی عالمی قیادت نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس ،کریملن، 10ڈاؤننگ سٹریٹ، چیلسی پیلیس سے قیادتیں چھن چکی ہیں۔ ایک دور تھا جب ایسی جنگ جویانہ صورتحال میں امریکی سیکرٹری اسٹیٹ، روسی وزیر خارجہ، برطانوی وزیر خارجہ مختلف دارالحکومتوں میں اترتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں میٹنگیں ہوتی تھیں۔ عالمی رائے عامہ آتش و آہن کی بارش سے بہتے خون پر کانپ رہی ہوتی تھی۔ سوئٹزر لینڈ غیر جانبدارانہ پالیسیوں کیلئے متحرک ہو جاتا تھا۔ مشرق بعید میں جکارتہ، کوالالمپور، سنگاپور سے امن کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ ایٹم بم کی تباہ کاری سے متاثرہ جاپان بھی تڑپ اٹھتا تھا۔ بیجنگ امریکہ کو للکارتا تھا۔ اب انسانوں سے بھری فلک بوس عمارتیں منہدم ہو رہی ہیں۔ آسمانوں سےشعلے برس رہے ہیںلیکن سب ٹرمپ کی طرف دیکھتے ہیں۔ 21ویں صدی کی جھڑپوں میں انسان ٹیکنالوجی کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔ کتنا بے حس ہو گیا ہے انسان اور کتنا پتھر دل ہو گیا ہے میڈیا۔ عالمی ضمیر تو شاید کئی سال سے جبری رخصت پر ہے۔ واشنگٹن سے لیکر ٹوکیو تک سارے حکمران اپنی رعایا کے ضمیروں کو خواب آور گولیاں دے رہے ہیں۔ غزہ میں کس تسلسل سے ماؤں، بہنوں، سہاگنوں، نوجوانوں بچوں، نو مولودوں ،رحم مادر میں پلتے وجودوںکو بموں میزائلوں گولیوں سے قتل کیا جا رہا ہے۔ پورا گلوب بہت ہی بے دردی سے دیکھ رہا ہے۔ قراردادیں اسی امریکہ کی طرف سے ویٹو کی جا رہی ہیں جو اب امن کا دولہا بن کر سامنے آرہا ہے۔ غزہ میں پوری دنیا کے سامنے انسانی نسل ختم کی جا رہی ہے۔ کسی نے وہاں جنگ بندی کیلئے کسی سے بات نہیں کی۔ جب آپ 60 ہزار سے زیادہ زندگیوں کے قتل عام کو خاموشی سے جائز سمجھ رہے ہیں اور 56 اسلامی ممالک اپنے ان کلمہ طیبہ پڑھنے والے فلسطینی بھائیوں کی چیخوں سے حرکت میں نہ آئیں بلکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے امریکی صدر کیلئے آنکھیں زلفیں اور دل بچھا رہے ہوں۔ ظالم اور بربر اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے بجائے اور مضبوط کر رہے ہوں۔ تو کہاں کی انسانیت اور کہاں کی اسلامی اخوت اور کہاں کی ڈپلومیسی۔ جون 2025ءمیں انسانی تہذیب دو ہزاریوں اور بہت زیادہ متحرک صدیاں گزار کر مصنوعی ذہانت کی خود کار بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے ۔جب ہر روز Algorithmicsکی طلسماتی دنیا میں نت نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نئے علاقائی ،قبائلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو جنم دے رہا ہے۔ عالمگیریت کا رد شروع ہو چکا ہے۔ ہر خطے میں قوم پرستی زوروں پر ہے۔ امریکی زیادہ امریکی ہو گئے ہیں۔ چین میں چینیت عروج پر ہے۔ جرمن زیادہ شدت پسند جرمن 'انگریز زیادہ انگریز اور عرب قوم پرستی اب قطر پرستی ،کویتی تعصب ،امارا تی حد بندی، عراقیت، اردنیت ،سعودیت اور مصر بازی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ روس کا ریچھ اب زیادہ بدمست ہے مگر صرف اپنے علاقے میں ... رابطوں کے حوالے سے دنیا ایک عالمی گاؤں ضرور ہے لیکن صرف تجارت اور کاروبار کیلئے۔

انسان ٹیکنالوجی کی غلامی میں از خود بہت خوش ہے۔ تدبر پر خود کاری نے غلبہ پا لیا ہے۔ عالمی تعاون کے بجائے علاقائی تعاون پر زیادہ زور ہے۔ جہاں آبادی زیادہ ہے وہیں وسائل اور دولت کی تقسیم زیادہ غیر منصفانہ ہے۔ انسانی ہمدردی کے بجائے وہاں ہلاکت خیز ٹیکنالوجی میں سبقت پر شادیانے بجائے جاتے ہیں ۔جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی میں بھی طبقاتی تفاوت زیادہ ہو گیا ہے۔ پرنٹ کی عدم مقبولیت اور محدود حلقہ اثر نے زندگی کو مجموعی طور پر دیکھنے کے بجائے جزوی طور پر مشاہدے کی عادت ڈال دی ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا مناظر اپنی مرضی سے دکھاتا ہے اور صرف چند جھلکیاں۔ پرنٹ کی طرح پورا منظر نامہ نہیں دکھاتا ہے۔ایک تنازع تو وقتی طور پر طے ہو جاتا ہے مگر یہ تصفیہ نئے تنازعات کو وجود میں لے آتا ہے...پہلے زبانیں ثقافتیں تہذیبیں اور ادبی میراث انسانوں کو قریب لاتی تھی۔ اب قوموں کے درمیان اعتماد اور اعتبار اٹھ رہا ہے۔ صدیوں کی تحقیق کے بعد وجود میں آنے والا جمہوری اور عدالتی نظام اب افراد کے ہاتھوں میں پورے قانونی انداز سے کھلونا بن رہا ہے۔ تجارتی جنگیں ملکوں کو دیوالیہ کر رہی ہیں۔ فائر بندی کے معاہدے مستقل امن کیلئےنہیں نئی جنگوں کی تیاری کیلئے ہو رہے ہیں۔ دوسری قوموں کیلئے غربت جہالت طبقاتی فاصلے ختم کرنے والی بیسویں صدی کی امریکی امداد کو صدر ٹرمپ نے ایک جنبش قلم سے منسوخ کر دیا ہے۔ لیکن ان قوموں پر مسلط منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں کی پذیرائی بیسویں صدی کی طرح ہی ہو رہی ہے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی نظر سے میں جب آسٹریلیا کے صحراؤں سے کینیڈا کے خالی برفانی رقبوں کو دیکھتا ہوں۔ بڑھتے تنازعات ہر خطے میں چنگاریوں کی طرح سلگ رہے ہیں۔ ایک ذرا سی تیز ہوا چلے تو وہ بھڑک کر شعلہ بن جاتی ہے۔ قیادتیں چھوٹے چھوٹے تنازعات طے نہیں کر پاتیں بڑے تنازعات کا تصفیہ کیسے کریں گی۔ واشنگٹن، لندن، برسلز پیرس ،برلن، ماسکو ،بیجنگ، ریاض جو کبھی عالمی فیصلے کرتے تھے اب اپنے مقامی مسائل کو بھی حل نہیں کر پا رہے۔جب دنیا نظریات کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ علاقائی اور شخصی طرز حکومت اختیار کرتی ہے وقتی قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ انسانوں کی بین الملکی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرتی ہے تو اسی قسم کا انتشار برپا ہوتا ہے ... شامت اعمال ما صورت ٹرمپ گرفت۔ تہران نے 1979ء سے مسلسل عالمی پابندیوں کے باوجود اپنے گھوڑے تیار رکھے۔ اپنی تہذیب میراث کا تحفظ کیا۔ ٹیکنالوجی کو اپنے تابع رکھا تو وہ کتنے محاذوں پر کامیاب رہا۔ اگر عالم اسلام اور تہران کے ہمسائے اس استقامت میں اس کیساتھ ہوتے تو یقیناً دنیا کا منظر کچھ اور ہوتا ۔اس پیچیدہ صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے ضرورت ہے عالمی رائے عامہ میں تبادلہ خیال کی، انسانیت کو درپیش خطرات پر مشترکہ مفاہمت کی، مسائل کے علاقائی تصفیوں کے بجائے اجتماعی عالمی حل کی 'پالیسی سازی میں مربوط شراکت کی، اپنی اپنی جگہ پارلیمنٹوں میں اس صورتحال پر مباحثوں کی۔ دنیا بھر کے مورخین ،تجزیہ کاروں اور میڈیا ہاؤسوں میں رابطے بڑھنے چاہئیں۔ انسانی تہذیب ،تاریخ ،تمدن اور اپنی اولادوں کو بادشاہوں، امیروں، متعصب حکمرانوں اور شخصی قیادتوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ سوچیے کہ 2025ءکی پہلی ششماہی میں صورتحال کی نزاکت کو سنبھالنے میں جو حکمران سنجیدہ نہیں رہے وہ اگلی ششماہی میں کیا بہتر فیصلے کر پائیں گے؟

تازہ ترین