صدر ٹرمپ ایران کی جنگ رکوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں جس کے وہ خود فریق تھے۔ کبھی پاکستان و ہندوستان کی جنگ رکوانے کا اعزاز مانگتے ہیں تو کبھی ایران اسرائیل کے درمیان جنگ رکوانے کا۔ براہِ راست اپنے بی ـ ٹو بمبار اور 125 لڑاکا طیاروں سے ایران کی جوہری تنصیبات پر ہزاروں ٹن گولہ بارود گرا کر تو کبھی آیت اللہ خامنئی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر، وہ کیسے غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں؟ 13جون کے اسرائیلی حملے میں نیتنز اور اصفہان کے جوہری پلانٹ کے مکمل تباہ ہونے کا اعلان ہوا، صرف پہاڑوں میں گھرے فردو کی جوہری سائٹ رہتی تھی جبکہ ایرانی عسکری، فضائی، انٹیلیجنس و دیگر قیادت کو ختم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ ایران پر امریکی حملے کے بعد ٹکڑیوں میں خبریں نکل رہی ہیں کہ حملے سے پہلے ایران کو باضابطہ اطلاع دے کر فردو سے جوہری مواد ہٹانے کا موقع دیا گیا ۔ اسرائیل 40 سال سے رجیم چینج اور ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کا اعادہ کر رہا تھا۔ آیت اللہ خمینی اور بعد ازاں آیت اللہ خامنئی کا جوہری بم بنانے کے خلاف واضح فتاویٰ کے باوجود’’شیطن یاہو‘‘ کا سالوں منترا چلتا رہا ہے کہ ایران چند ہفتوں میں جوہری بم بنا لے گا۔ ہر سال اسے دورہ پڑتا ہے اور وہ ایران پاکستان کے خلاف ہذیان بکتا ہے جسکی آڑ میں مغرب و امریکہ نے ایران اور پاکستان پر پابندیاں عائد کر رکھیں ہیں۔ تیل و گیس کے قابلِ ذکر اثاثوں،اہم محل وقوع اور دنیا کی بڑی أفواج میں سے ایک ہونے کے باوجود، ایران کو معاشی طور پر معذور کر دیا گیا ہے، لیکن دنیا کی سب سے زیادہ پابندیوں کے شکار ایران نے ہار نہ مانی ۔جبکہ عالمی بینکاری نظام اور عالمی منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کے باوجود تمام پابندیوں سے بچ بچا کر 43 سال سے نہ صرف اپنا متبادل بینکاری نظام وضع کیا بلکہ اپنی مقامی صنعت سازی کو معیاری ترقی دی اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ولایتِ فقہی نظام کو بھی کامیاب کر دکھایا۔ ایران کے خلاف جنگ مسلط کرنے کا مقصد یورینیم افزودگی کی صلاحیت کی مخالفت نہیں بلکہ مغرب کے بنے سودی نظام پر قائم آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تابع نظام کو دنیا کی واحد ریاست جو تاحال اس کا حصہ نہیں بنی، پر لاگو کرنا ہے۔ دنیا بھر کی ریاستیں ماسوا ئے ایران کے اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام کے آگے گھٹنے ٹیک چکیں ہیں۔ یوں اس نظام کے داعی امریکہ و لندن میں بیٹھے معاشی دہشت گرد، ایران کی ان کے نظام سے بغاوت و آزادی کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔
صدر ٹرمپ کا ایران پر حملہ کرنے سے پہلے آیت اللّٰہ کی جائے پناہ معلوم ہونے کے دعوے کا مقصد معاملات میں نرمی روا رکھنا نہیں تھا۔ بلکہ اس سےثابت ہوتا ہے کہ امریکہ کو ان کے حوالے سے معلومات نہ تھیں وگرنہ اس نے اسرائیل کے ذریعے کاری ضرب لگانی تھی۔ دراصل ٹرمپ چاہتے تھے کہ آیت اللّٰہ کے قریبی لوگ گھبرا کر انہیں کہیں اور منتقل کریں تاکہ آیت اللّٰہ کو ٹارگٹ کیا جا سکے۔ اسی طرح فردو سے افزودہ یورینییم نکالنے کا موقع دینا بھی دراصل اپنے ہندوستانی جاسوسی نیٹ ورک کو جائے وقوعہ کے متعلق معلومات کی فراہمی تھا۔ امریکی نیشنل انٹیلیجنس کی ڈائریکٹر تلسی گیبرٹ نے مارچ میں کانگرس کے سامنے اپنی رپورٹ میں بیان کیا تھا کہ ایران جوہری بم یا ہتھیار نہیں بنا رہا۔’’شیطن یاہو‘‘ اور ٹرمپ نے ایسی تمام رپورٹوں کے باوجود اور کانگرس کی ِبنا اجازت ایران پر حملہ کیا۔ جیسے ہی آئی اے ای اے نے تصدیق کی کہ ایران کے پاس جوہری بم یا وار ہیڈ نہیں اسرائیل ایران پر چڑھ دوڑا۔ ایران کی جانب سے اتنے سخت اور کامیاب جوابی وار نے اسرائیلیوں اور شیطن یاہو کے چھکے چھڑا دیے ۔ اسرائیل نے خطے میں بدمست غنڈے کی مانند بیچارے نہتے مسلمانوں پرظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے ، اوپر سے امریکہ سے اسلحہ و ڈالروں کی مسلسل ترسیل ۔ درحقیقت اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پر مغرب اور امریکہ کی اجارہ داری قائم رکھنے والا امریکہ کا زمینی ایئر کرافٹ کیریئر ہے۔ اسی لئے اس کی دہشت گردی اور غنڈا گردی سے خائف عرب ممالک امریکہ کے آگے سرنگوں رہتے ہیں۔ قیمتی و معدنی وسائل کی آمدنی مغربی بینکاری نظام کے تحت مغرب کے قبضے میں رہتی ہے، جب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر کھربوں ڈالر کے معاہدے سمیٹ رہے تھے تو مسلمان اس غم سے نڈھال تھے کہ عرب حکمران غزہ کے مظلوموں کی مدد کے بجائے کیسے ظالم کے ہاتھ معاشی طور پر مضبوط کر رہے ہیں؟ حا لا نکہ یہ معاہدے صرف دکھاوے کے ہیں جبکہ عربوں کی دولت تو مغربی بینکوں کے قبضے میں ہے جسے وہ اپنی مرضی سے نکال سکتے ہیں نہ استعمال کر سکتے ہیں۔ یہی وہ غیر منصفانہ، ظالمانہ اور جابرانہ نظامِ معیشت ہے جس کی اسلام نےنفی کی ہے ، اور سود بھی اسی لیے حرام قرار دیا گیا کہ وہ لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کا ظالمانہ نظام ہے۔
پاکستان کو حالات کا بھرپور طریقے سے ادراک کرنا ہوگا کیونکہ اگر مغرب و امریکہ کو ایران کی پر امن جوہری صلاحیت، متبادل بینکاری نظام اور ولایتِ فقہی قبول نہیں تو پاکستان کی جوہری صلاحیت، سود کا قانوناً حرام قرار دیا جانا اور قوم میں نظریۂ پاکستان کے حوالے سے انقلابی روح کی بیداری کیونکر قابلِ قبول ہوگی؟ پاکستانی آئین کی شق ٹو ـ اے جس کا دیباچہ قراردادِ مقاصد ہے، اقرار کرتی ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ، حاکمیت کے اختیارات اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور پاکستان کے عوام جو اختیارات اللّٰہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کریں گے ان کی حیثیت مقدس امانت کی ہوگی۔ پاکستان تو اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ حال ہی میں ہندوستان نے لغو جواز پر پاکستان پر حملہ کیا جو اسکے منافقانہ، شاطرانہ اور مستقبل کے خطرناک ارادوں کا مظہر تھا لیکن پاکستان کی بہادر افواج نے اسے شہہ مات دے دی۔ اب امریکی رسالے’’فارن افیئرز‘‘نےامریکی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیا کہ پاکستان چین کے تعاون سے امریکہ تک مار کرنے والا انٹر کونٹینینٹل بلسٹک میزائل بنا رہا ہےجو ہمارا بازو مروڑ کر اپنی من مرضی پر عمل کروانے اور پابندیاں لگانے کی جانب اشارہ ہے۔ پاکستان سے بدترین شکست کے بعد ہندوستان میں ’’موذی‘‘ اور بی جے پی کی بہت سبکی ہو رہی ہے۔ بیجنگ میں شنگھائی کانفرنس کے اجلاس میں بھی پاکستان کے خلاف ہندوستانی بیانیہ پٹ گیا جس لئے اجیت دوول اور راجھ ناتھ سنگھ بھی بدلے کی آگ میں بھڑک رہے ہیں۔ مبینہ طور پر 14جولائی کے قریب ہندوستان دوبارہ پاکستان پر لمبی جنگ مسلط کرنے کے لیے حملہ کرے گا اور پاکستان کے جوہری اثاثوں کو نشانہ بنائے گا۔ اس کی تیاری اس نے بڑی عید سے پہلے اور فوراً بعد کراچی کے پاس فضائی مشقوں سے کی ہے۔ قوم نے پہلے بھی ہمیشہ عزت سے جینے کو مقدم جانا اور اب بھی اپنی حمیت و غیرت پر کبھی سودا نہیں کرے گی۔ انشاءاللّٰہ (جاری ہے)