دوشِ نبویؐ کے شہ سوار، شہدائے کربلاؓ کے قافلہ سالار، جوانانِ جنّت کے سردار و تاج دار، سلطنتِ روحانیت کے شہریار، حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کے علَم بردار، نواسۂ رسولؐ، شہزادۂ کونین، خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نُورِعین، پیکرِ صبر و رضا، جگرگوشۂ مصطفیٰﷺ، نورِنگاہِ مُرتضیٰؓ، سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے مظہرِاتم سیّدنا حسین ابنِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نامِ نامی پوری اسلامی تاریخ میں منفرد شان، ممتازمقام کا حامل ہے۔
ابوعبداللہ آپؓ کی کُنیت، زکی، رشید، طیّب، وفی، سیّد، مبارک، سیّد شباب اہل الجنّۃ، ریحانۃ النّبی ﷺ آپؓ کے القاب ہیں۔ 5شعبان المعظّم سن4 ہجری کو مدینۃ النبی ﷺ میں آپؓ کی ولادت ہوئی۔ ولادت کےساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیّین حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ نے آپؓ کے کان میں اذان دی اور اپنا لعابِ دہن منہ میں داخل فرمایا۔
آپؓ کےحق میں دُعا کی اور’’حُسین‘‘ کے نام سے موسوم فرمایا۔ دامادِ مصطفیٰؐ، شیرِخدا، فاتحِ خیبر سیّدنا علی حیدر کرم اللہ وجہہ آپؓ کے والد اور خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپؓ کی والدہ تھیں۔ اس لحاظ سے آپؓ کی ذاتِ گرامی قریش کا خلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھی۔ آپؓ کا شجرۂ طیّبہ اس طرح ہے۔ حسین بن علیؓ بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف قرشی ہاشمی و مُطّلبی ’’دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی۔‘‘
نواسۂ رسول، سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حُسن وجمالِ مصطفیٰ ﷺ کا روشن آئینہ اور سیرتِ احمدِ مجتبیٰ ﷺ کا مظہرِ اتم تھے۔ آپؓ کا خُلق، خُلقِ رسول اور کردار، کردارِ رسولؐ تھا۔ مختصر یہ کہ آپؓ کی سیرت وکردار، خصائل وشمائل اپنے نانا سیّدِ عرب وعجم حضرت محمّد ﷺ کی سیرتِ پاک کا عکسِ جمیل اور پَرتو تھے۔
آپؓ گفتگو فرماتے، تو یوں معلوم ہوتا، سرورِ کونین، امام الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ ارشاد فرما ہیں۔ آپؓ حُجرۂ بتولؓ سے باہر تشریف لاتے، تو ایسا لگتا، گویا فاران کی چوٹیوں سے سیدہ آمنہ کا چاند طلوع ہورہا ہے۔ آپؓ کی ذاتِ گرامی ایسا آئینۂ نور تھی، جس میں جمالِ مصطفائیؐ کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ غرض نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ وبتولؓ، شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صُورت میں بھی خُلقِ مُجسم ﷺ کاعکسِ جمیل اور سیرت میں بھی آپ ﷺ کاجلوۂ عین بہ عین تھے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق و صداقت، جُرأت وشجاعت، عزم واستقامت، ایمان و عمل، سیرت و کردار، تسلیم و رضا، صبر و برداشت اور ایثار و قربانی کا مُجسّم پیکر تھے۔ نواسۂ رسولؐ کو جرأت و شجاعت اور حق گوئی و بےباکی اپنے نانا، امام الانبیاء، سیدالمرسلین، فخرِدوعالم حضرت محمّد ﷺ اور اپنے والدِ گرامی شیرِ خدا، حیدرِ کرّارسیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے وَرثے میں ملی تھی۔ آپؓ کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں صبر و استقلال اور تسلیم و رضا کی وہ روشن مثال ہے، جو منفرد مقام اور تاریخ ساز اہمیت کی حامل ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ سیّدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بےحد محبت فرماتےتھے۔ جب آپؓ کم سِن تھے، تو رسالتِ مآب ﷺ کبھی آپؓ کے رخسار و لب چُومتے، کبھی گود میں کِھلاتے، کبھی سینے اور پیٹھ پر بٹھاتے، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ امام الانبیاء، سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ سجدے میں ہوتے اور آپؓ، رسول اللہ ﷺ کی پُشت مبارک پر سوار ہوجاتے، آپ ﷺ نہ صرف یہ کہ اپنے محبوب نواسے، جوانانِ جنّت کے سردار حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیٹھنے دیتے، بلکہ اپنے نُورِنظر کے لیے سجدے کو اور طول دیتے اور کبھی اپنے ہم راہ منبر پر بٹھاتے۔ (ابنِ کثیر/ البدایۃ والنھایۃ 33/8)
روایات کے مطابق نواسۂ رسولؐ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرۂ مبارک اپنے نانا رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور سے مشابہ تھا اور سیّدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسمِ مبارک رسول اللہ ﷺ کے جسدِ اطہر کے مشابہ تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ’’ایک روز مَیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا کہ حسنین کریمینؓ آپ ﷺ کے سینۂ اطہر پر سوار ہیں اور کھیل رہے ہیں۔
مَیں نے عرض کیا، ’’یارسول اللہ ﷺ! کیا آپﷺ اپنے اِن دونوں نواسوں سے اِس درجہ محبّت فرماتے ہیں؟ تو رسالت مآب ﷺ نے فرمایا۔ کیوں نہیں، یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘ (طبرانی/ معجم کبیر) روایت کے مطابق ایک بار رسول اللہ ﷺ نے سیّدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رونے کی آواز سُنی تو سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا۔ ’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ حسینؓ کا رونا مجھے اندوہ گیں کرتا ہے۔‘‘ (طبرانی/ معجم کبیر)
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت عبادت گزار تھے۔ نماز، روزوں اورحج کا خاص اہتمام فرماتے، آپؓ نے بیس حج پا پیادہ کیے۔ بعض روایات میں پچیس حج کا ذکر آتا ہے۔(ابنِ کثیر/ البدایۃ والنھایۃ 207/8) آپؓ کی سخاوت و فیاضی اور جُود وسخا بےکنارتھی، راہِ خدا میں انفاق اور مال خرچ کرنا آپؓ کا محبوب مشغلہ تھا۔ انتہائی متواضع تھے۔
ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار کسی مقام سےگزررہےتھےکہ غربا ومساکین کی ایک جماعت نظر آئی، جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھارہی تھی۔ آپؓ نےاُنہیں سلام کیا، جواب میں انہوں نے عرض کیا، فرزندِ رسولؐ! ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے، آپؓ گھوڑے سے اُتر کر اُن کے ساتھ بیٹھ گئے اور کھانے میں شریک ہوئے، اور اس موقعے پر آپؓ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی۔ ترجمہ: ’’بےشک، اللہ تعالیٰ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(سورۃ النحل23/)
صحابیٔ رسول حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو چاہے کہ اہلِ جنّت میں سےکسی کو دیکھے‘‘یا آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ ’’جو چاہے کہ جوانانِ جنّت کےسردار کو دیکھے، وہ حسین ابنِ علیؓ کو دیکھ لے۔‘‘حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں آپؓ کم سِن تھے۔ حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں آپؓ سِن شعور کو پہنچ چُکے تھے۔
خلیفۂ دوم،مُرادِ رسولؐ سیّدنا حضرت عمر فاروقؓ آپ سےنہایت شفقت و محبّت سے پیش آتے اورقرابتِ رسولﷺ کا خاص لحاظ فرماتے تھے۔ خلیفۂ سوم سیّدنا حضرت عثمانِ غنیؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ عالمِ شباب میں داخل ہوچُکے تھے۔ عہدِ عثمانی میں میدانِ جہاد میں قدم رکھا۔ 30ہجری /650 عیسوی میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے۔ حضرت عثمانِ غنیؓ کے خلاف بغاوت کے دوران جب بلوائیوں نے کاشانۂ عثمان غنیؓ کا محاصرہ کرلیاتوآپ بھی حضرت حسنؓ کے ہم راہ قصرِ خلافت کے دروازے پر خلیفۂ رسولؐ، حضرت عثمانِ غنیؓ کی حفاظت کے لیے مامور ہوئے۔
آپؓ کے والدِ گرامی شیرِ خدا حضرت علی المرتضیٰؓ نے اپنےعہدِ خلافت میں جب کوفہ کو دارالخلافہ بنایاتوسیدنا حسین ابنِ علیؓ مدینۃ النبی ﷺ سےکوفہ تشریف لائے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے وقت آپ کوفہ میں موجود تھے۔ آپؓ نے اسلام کا ارتقاء اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اسلامی تاریخ کے جملہ واقعات آپ کے سامنے پیش آئے، آپؓ تمام مراحل کا بغورجائزہ لیتے رہے۔ جب یزید کوولی عہد نام زد کیا گیا، تو آپؓ نے اس کی سخت مخالفت کی اور یزید کی ولی عہدی کے ناجائز ہونے کا برملا اعلان کیا۔
یہ ایک روشن، ابدی حقیقت ہےکہ حق وباطل، کفر واسلام کی معرکہ آرائی روزِاول سے جاری ہے اورروزِآخر تک رہے گی۔ حق کی بقا، اسلام کی سربلندی اور بالادستی، اعلیٰ انسانی اقدار کا تحفّظ، قدرت کا اٹل، ابدی فیصلہ ہے، جب کہ طاغوتی اور ابلیسی قوتوں کی سرکوبی اور ان کا زوال بھی آئینِ فطرت ہے۔ حق کی سربلندی اور دین کی عظمت و بقا کے لیے جدوجہد اور جہاداسوۂ پیمبری اورانسانی ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس حوالے سے کیا خُوب کہا گیا ہے؎ آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی…اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔
سرورِ کائنات، حضرت محمّد مصطفی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے!’’سلطانِ جائر(ظالم وجابر بادشاہ اوراِن اوصاف کے حامل حاکمِ وقت) کے خلاف کلمۂ حق بلند کرناسب سےبڑاجہاد ہے۔‘‘ (نسائی، ترمذی) مستند تاریخی روایات کے مطابق رجب 60ھ/680ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دینِ مبین کی رُوح کے منافی ظلم وجبر اور استبداد پرمبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا، بالجبرعام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا، مدینۂ منورہ میں ایک مختصر حُکم نامہ ارسال کیا گیا، جس میں تحریر تھا۔ ’’حسینؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے، اس معاملے میں پوری سختی سےکام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ بیعت کرلیں۔‘‘ (ابنِ اثیر/ الکامل فی التاریخ3/263)
بعدازاں، دیکھنے والوں نے دیکھا اور تاریخ نے اپنے اوراق میں رقم کیا کہ کس طرح جرأتِ اظہار، حق گوئی وبےباکی، اعلائےکلمۃ اللہ اور شریعتِ مصطفیؐ کےتحفّظ اور بقا کےلیے نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ، سرکارِ دوجہاںؐ کے نورِ نظر، جوانانِ جنّت کے رہبر، شہیدِ کربلا، سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ ہاشمی و مطّلبی نے کہ جن کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں حق و صداقت، جرأت و شجاعت، ایمان و عمل، اطاعتِ ربانی، عشق و وفا اور صبرورضا کا بنیادی حوالہ ہے۔ اپنے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور اپنے نانا امام الانبیاء حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی اتباع میں سلطانِ جائر، حاکمِ وقت، یزید کے خلاف جرأتِ اظہار اوراعلانِ جہاد بلند کرتے ہوئے اسوۂ پیمبری پرعمل کیا اور اُمّتِ مسلمہ کو حق و صداقت اور دین پر مرمٹنے کا درس دیا۔
آپؓ نے خلقِ خدا پر اپنے ظالمانہ قوانین کی پیروی کا حُکم دینے اور محرماتِ الٰہی توڑنے والی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ببانگِ دہل فرمایا۔ ’’لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرماتِ الٰہی کو حلال کرنے والے، اللہ کےعہد کو توڑنے والے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور ظلم و زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاًوعملاً اُسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو اللہ تعالیٰ کو یہ حق ہے کہ اُس شخص کو اُس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے، آگاہ ہوجائو، اِن لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑدی ہے، مُلک میں فساد پھیلایا اورحدوداللہ کو معطّل کردیا۔
یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصّہ زیادہ لیتے ہیں،انہوں نےاللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کردہ چیزوں کو حرام، اس لیےمجھے اس کے بدلنے کا حق ہے۔‘‘(ابنِ اثیر/ الکامل فی التاریخ 4/40)۔ اور یہی وہ سب سے بڑاجہاد اور دینی فریضہ تھا، جس کی ادائی کے لیے نواسۂ رسولؐ، سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ فرمانِ نبویؐ اور اسوۂ پیمبریؐ کی پیروی میں وقت کے سلطانِ جائر، یزید کے خلاف ریگ زارِ کرب و بلا میں 72 نفوسِ قدسیہ کے ہم راہ وارد ہوئے اور میدانِ کربلا میں حق وصداقت اور جرأت و شجاعت کی وہ بےمثال تاریخ رقم کی، جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی اور حق کے متوالے، ظالم وجابر قوّتوں کے خلاف صف آرا مردانِ حُر اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہیں گے۔
روایت کے مطابق، جب سیّدنا حسین ابنِ علیؓ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ کربلا کی جانب روانہ ہوئے اور روکنے والوں نے آپ کو روکنا چاہا، تو آپؓ نےتمام باتوں کے جواب میں ایک ہی بات فرمائی۔ ’’مَیں نے (اپنے نانا) رسولِ اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، آپؐ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک کام کا حُکم دیا ہے، اب بہرحال مَیں یہ کام کروں گا،خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے؟
آپؓ نے فرمایا ’’ابھی تک کسی کو نہیں بتایا، نہ بتاؤں گا، یہاں تک کہ اپنے پروردگارِ عزّوجل سے جا ملوں گا۔‘‘(ابنِ جریر طبری 5/388، ابن کثیر/ البدایہ والنہایہ 8/168، بحوالہ امام حسینؓ اور واقعۂ کربلا، ص 70)ابراہیمؑ کے خواب کی تعبیر دس ذی الحجہ کو پوری ہوئی اور سیّدنا حسینؓ کا خواب دس محرم 61ھ کو تعبیر آشنا ہوا۔ دونوں خوابوں کی تعبیر ’’قربانی‘‘ تھی، دس ذی الحجہ کومنیٰ میں یہ خواب اپنے ظاہر میں رُونما ہوا اور دس محرم کو سرزمینِ کربلا پراپنی باطنی حقیقت کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔
یوں باپ نے جس طرزِ قربانی کا آغاز کیا تھا، تسلیم و رضا اور صبر و وفا کے پیکر، فرزند نے پوری تابانیوں کے ساتھ اس عظیم سنّت کو مکمل کیا۔ حضرت اسماعیلؑ سے جس سنّت کی ابتدا ہوئی تھی، سیّدنا حسینؓ پراُس کی انتہا ہوئی۔
سیّدنا ابراہیمؑ و اسماعیلؑ اور حضرت حسینؓ کی قربانیوں میں یہی جذبۂ عشق و محبّت کارفرما تھا۔ اِسی لیے یہ قربانیاں آج تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گی۔ محسنِ انسانیت، ختمی مرتبت، سرورِ کائنات، حضرت محمّد مصطفی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔ ’’سلطانِ جائر (ظالم وجابر بادشاہ اور ان اوصاف کے حامل حاکمِ وقت) کے خلاف کلمۂ حق بلند کرناسب سے بڑاجہاد ہے۔‘‘(نسائی، ترمذی)
آخر وہ وقت بھی آیاکہ ریگ زارِکرب وبلا میں نواسۂ رسولؐ، دوشِ نبویؐ کے شہہ سوار، جاں نثارانِ کربلا کےقافلہ سالار، سیدنا حسین ابن علیؓ اور ان کے بہتّر پروانوں اور جاں نثاروں نے حق و صداقت کا پرچم بلند رکھتے ہوئے دینِ مبین کی سربلندی، عدل وانصاف کی بالادستی، اعلیٰ انسانی اقدار اور دینی شعائر کے تحفّظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ حق کی سربلندی اورباطل کی سرکوبی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنا، مردانِ حق کا شیوہ ہے۔
سیدنا حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلاؓ اُن لوگوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں، جو اللہ کے دین کی خاطر انسانوں کا شرف ومجد قائم رکھتے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے سفر میں نہ کانٹوں کی پروا کرتے ہیں اورنہ اُن شدائد سے ہراساں ہوتے ہیں، جو اس سفر میں تاریخ کی شاہ راہ میں پیش آتے ہیں۔ زندہ وہی رہتے ہیں، جو حق کے لیے جیتے اور حق کے لیے مرتے ہیں۔ جو طاقت کے زعم، قوت و اقتدار کے غرور میں اندھے ہوکر، یمین و یسار سے بےنیاز اپنی طاقت پر بھروسا کرتے اور اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ مسندِ اقتدار دنیا کا انعام اور آخرت کا توشہ ہے، وہ سدا ذلیل و رسوا ہی ہوتے ہیں۔
یہ تاریخ کی ایک روشن حقیقت ہے کہ سانحۂ کربلا کے بعد اقتدار کی مسند لپیٹ دی گئی، شاہی ایوانوں میں گرد اُڑنے لگی، ظالم و جابر فنا کے گھاٹ اتار دیے گئے، اقتدار کے ایوانوں میں سکوت طاری ہوگیا، یزید اور اس کےحواری بے نام ونشاں ہوکر مٹ گئے، لیکن واقعۂ کربلا کی یاد ختم نہیں ہوئی، یہ رہتی دنیا تک اہلِ حق کے دلوں میں حق پرستی کے آتشیں جذبات بےدار کرتی رہے گی۔
؎ نہ زیاد کا وہ ستم، نہ یزید کی وہ جفا رہی… جو رہا تو نام حسینؓ کا، جسے زندہ رکھتی ہے کربلا۔ شہدائےکربلاؓ کے قافلہ سالار سیدنا حسین ابن علیؓ کی شہادت 10محرم 61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر680ء یومِ عاشور،جمعہ کےدن دریائے فرات کے کنارے کربلا میں ہوئی، جہاں آپؓ کو، آپؓ کے بہتّر جاں نثاروں کے ساتھ انتہائی ظلم و سفّاکی کے ساتھ شہید کر دیا گیا اور یوں شہدائے کربلا کے قافلہ سالار سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ اور آپ کے بےمثال جاں نثاروں نے تاریخ کے اوراق پر یہ نقش فرما دیا کہ ؎ عشقِ محبوب میں ہوجاؤ فنا یوں کیفی… عشق ہی سلسلۂ نام ونسب بن جائے۔